نامور ادیب، شاعر اور سفرنامہ نگار سید ضمیر جعفری مرحوم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں. اُن کے نثری مجموعے ”ضمیر کے ساتھ ساتھ‘‘ کے نام سے تحریر کردہ کئی سالوں کی ڈائریوں کا تعارف نذرِ قارئین ہے.
ضمیر صاحب بھی خوب تھے، کہیں نثر میں نمایاں ہوئے تو کہیں نظم میں، کبھی دوستوں کے ضمیر جعفری ہوتے تو کبھی ٹی وی ناظرین کے لیے ”آپ کا ضمیر‘‘ کے میزبان، کبھی مزاحیہ شاعر اور کہیں بے بدل مزاح نگار۔ وہ ضمیر حاضر ہوتے یا ضمیر غائب، دونوں صورتوں میں تقریبات اوردِلوں میں موجود ہوتے۔ وہ اپنے سادہ، مخلصانہ لہجے، عمدگی سے مزاح میں پروئے لفظوں، جملوں، کھلکھلاتے، شرارتیں کرتے اشعار اور دوستوں کے ساتھ مضبوط تعلق کے باعث عمر بھر اپنے وجود کی طرح نمایاں رہے۔
یکم جنوری 1916ء کو جہلم کے ایک گاؤں موضع چک عبدالخالق میں سید حیدر شاہ کے گھر اور سیدہ سردار بیگم کی گود میں جنم لینے والے سید ضمیر حسین شاہ 83 سال کی ایک بھرپور خوشگوار اور مطمئن زندگی گزار کر 12 مئی 1999ء میں اپنے رب کے حضور حاضری کے لیے بلا لیے گئے۔ سید ضمیرجعفری ضلع جہلم کے جس چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے، وہ نیلی نیلی پہاڑیوں میں گھری وادی میں واقع ہے۔ دریائے جہلم پہاڑوں سے اتر کر اسی وادی میں گنگناتا گزرتا ہے۔ سید ضمیر جعفری کا بچپن اور جوانی چوں کہ اس گاؤں اور وادی میں گزری اسی لیے وہ بھی عمر بھر دھیرے دھیرے بہنے والے دریا کی طرح گاتے، گنگناتے رہے۔ اس وادی کے پھیلاؤ اور وسعت ان کے لفظوں، تعلقات اور سوچوں میں نمایاں رہی۔
دنیاوی نامہ اعمال میں فوج اور سول کی ملازمتوں، دو بیٹوں سید احتشام ضمیر، سید امتنان ضمیر کے علاوہ نثر کی کتابیں، کتابی چہرے، اڑاتے خاکے، کالے گورے سپاہی، جنگ کے رنگ، ہندوستان میں دو سال، آنریری خسرو، ضمیرحاضر ضمیر غائب، سوزِ وطن، شاہی حج، سفیر لکیر، کنگرو دیس میں، پہچان کا لمحہ، نشانِ منزل، مسافرِ شہرِ نو، جدائی کا موسم ، بھید بھرا شہر اور عالمی جنگ کی دُھند میں شامل ہیں۔ شاعری جو ان کی اصل وجہ پہچان تھی، مزاح کی چاشنی میں گندھی ہوئی، جھرنوں کی سی تازگی اور روانی لیے اور وہ بھی ان کی مترنم آواز میں۔ یہی شاعری انہیں ملک اور ملک سے باہر مشاعروں میں لیے لیے پھری۔ شاعری کی کتابوں میں قرینہ جاں، مافی الضمیر، ولائتی زعفران، ضمیریا، مسدسِ بدحالی، بھنور، بادبان، کھلیان، ارمغانِ ضمیر، ضمیرِ ظرافت و سرد گوشیاں اور نعت نذرانہ شامل ہیں۔
انسان کو زندگی میں بہت سی ادبی شخصیات، شاعروں، ادیبوں سے واسطہ رہتا ہے مگر جس قدر بی بے، میٹھے اور کھلے دل والے ضمیر جعفری صاحب تھے شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ شاعری اُن پہ اٹھتے، بیٹھتے، چلتے، پھرتے اترتی تھی۔ سننے والے کبھی ان اشعار پر مسکرا دیتے، کبھی کھلکھلا کر قہقہہ لگاتے، ہاں کبھی کبھی سنجیدہ اشعار کا موڈ ہوتا تو وہاں بھی ان کی فکری موجودگی ان کے وجود کی طرح نمایاں رہتی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ دل اور مشاعرہ دونوں ہی آسانی سے لوٹ لیتے تھے۔
