یہ کتاب رومیل پبلشنگ ہائوس، راولپنڈی نے چھاپی اور اس کی قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ انتساب اپنے سائبان سعید اور آنگن کے پھولوں کے نام ہے۔ دیباچہ نگاروں اور رائے دینے والوں میں پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر‘ ڈاکٹر وحید احمد‘ محمود اظہر‘ جمیل الرحمن‘ سرور جاوید اور ابرار مجیب ہیں۔ ڈاکٹر وحید کی رائے کے مطابق :
بشریٰ سعید جب یہ کہتی ہے کہ کھری باتوں کا ذائقہ تُرش ہوتا ہے تو دراصل اپنی شاعری کا ما فی الضمیر بیان کرتی ہے۔ اس کا درد حرف چُنتا ہے۔ وہ مٹی کے کوزے میں ریت سے پیاس بجھاتے ہوئے لوگوں کا نوحہ لکھتی ہے۔ وہ خواب میں لگی آنچ کو عام کرتی ہے۔ وہ لفظوں کی آستین میں چھپی سوچ کو عریاں کرتی ہے۔ وہ فضا میں جب خیالات کے پرندے اُڑاتی ہے تو آسمان پر سرمئی لکیریں پھیل جاتی ہیں۔ اس کی نثری نظمیں ہمارے معاشرے کی آئینہ دار ہیں۔ آپ بھی پڑھیے کہ ان کا تعلق پڑھنے سے ہے‘‘
جمیل الرحمن لکھتے ہیں :
”شاعرہ نے غیر عروضی وسیلے کو استعمال کرتے ہوئے اُنہیں کفایت لفظی سے کام لیتے ہوئے انتہائی چابکدستی سے ان نظموں میں سمو دیا ہے۔ ذاتی‘ معاشرتی اور اجتماعی پہلوئوں پر رائے زنی کا یہ انداز اس بات کا شاہد ہے کہ تکنیکی اور مشاہداتی سطح پر شاعرہ نظر تراشنے ہی کے ہنر سے واقف نہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی چوکس دکھائی دیتی ہے کہ اُسے کون سی بات کس طرح کہنی ہے۔ متنوع موضوعات پر مشتمل دلکش تشبیہات و استعاروں سے آراستہ یہ مجموعہ یقیناً فطری ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے ادب میں ایک موثر اضافہ ثابت ہو گا‘‘
سرور جاوید نے ممتاز نقاد گوپی چند نارنگ کی اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ کسی بھی نثر پارے کو (جبران کے نثر پاروں سمیت) نثری نظم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نثری نظم ایک تخلیقی صنف شعر ہے جس میں شروع سے آخر تک ایک اندرونی آہنگ پایا جاتا ہے جو نثر پارے میں بہرحال موجود نہیں ہوتا۔ نارنگ صاحب نے بعدازاں اپنے مضامین میں بھی نہ صرف ایسے خیالات کا اظہار کیا بلکہ یہ اضافہ کیا کہ نثر اس وقت شاعری بن جاتی ہے جب اس کا ایک جملہ اکہرے معنی کی بجائے کثیرالمعنی یا کم از کم ایک سے زائد معنی کا حامل بن کر مصرعہ بن جاتا ہے۔ سرور جاوید کہتے ہیں کہ میں اُس وقت بھی اُن سے متفق نہیں تھا اور آج بھی ان کی بات کو غیر موزوں سمجھتا ہوں کیونکہ یہ بات تو اچھی نثر پر بھی صادق آتی ہے‘‘
کثیر المنعویت بہرحال جدید شاعری کا ایک جدید نظریہ ہے؛ تاہم اسے شاعری ہی میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ میں نے کئی سال پہلے فیض احمد فیضؔ کی شاعری پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ فیضؔ کے کسی شعر سے ایک سے زیادہ معانی نہیں نکالے جا سکتے۔ خواہ اسے کتنی بھی مرتبہ پڑھا جائے‘ نیز فیضؔ کی شاعری میں ارتفاع تو ہے‘ گہرائی نہیں۔ یہ بھی میرے خیال میں کثیر المنعویت ہی کی طرف اشارہ ہے۔ اب بشریٰ سعید کی کچھ نظمیں دیکھیے:
یادداشتیں
تکیے کی بوسیدہ روئی میں دفن خواب
کپڑوں کی تہہ میں چھپے خط
ٹشو پیپر پر جما دکھ؍ ایک پھٹی کتاب
ڈائری میں سویا گلاب
گڑیا کی جوتی
ٹوٹی ہوئی انگوٹھی
تصویروں میں تھما وقت
قرض کے چند سکے
گم شدہ پائل
کانچ کی آدھی چُوڑی
یاد کے صندوق میں چھپی
سب چیزیں نایاب ہوتی ہیں
لافانی
رُسوا ہو کر بھی
محبت اپنے مرتبے میں
لافانی رہے گی
آتشِ شوق میں جل بھی جائیں تو
ہماری راکھ سے جنم لے گا
اپنے لہو سا نشہ مے میں کہاں
آزمائش کی کسوٹی پر
اپنی قدر جانی جائے گی
عشق کے ترازو میں
رُوح تولی جائے گی
ہم ان تلواروں کو بوسہ دیں گے
جن سے ہماری
گردن اتاری جائے گی
سوچنے کی فرصت نہیں
سوز و الم سے
ہُنر کی طرح
کھیلنے والے
پیوند لباس
سوال آشنا
شکستہ چہرے
مجبوری کا کشکول لٹکائے
راہ گیروں سے
جھولی بھرتے ہیں
بارش کا پانی
جوہڑ میں کب بدلا
ہمیں یہ سوچنے کی فرصت نہیں
کب ان کے
تنہا‘ اُداس دل
چیونٹی کی طرح کچلے گئے
اور کیسے
ہماری بے حسی نے
ان کی آواز کو
التجا کا سوز بخشا
ہمیں یہ سوچنے کی فرصت نہیں
خدا کو مشورے مت دو
خدا کو مشورے مت دو
وہ خاموشی
سرگوشی اور چیخ کی تاثیر
لہو میں دیکھتا ہے
بیداری ہمارا راز
اور سونا سدا کی مجبوری ہے
ہوا‘ پانی‘ مٹی اور کفن
زندگی کے سارے رنگ پھیکے ہیں
چادر اوڑھ کر بھی
بصارت بے لباس ہو جاتی ہے
سورج کے پہرے
رات کے ایوانوں پہ نہیں لگتے
انکار کا زخم ہرا رہتا ہے
خدا کو مشورے مت دو
بانسری
میرے وجود میں
پیاس کی بانسری بجتی ہے
اور سارے رنگ ناچتے ہیں
اعمال
ایمان سے جُدا نہیں ہوتے
زخم میں انگلی ڈال کر
دُکھ ناپے نہیں جاتے
اپنے اپنے روگ
اپنی اپنی سطح پہچانتے ہیں
لوگ کہاں تک
خدا کو جانتے ہیں
زندگی قبر کا جنم ہے
اور موت زندگی کا
میں ایک کنول چھونے کو
پانی میں اُتری
اور پائوں پانی میں گم ہو گئے
انسان نے ضرورت کے چولہے پہ
بدن کی روٹی سینک لی
ایک وقت
میرے اندر جاگتا ہے
ایک کی گود میں سوتی ہوں
اپنے مکان کی دیواروں میں
خود چُنی گئی ہوں
میرے وجود میں
پیاس کی بانسری بجتی ہے
اور سارے رنگ ناچتے ہیں.
(روزنامہ دنیا)