سوال: آپ طویل عرصے تک حکومت کی شہ رگ کا حصہ بنے رہے۔ قوم کی تقدیر کے بننے اور بگڑنے کے فیصلے آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوئے۔ بیوروکریسی کا آپ نے مشاہدہ کیا۔ آپ کے سینے میں ان گنت راز محفوظ ہوں گے۔ بے شمار بڑی شخصیتوں کی اصلیت سے آپ واقف ہوں گے تو کیا آپ اپنے ان مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر کوئی ناول یا کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں ان حقائق سے پردہ اٹھائیں؟
قدرت اللہ شہاب: ناول تو نہیں،میں ایک کتاب ”شہاب نامہ‘‘ کے عنوان سے لکھ رہا ہوں۔ آپ اسی کو ناول سمجھیں. اس کے لکھنے کا واقعہ یہ ہے کہ جب ابنِ انشا بیمار ہو کر لندن گیا ہوا تھا میں بھی وہاں تھا۔ یہ اس کی وفات سے چند ہفتے قبل کا واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ وہ اپنی زندگی کا حساب لگا رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اب زندہ نہیں بچے گا۔ مذاق مذاق میں کہنے لگا کہ ”ہندومذہب کی طرح اگر آواگون کا سلسلہ ہو تو میں یہ چاہوں گا، میں وہ چاہوں گا۔” پھر مجھ سے پوچھا اگر تمہیں دوبارہ زندگی گزارنے کا موقع ملے تو تم کیا چاہو گے؟ ”میں نے کہاکہ ”میں معمولی سی تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ یہی زندگی گزارنا پسند کروں گا جو میں نے گزاری ہے۔‘‘ وہ بڑا حیران ہوا۔ میں نے جواب دیا کہ میں ساری زندگی سیلف میڈ رہا ہوں۔ میں نے اپنی محنت سے سول سروس جوائن کی اور کبھی کسی سے یہ نہیں کہاکہ مجھے فلاں پوسٹنگ چاہیے۔ مجھے ہمیشہ خود بخود ایسی پوسٹنگ ملتی رہی جو اہمیت کی حامل تھی۔ میرے دل میں کبھی خواہش بھی پیدا نہیں ہوئی۔ جب یحییٰ خان کے زمانے میں، میں مستعفی ہوا تو میری بیوی (جو اس وقت زندہ تھی) اور بچے کے ساتھ لندن چلا گیا۔ یحییٰ خان نے میری پنشن بھی جاری نہیں کی تھی، میں وہاں پندرہ پونڈ فی ہفتہ کی آمدن پر اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ گزارہ کرتا رہا جو مجھے حکومت برطانیہ دیگر بے روزگاروں کی طرح ادا کرتی تھی لیکن میرے لیے کبھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان حالات میں بھی مجھے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑا۔ نہ میں نے کبھی تنہائی محسوس کی اور نہ ہی فرسٹریٹڈ ہوا۔ ابنِ انشاء میری باتیں کاغذ پر لکھتا رہا۔ آخر میں کہنے لگا کہ تم ان باتوں کو جمع کر کے کتاب لکھو۔ اس طرح میں نے ایک کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا جو ”شہاب نامہ‘‘ کے نام سے شائع ہو گی۔
سوال: کیا یہ آپ کی خودنوشت سوانح عمری ہوگی؟
قدرت اللہ شہاب: بچپن سے لے کر اب تک جو واقعات میں نے دیکھے ہیں ضروری نہیں کہ وہ واقعات سب کو متاثر کریں لیکن جنہوں نے مجھے متاثر کیا، میں انہیں لکھ رہا ہوں۔ اس کتاب کا تعلق تاریخ سے نہ ہو گا۔ یہ شاید ناول بھی نہ ہو، پتا نہیں، یہ سوانح عمری بن پائے گی یا نہیں۔ یہ ملی جلی تحریر ہو گی۔ اس کا ہر باب اپنی جگہ مکمل ہو گا اور سارے ابواب تسلسل میں بھی ہوں گے۔ اس کا ایک چوتھائی حصہ میں لکھ چکا ہوں۔ ایوب خان کے زوال کے ذکر سے آگے ابھی مزید لکھنا ہے۔
سوال: کیا آپ نوٹس کی مدد سے کتاب لکھ رہے ہیں یا صرف یادداشت کے سہارے؟
قدرت اللہ شہاب: میرے ذہن میں ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ میں کبھی نہ کبھی ان واقعات کو لکھوں گا لہٰذا میں پابندی سے نوٹس لیتا رہا ہوں۔
کتاب: ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ از ڈاکٹر طاہر مسعود، اشاعت چہارم، 2012ء، دوست پبلیکیشنز، اسلام آباد