زیرِ تبصرہ ”ضمیر کے ساتھ ساتھ” کے عنوان سے یہ کتابیں سید ضمیر جعفری کی ”ذاتی ڈائریوں” پر مشتمل ہیں۔اپنی اس نثری سیریزکے بارے میں آپ یوں رقم طراز ہیں:
”میں ستمبر 1943ء سے تقریباً روزانہ ڈائری لکھ رہا ہوں۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ شب کو ڈائری لکھ کر ہی بستر پر جاؤں، خواہ ایک سطر ہی لکھوں۔ کوئی رت جگا آپڑے تو اگلی صبح پہلا کام یہی کرتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں میرے دماغ میں یہ ”کیڑا‘‘ کیوں پیدا ہوا اور میں حیران ہوں کہ مجھ جیسا ”چست‘‘ گزشتہ پچاس پچپن برس سے اس ”کیڑے‘‘ کی پرورش کیسے کرتا ہے۔ اتنی استقامت کا مظاہرہ میں نے ذاتی زندگی کے کسی معاملے میں شاید ہی کیا ہو۔
شروع میں کئی برس تک، پولیس تھانوں کے روزنامچوں کے سے تن و توش کا رجسٹر اس کارروائی کا تختہ مشق رہا۔ بعد میں ہر سال کے لیے علیحدہ عام مطبوعہ ڈائری استعمال ہوتی رہی۔ بات تھمنے میں نہ آتی تو مزید کاغذ کا پیوند بھی لگا لیا جاتا۔ مگر یہ ضرورت شاذ شاذ ہی بالخصوص سیاحت کے دوران پیش آتی۔
اس روگ کو سینے سے لگائے رکھنے کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس نگارش سے میرے ادبی چسکے کی تسکین ہوتی تھی ورنہ مجھ ایسا ایک عام شخص (جو مسٹر ہے نہ مولانا) بھلا ڈائری کیوں لکھتا، اس کے بغیر کون سے کام بند تھے۔ ہاں رفتہ رفتہ شاید اس کی عادت ہو گئی۔ جس طرح بعض لوگ رات کو حقہ پی کر سوتے ہیں۔
میں نے کبھی سوچا تک نہ تھا اس دفتر کا، جو تہہ بہ تہہ جمع ہوتا جا رہا تھا، کوئی مصرف بھی ہوگا۔ یہ شاید 1978ء کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے ممتاز شاعر عبد العزیز خالد میرے ہاں تشریف لائے تو ڈائریوں کی قطار دیکھ کر انہوں نے پوچھا:
”اِن میں کیا ہے؟‘‘
میں نے عرض کیا:
”راتیں ہیں ان میں بند ہمارے شباب کی‘‘
انہوں نے دریافت کیا:
”آخر اس درد کی دوا کیا ہے‘‘
”دوا‘‘ بھی انہوں نے ہی تجویز کی۔‘‘ اس ذخیرے کی چھانٹی کرو۔ منتخبات کو چھپواؤ۔ اس متاع کو ٹھکانے لگاؤ۔
کس کے گھر جائے گا یہ سیلابِ بلا تیرے بعد‘‘
میں اگرچہ اندر سے متذبذب تھا کہ اس ملبے میں نہ تاریخ ہے نہ ادب۔ ان لمحاتی جذبوں، اضطراری حالتوں میں سرپٹ لکھی ہوئی تحریروں کی اشاعت کہیں میری عاقبت ہی نہ خراب کر دے مگر خالد صاحب کے تجربے اور دانش کو بھی نظر انداز کرنا مشکل تھا جب کہ مشورہ بھی مجھے موافق آرہا تھا۔ سو میں نے ایک سابق فوجی کے ناطے سب سے پہلے اس کی نکاسی کے لیے ایک فوجی محاذ یعنی عسا کر پاکستان کے ہفتہ روزہ اخبار ”ہلال‘‘ کو منتخب کیا۔ جس میں ”ضمیر حاضر، ضمیر غائب‘‘ کے عنوان کے تحت ان ڈائریوں کے اقتباسات کچھ عرصہ شائع ہوتے رہے۔ اس کے محترم مدیر نے مجھے ہمیشہ یہی تاثر دیا کہ ان کے قارئین اس سلسلے کو دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔
نیازمند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
ڈائری کے استعمال کے دو ہی طریقے سمجھ میں آئے۔ ایک یہ کہ منتخب واقعات کی عبارت تمام و کمال دوبارہ لکھی جائے اور اس عمل میں تحریر کو ٹھوکنے بجانے کے علاوہ ڈائری کے مختصر لمحاتی تاثرات میں بعد کی آگہی بھی گھولتا جاؤں۔
دوسرا طریقہ، ہرچہ باداباد والا یعنی واقعات بے شک منتخب ہوں، مگر عبارت میں دست بردنہ کی جائے۔ جو بندھ گیا سو موتی۔ چند مہربانوں سے مشورہ کیا۔ جناب قدرت اللہ شہاب اور جناب مسعود مفتی نے اسی پیرائے کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمہاری ڈائری کی کشش، تاریخ یا دانش میں نہیں، اس کی صداقت اور بے ساختگی میں ہے۔ اس کے بچپنے پر خراش نہ آنے دو… یہ طریق کار میرے لیے بھی سہل تھا۔ عبارت نقل کرتے ہوئے، کسی جملے کی کمر سیدھی کردی ہو تو کردی ہو، بعض کوائف کو حذف کرنا بھی مناسب سمجھا مگر اضافے سے احتراز کیا۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میں پورا سچ لکھ سکا ہوں۔ ہاں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لکھا ہے وہ سچ ہے۔ میری آرا میرے نزدیک تو صحیح ہیں مگر یہ غلط بھی ہو سکتی ہیں اور ان سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ ڈائری لکھتے وقت آدمی ”بادشاہ‘‘ ہوتا ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ ”بادشاہت کے خمار‘‘ یا رواداری بلکہ عمر، حالات، اپنی آگہی کی کم مائیگی اور تحریر کے ”غیر ذمہ دارانہ بہاؤ‘‘ میں کسی شخصیت پر کوئی ”سایہ‘‘ یا خراش‘‘ آگئی ہو یا کسی واقعے کی صحت مجروح ہو گئی ہو تو میں عفو کا خواست گار ہوں…‘‘
سید ضمیر جعفری کی ان ڈائریوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ یہ اشاعت کے خیال سے لکھی ہی نہیں گئیں۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو مصنف اپنے ساتھ خود کرتا رہا البتہ ہمارے عہد کے اس صاحبِ اسلوب اور محبوب و مقبول مزاح نگار نے اس بے تکلف دوڑتی ہوئی تحریر کو بھی اپنے مخصوص زعفرانی انداز میں گلابی اور شہابی بنا دیا ہے۔ بظاہر یہ ایک شخص کی زندگی کی روداد ہے مگر اس ایک راستے سے زندگی کی ہزاروں پگ ڈنڈیاں نکلتی چلی گئی ہیں۔ یہ ذاتی تاثرات کی وہ بے خراش ”لمحاتی سچائیاں‘‘ ہیں جو ہمارے ملک کے ایک ممتاز دانش ور اور اُردو زبان کے منفرد مزاح نگار کی نصف صدی کی خودنوشت میں بکھری پڑی تھیں۔ یہ بلاشبہ ناشر کے لیے سعادت ہے کہ اس متاعِ کو، جسے نہ ادب نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ تاریخ، کتابی صورت میں ادب و تاریخ کے سپرد کرنے کا اعزاز ”دوست پبلیکیشنز، اسلام آباد‘‘ کو حاصل ہے۔ جعفری صاحب نے ڈائری لکھنے کے اس سلسلے کا آغاز 1943ء سے کیا جو1977ء تک جاری رہا۔
”تانبے کی زمین“، شفیق اختر حر کے منفرد کالموں کا دوسرا مجموعہ – محمد اکبر خان اکبر
کتاب چھپوانے کا سفر، ایک دلچسپ رُوداد – عاطف ملک
”سمندر گنگناتا ہے‘‘، ادبِ اطفال میں ایک منفرد اضافہ – محمد اکبر خان اکبر
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر