آپ بیتیوں کی تلخیص گری – محمد حامد سراج

زندگی ایک بار ملتی ہے صرف ایک بار اور اسے ہر انسان نے گزارناہے اورخود گزر جانا ہے۔ زندگی نے بہر طور گزرنا ہے اور یہ رکتی ہے اور نہ وقت رکتا ہے لیکن کون اسے کس انداز کس رنگ میں گزارتا ہے یہ بات اہم ہے۔ سوچتا ہوں زندگی تو میری بھی بیت چکی اب عمر کا وقت عصر ہے بل کہ عصر بھی ڈھل چکی۔ سب کی عمریںبیت جاتی ہیں میری عمربھی زمانہ نگل گیا۔ کیا اس میںکوئی ایسی بات ہے جسے میں آنے والے زمانوں کے لیے محفوظ کر جاؤں—؟ لیکن یہ میری آپ بیتی نہیں بل کہ یہ تو ان نامور لوگوں کی زندگیوں کے انمول لمحات ہیں جنہوں نے زندگی کو جھیلا، جیا، دکھ سکھ کے موسموں سے گزرے بہاریں دیکھیں، خزاں کے موسم تن پر جھیلے۔ اپنی زندگی کے کسی لمحے کو رائیگاں نہیں جانے دیا۔ ان کے واقعات ، حالات، سانحات، تجربات ان کے نہ رہے، زمانے نے ان سے رہنمائی لی۔ان کی زندگی روشن تھی وہ روشنی آج بھی راہ نما کل بھی مشعل راہ — یہ کل کی بات ہے یہ کوئی قصہ پارینہ نہیں میں اپنی خانقاہ کے مدرسہ سے چھٹی کر کے صحن میں داخل ہوا ، وہ بھی بھاگتا ہوا کیوں کہ مجھے بیری سے لال لال بیر چننا تھے۔ دیکھا تو دادی اماں توے پر چپاتی ڈال رہی ہیں۔ انہوں نے مجھے بلا لیا کہ پہلے روٹی کھا لو۔ انکار کی مجال تھی سو ان کے پہلو میں پیڑھی پر بیٹھ گیا۔ توے سے گرم گرم چپاتی اتری اس پر دادی اماں نے مکھن کا پیڑَہ رکھا ساتھ ہی چٹکی بھر نصیحت کی چٹنی رکھ دی کہ بیٹا انسان جھوٹ بولے تو زبان کالی ہو جاتی ہے بے شک شیشے میں اپنی زبان الٹ کے دیکھ لینا۔ اسی روز بوقت عصر چھپ کر ’’وِچالے والے کوٹھے‘‘ [درمیان والا کمرہ]، میں جا کر میں سنگھار میز کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ زبان جو الٹ کر دیکھی تو تھوڑی سلیٹی رنگت سی نظر پڑی۔ دل میںڈر بیٹھ گیا۔ کچھ دن بعد ڈرتے ڈرتے دادی اماں کو بتایا کہ زبان نیچے سے تھوڑی سی سلیٹی ہے۔ دیکھا— نا — دادی اماں نے کہا اگر جھوٹ پر قابو نہ پایا تو یہ پوری کالی ہو جائے گی— صدقے اس انداز ِ تربیت پر ! بچپن ہی میں مزاج سے جھوٹ نکل گیا۔ اللہ نے ہمیشہ کے لیے جھوٹ سے محفوظ کر دیا۔ یہ آپ بیتی کا ایک ٹکڑا ہے— ٹکڑے جوڑے جائیں تو زندگی عکس در عکس اپنی چھب دکھاتی ہے آپ بیتی میں کتنے فی صد سچ ہوتاہے ؟ زیب داستان کے لیے کتنا مصالحہ ڈالا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن آپ بیتی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں آپ بیتی نگار کے ساتھ قاری بھی نہ صرف مطالعے سے لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ وہ واقعات اور تجربات کے آئینہ میں اپنی زندگی کے خال وخد بھی پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ بیتی کا کوئی ایک جملہ آپ کی زندگی کا رخ بدل سکتا ہے۔ آپ بیتیوں کے مطالعہ سے زندگی جینے کا حوصلہ ملتا ہے۔ آپ بیتی میں ایک قلم کار آپ سے اپنی زندگی کی کتھاکہتا ہے۔ میں نے بھی سوچا— ساتھ میرے دریائے جہلم کنارے بیٹھے امر شاہد نے بھی اس سوچ میں میرا ساتھ دیا— ایک مکمل رات سے ٹکڑا کاٹ کے میں نے اپنی آبادی خانقاہ سراجیہ کی مغربی سمت اپنے عم زاد بشارت احمد سے آپ بیتوں پر بات کی کیوں کہ ان کے پاس نادر ونایاب آپ بیتیوں کا ذخیرہ ہے۔ میں نے ہری پور زاہد کاظمی سے فون پر گھنٹوں بات کی اور ان سے پرویز پروازی کیـ ’’پس نوشت‘‘ کے پانچ حصے بھیجنے کو کہا۔ کراچی سید معراج جامی سے مشاہیر علماء کی آپ بیتیوں پر تبادلہ خیال کیا۔ ایسے میں راشد اشرف اور شاہد حنائی کا اسم گرامی اس صف میں شمار ہوتا ہے جن کے یہاں ذاتی کتب خانہ میں گراں قدر آپ بیتیوں کا خزینہ موجود ہے اور آپ بیتیوں پر ان کا نام ہی اب اعتبار کی علامت ہے۔ مجھے معلوم ہے امر شاہد دریائے جہلم کے کنارے میرا انتظار کر رہا ہے— ہم زاد راہ جمع کر رہے ہیں—! عمارت کی تعمیرکے لیے خشت اول ضروری ہے۔ ہم نے کٹھن منزل کا چناؤ کیا ہے۔ ’’نامور ادیبوں کی آپ بیتیاں‘‘ ایک ایسی محنت ہے جسے ہم نے مطالعے کی میز پر رکھ دیا ہے۔ آپ ورق الٹ کر دیکھیے۔ ورق ورق مطالعہ کیجئے جیسے آپ نے ناچیز کی محنت اور چالیس سالہ عالمی ادب کے شہ پاروں کے چناؤ ’’عالمی سب رنگ افسانے‘‘کو اہمیت دی۔ یہ کاوش بھی خشت اول ہے۔ دریائے جہلم کنارے بیٹھے میرے دراز قد دوست امر شاہد اور میں نے چوں کہ زاد راہ جمع کرنا شروع کر دیا ہے اور سفر پکڑ لیا ہے۔ ادبی جرائد، رسائل اور کتب سے جہاں میں نے آپ بیتیوں کی تلخیص کا چناو کیا ہے وہیں اپنے مطالعہ کو سامنے رکھتے ہوئے میری بات امرتا پریتم سے ہوئی— امرتا نے سوال کیا— محمد حامد سراج تم رسیدی ٹکٹ کے سائز کو اور کتنا کم کر سکتے ہو—؟امرتا— یہ آپ سے کس نے کہا کہ ہم رسیدی ٹکٹ کے سائز کو کم کر رہے ہیں۔ سائز وہی ہے اور ہمیشہ وہی رہے گا۔ ہم نے رسیدی ٹکٹ کی روح مجروح نہیں ہونے دی ۔ میں ایک نظر اپنی آپ بیتی کا اختصار دیکھنا چاہوں گی— بسر وچشم— امرتا کے چہرے پر تبسم سے مجھے تسلی ہوئی— میں نے ساحر کے دروازے پر دستک دی— ساحر لدھیانوی کے ساتھ نشست مختصر رہی— ’’میں ساحر ہوں‘‘—’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘‘ اور ’’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘ میری پہلی محبت ایک سکھ لڑکی ایشر کور ہے۔ ایشر کور بے انتہا خوبصورت، دبلی پتلی، تیکھے نقوش والی جاذب نظر لڑکی تھی۔ لڑکی اور انقلاب کی میری زندگی میں بڑی اہمیت رہی ۔ حامدسراج تاج محل تو بس یوں جان لو مجھ سے سرزد ہوگئی لیکن امرتا نے ’’اَج آکھاں وارث شاہ نُوں‘‘ اپنے من میں ڈوب کر لکھی ہے۔ تم نے جس جگر سوزی سے میری آپ بیتی میں سے عرق کشید کیا ہے میرا جی خوش ہو گیا ۔تلخیص گری کے عمل سے گزرتے ہوئے ہم شورش کاشمیری کے سامنے کانپا کیے اور خوب کانپا کیے۔ ’’بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل ‘‘ کا مطالعہ کہیں 1978ء کے آس پاس کیا تھا۔ کالج کی زندگی کے شب روز تھے ’’ ہفت روزہ چٹان‘‘ اپنے عروج پر تھا۔ اب جو امر شاہد نے شورش کی آپ بیتی بھجوائی تو مکرر مطالعہ سے پوری تاریخ بولنے لگی۔ تلخیص گری میں پسینہ آ گیا ۔لیکن اپنی سی کوشش کی ہے۔ فیصلہ آپ پر ہے—قتیل شفائی سے نشست طویل ہو گئی۔ بہت طویل، کئی پہلو تھے ان کی زندگی کے جو ورق ورق الٹا کیے۔ میں اقبال بانو کے عشق کے حوالے سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن میرے ایک سوال پر کہ جب ایک تخلیق کار شراب کے نشے میں ڈوب جاتا ہے تو اس حالت میں تخلیق گری ہر گز ممکن نہیں تو پھر بات میرا جی کی ہو، منٹو کی یا آپ کی— اس کیفیت کو کیسے سمجھ پائیں گے کہ نشہ میں غرق تخلیق کار سے ایک اچھی تخلیق سرزد ہو سکتی ہے یا نہیں؟قتیل شفائی مسکرائے اور کہا— ’’یہ سچ ہے جب مے نوشی سے حواس کھوجائیں تو تخلیق گری ممکن نہیں۔ اسی لیے منٹو نے کبھی شراب پی کر افسانہ نہیں لکھا۔ وہ صبح جب تازہ دم ہوتے تو افسانہ گری کے عمل سے گزرتے تھے۔ یہی مزاج میرا رہا ہے۔‘‘ احمد ندیم قاسمی میرے محسن ہیں۔ وہ زندگی میں تمام اصناف سخن کے ساتھ انصاف کرتے کرتے اتنا وقت نہ چرا سکے کہ اپنی زندگی کے روز وشب، دکھ سکھ، زمانے کی اچھائیاں برائیاں، اپنے ساتھ اپنے معاصرین کے مثبت منفی رویے، خاندان کی کتھا، تخلیقی سفر کی اوگھٹ گھاٹیاں اپنے قلم سے امر کر جاتے۔ وہ اپنی آپ بیتی قلم بند نہ کر سکے۔ میں نے اپنے طور پر کوشش کی ۔ ڈاکٹر ناہید قاسمی صاحبہ اور نیر حیات قاسمی سے رابطہ کیا ۔ احمد ندیم قاسمی کے نواسے ’’فنون‘‘ کے مدیر جناب نیر حیات قاسمی نے وٹس ایپ پر پیغام بھیجا— ’’حامد سراج صاحب— بدقسمتی سے احمد ندیم قاسمی صاحب کی آپ بیتی نہیں ہے ۔ان کی دو خواہشات جو پوری نہ ہو سکیں جس کا اظہار بھی انہوں نے کیا ۔ایک اپنی آپ بیتی اور دوسرا مکمل ناول ۔ بہر حال مختلف مضامین ، ان کی اپنی تحریرشدہ خاکوں کی کتب میں کسی حد تک آپ بیتی اور یادوں کا پہلو موجود ہے لیکن اہتمام سے ایسا کچھ تحریر نہیں کر پائے ۔‘‘ہم نے کوشش جاری رکھی ۔ روزنامہ امروز میں شائع ہونے والی یادداشتوں کا ایک باب اُردو اکیڈمی بہاولپور نے مجلہ ’’الزبیرآپ بیتی نمبر‘‘ (شمارہ نمبر7، سن 1964ء) میں شامل کیا جو خاصے کی چیز ہے ۔ یہ ایک ریاستی کالج کی روداد ہے!آپ بیتی کی تاریخ کھوجنے میں ایسا نہیںکہ کسی دقت یا دشواری کا سامنا ہو۔ اردو آپ بیتی کی عمر لگ بھگ ایک سو چھتیس سال بنتی ہے ۔ اس حوالے سے زیادہ دور کی مسافت طے کیا کرنا ہم معین الدین عقیل صاحب سے بات کیے لیتے ہیں ۔جی معین الدین عقیل صاحب— ہمیں اس سلسلے میں آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے— ’’بات یہ ہے جنا ب کہ اُردو میں خود نوشت سوانح عمری کی تصنیف کے عین مقصد کے تحت لکھی جانے والی اولین خود نوشت کے تعین کے معاملے میں اگر چہ اس موضوع پر متعدد مبسوط مقالے منظر عام پر آ چکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی مسلمہ رائے سامنے نہیں آئی ۔ ہاں کسی خاتون کی لکھی ہوئی ایسی خود نوشت کا معاملہ’’بیتی کہانی‘‘ مصنفہ شہر بانو بیگم کے متعارف ہونے کے بعد اب اختلافی نہیں رہا۔ اسے مسلمہ سمجھناچاہیے ۔ یہ خود نوشت پاٹودی کے نواب اکبر علی خان [1838ء-1905ء] کی دختر شہر بانو بیگم نے ـبیتی کہانی کے نام سے 1885ء میں لکھی تھی ۔ جسے راقم نے ایک مفصل تعارف کے ساتھ مرتب اور شائع کیاعبد ا لغفور نساخ 1838ء-1889ء کی ’’خود نوشت سوانح عمری ‘‘ اور جعفر تھانیسری 1838ء-1905ء کی ’’ تاریخ عجیبہ المعروف بہ کالا پانی‘‘ کے بارے میں اگر شہادتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ دونوں 1886ء میں لکھی گئی تھیں ۔ تو ’’بیتی کہانی‘‘ ہر لحاظ سے ایک مستقل خود نوشت سوانح عمری ہے ۔ جو اردو کی اولین خود نوشت کے طور پر شمار میں آتی ہے ۔ سید عجب علی ارسطو جاہ 1806ء-1869ء کی تصنیف ’’مختصر حال منشی رجب علی خان بہادر ارسطو جاہ ‘‘ 1868ء میں لکھی گئی تھی ۔ لیکن یہ نہایت مختصر اور نامکمل تھی ۔ اس کا متن صرف آٹھ صفحات پر مشتمل ہے ۔ ان تمام خود نوشت سوانح عمریوں کے مقابلے میں گارسین دتاسی اردو خود نوشت Memories پتمبر سنگھ کو اردو کی اولین خود نوشت کہا جاسکتا ہے لیکن بسیار کوشش کے باوجود اس کا کوئی نسخہ راقم کو جنوبی ایشیا کے کتب خانوں کے معلومہ ذخائر میں اور انگلستان فرانس کے کتب خانوں میں دستیاب نہ ہوا ۔ گارسین دتاسی کے مطابق پتمبر سنگھ کی یادداشتوں پر مشتمل یہ تصنیف کلکتہ سے 1820 ء میں مشنری پریس نے شائع کی تھی اور غالبا بیس صفحات پر مشتمل تھی ۔زمانی اعتبار سے ان میں اولین خود نوشت سوانح عمری ‘‘ سوانح سیدی حاجی ا لحرمین شریفین ملا طیب علی بن بھائی میاں ’’بقلم خود‘‘ طیب جی بھائی میاں کی تخلیق ہے جسے انہوں نے 27 اپریل تا 19 مئی 1862ء میں تحریر کیا تھا ۔ اس تصنیف کو معروف دانش ور اور مصنف آصف علی اصغر فیضی 1899-1981ء نے نہ صرف مفید اور مکمل مقدمے اور حواشی کے ساتھ مرتب کیا بلکہ Journal Of The Asiatic Society Of Bombay سے متعارف اور شائع کرایا ۔ دوسری خود نوشت سوانح عمری پادری عماد الدین 1830-1900ء کی ’’واقعات عمادیہ‘‘ ہے جو مطبع آفتاب پنجاب لاہور سے 1866ء میں شائع ہوئی تھی ۔ مصنف نے جو اس تصنیف کے وقت تک مسلمان تھا اس سال تبدیلی مذہب اور عیسائیت اختیار کرنے کے بعد اس کے اسباب اور واقعات بیان کرنے کے لیے اسے تحریر کیا تھا ۔ اس میں اس نے اولاً اس تصنیف کی اشاعت اول 1866ء تک کے حالات تحریر کیے تھے ۔ پھر 1873ء میں اس میں ایک ضمیمے کا اضافہ کر کے سات سال بعد تک کے حالات بھی اس میں شامل کیے ہیں۔‘‘ [اُردو کی اولین سوانح عمریاں از معین الدین عقیل مطبوعہ کتابی سلسلہ دستاویز شمارہ نمبر 4سن 2016ء اُردو کی اہم آبیتیاں : مدیر اعلٰی عزیز نبیل صفحہ نمبر7 تا 15] یہ وضاحت ازبس ضروری ہے کہ آپ بیتیوں کے اختصار کا یہ سلسلہ کیا ہے ؟ کیا یہ صرف مختلف کتابوں اور ادبی جرائد سے خوشہ چینی ہے—؟ ایسا ہے بھی اور نہیں بھی—! سفر طویل ہے لیکن یہ پہلا سنگ میل ہے ’’نامورادیبوں کی آپ بیتیاں‘‘— میں نے چار آپ بیتیوں کا عمیق مطالعہ کیا — امرتا پریتم کی’’ رسیدی ٹکٹ‘‘ساحر لدھیانوی کی ’’میں ساحر ہوں ‘‘قتیل شفائی کی ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘شورش کاشمیری کی ’’بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل‘‘ مطالعہ کے بعد مَیں نے ان کا تخلیقی عرق کشید کیا اور ایسے کشید کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے کہ اختصار کے ساتھ جامعیت میں فرق نہ آئے۔ قدیر احمد کھوکھر نے عصمت چغتائی کی خودنوشت ’’کاغذی ہے پیرہن‘‘ اور کنور مہندر سنگھ بیدی کی ضخیم آپ بیتی ’’یادوں کا جشن‘‘ کو اختصار پیش کر کے گویا احسانِ عظیم کر دیا۔ اس کتاب میں شامل کئی نایاب و کمیاب آپ بیتیاں بک کارنر جہلم کے پلیٹ فارم سے مکمل کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔18 مارچ 2017ء امر شاہد نے محترم مختار مسعود سے ان کے گھر پر ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ 14 اَپریل2017ء کو اس انشا پرداز ادیب کے انتقال سے قبل کسی بھی شخصیت کے ساتھ یہ ان کی بیٹھک اور تصاویر آخری ثابت ہوئیں۔ کتاب پریس میں جانے کے لیے تیار تھی کہ امر شاہد نے کتاب ’’آوازِدوست‘‘ سے اُن کی چیدہ یادداشتیں اکٹھی کیں اور اس کتاب کا بےمثال حصہ بنا دیا۔ آپ بیتی رسم کرنا اتنا آساں بھی نہیں سو ہم پہلو بچا کے زندگی جھیل آئے۔ اب عم زاد بشارت احمد، محبی امر شاہد اور اے ڈی چشتی بھائی ہے پاک پتن میں، شہد میں گوندھا ہوا۔ ان کا اصرر پرشور، پر جوش اور میں اکیلا، میں نے تینوں کے سامنے ہار مان لی کیوں کہ اسی ہار میں جیت کی چھب نظر پڑی اور میں نے اپنی آپ بیتی بہ عنوان ’’ہم بیتی‘‘ ورق ورق ترتیب میں لانے کی اپنی سی کوشش شروع کر دی۔ اس کا پہلا باب بہ عنوان ’’مولوی احمد خان کا کھوہ [کنواں]‘‘ اس کتاب میں شامل ہے ۔یہ ایک جانگسل مرحلہ تھا۔ کیوں کہ خشت اول کے بعد ہمارا ارادہ اس سلسلے میں کئی سنگ میل طے کرنے کا ہے اور آپ بیتیاں اس وقت جو میری میز پر چائے کی پیالی کے ساتھ موجود ہیں اور جنہیں ارادہ ہے آنے والے چھ ماہ میں مکمل کر لوں ۔ ان کا عنوان تجویز کیا ہے —’’مشاہیر علماء کی آپ بیتیاں‘‘دس قد آور شخصیات ہیں ۔ جن پر کام کرنے لیے ضروری ہے کہ ہر آپ بیتی کا مطالعہ باوضو کیا جائے اور مؤدب ہو کر ان کی تلخیص کے عمل سے گزرا جائے کہ ہم ایسے گنہ گاروں کی بخشش کا سامان ہو جائے ۔ مولانا سید حسین احمد مدنی، شیخ الحدیث مولانا زکریا ، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا مناظر احسن گیلانی مولانا محمد منظور نعمانی مولانا عبد الماجد دریابادی، مولانا عبد السلام ندوی، مولانا خرم مراد ، مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی، مولانا عبد ا لمالک مجاہد نامور ادیبوں اور شاعروں کی مختصر آپ بیتیوں میں ہم نے جو خوشہ چینی کی ہے ان کی کتابیات کا اندراج کیا ہے تا کہ سند رہے اور وہ معتبر مستند اور معتبر اسمائے گرامی جنہوں نے آپ بیتیوں کے اختصار پر محنت کی، ان کا نام گوشہ گمنامی میں کھو نہ جائے۔ نایاب ادبی جرائد کے ضخیم نمبر اب دوبارہ طبع ہونے کی امید کم ہے اور عہد رواں کے قاری کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ بھاری بھرکم ضخیم نمبر خریدنے کے بعد ان کا مکمل مطالعہ کر سکے۔ ان ساری باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک ایسی کتاب ترتیب دی ہے جو قاری کو مایوس نہیں کرے گی اور جس آپ بیتی کا اختصار اس کے دل کے تار چھو لے وہ مکمل آپ بیتی تلاش کر کے اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ۔’’مشاہیر علماء کی آپ بیتیاں‘‘ کے بعد میرا ارادہ ’’حکمرانوں کی آپ بیتیاں‘‘ پر وقت صَرف کرنے کا ہے ۔ ساتھ ہی ’’نایاب آپ بیتیاں‘‘ کا خاکہ ذہن میں ترتیب پا گیا ہے اور بہ شرط زندگی آپ کے تخلیقی اذہان تک ہم ’’ بیورو کریٹس کی آپ بیتیاں‘‘ اور ’’ جرنیلوں کی آپ بیتیاں ـ‘‘ بھی ضرور پہنچائیں گے ۔ آپ بیتیوں کی جمع وتدوین کے دوران پروف ریڈنگ کا مرحلہ اہم تھا ۔ اس میں معاونت کے لیے جن دوستوں نے ہاتھ بٹایا۔ گو، وہ یہاں چشمہ بیراج دریائے سندھ کے کنارے آباد نہیں بلکہ دُور دراز علاقوں سے اپنے گھر کی دُوری جھیلتے زرق حلال کمانے کے لیے یہاں مقیم ہیں۔ لیکن کتاب سے ان کا عشق اظہر من ا لشمس ہے۔ ان میں سعد عباس ہے جو فتح جنگ ضلع اٹک کے ایک گاؤں’’ سکھوال‘‘ سے ہے جب کہ محمد شاہد میلسی ضلع وہاڑی کے ایک گاؤں ’’جلاجیم‘‘‘ کا باسی ہے اور ان میں ہمارے دوست بھائی مدثر ہیں جنہیں ہم میر کارواں کا درجہ دیتے ہیں ۔ ڈیرہ غازی خان کے اس نیک اور متشرع نوجوان نے کمال لگن اور جوش میں حامی بھری کہ آپ فکر نہ کریں ۔ شاہد، سعد عباس اور میں، ہم تینوں مل کے پروف ریڈنگ کا عمل مکمل کر لیں گے ۔ بعدازاں سیّد ذوالفقار حسین شاہ کی نگہِ التفات نے حروف خوانی کو مزید معتبر بنا دیا۔ اس کے باوجود جہاں آپ کو کوئی غلطی نظر پڑے ۔ آگاہ کر دیجئے گا ۔ اگلے ایڈیشن میں تلافی کر دی جائے گی۔مطالعہ کرنے والوں کو کیا معلوم کہ ایک کتاب کتنے مراحل سے گزرتی ہے۔ اس پر کتنی محنت کا اندراج ہے۔ کتنی آنکھوں نے اپنی بینائی لٹائی ہے۔ کتنی راتیں کاٹ کر اسے سنوارا گیا ہے۔ کتنے مہینے برس مشاورت کے عمل میں نشست وبرخواست رہی ہے۔تب کہیں جا کر وہ پریس کا درد سہتی بائنڈنگ کے عمل سے گزرتی جلد ساز کے ہاتھوں سنورتی قاری کے ہاتھ میں پہنچی ہے۔یہ بات زیر غور رہی کہ کیا الفبائی ترتیب کے ساتھ اسے ترتیب دیا جائے لیکن متقدمین اور متأخرین کا مقام و مرتبہ کا احساس دامن گیر تھا۔ دوسری صورت یہ سامنے آئی کہ سنین کو سامنے رکھ کر ترتیب کو حتمی شکل دی جائے۔ یہ ایک انتہائی محنت طلب کام تھا۔ جس کی ذمہ داری امر شاہد نے اٹھائی اور اپنی تمام تر پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمہ داریوں سے وقت نکال کر تمام ادیبوں کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کو ترتیب میں لا کر فہرست کو حتمی شکل دی اور ساتھ ادیبوں کی تصاویر کا چناؤ بھی ان ہی کی محنت شاقہ کا ثمر ہے۔ بقول امر، کئی تصاویر کی تلاش کا مرحلہ بہت مشکل رہا، خاص کر اختر حسین رائے پوری اور رام لعل کی تصویر کہیں دستیاب نہ ہو سکی، دونوں کی سبھی کتابیں کھنگال ڈالیں، تصویر ندارد، پھر ہمیشہ کی طرح ایسے موقع پر جیتا جاگتا انسائیکلوپیڈیا ’عقیل عباس جعفری‘ کام آیا، ذکر کرنے کی دیر تھی، گھنٹے بھر میں ہی ای میل موصول ہو گئی۔اس کتاب میں جن ادیبوں کا چناؤ کیا گیا ہے اس میں ادیب، افسانہ نگار، شاعر، مزاح نگار شامل ہیں۔ بات طویل ہو چلی ہے۔ فیض احمد فیض سے مل کر آپ کو خوشی ہو گی کیوں کہ آپ اپنا مکمل وقت ان کے ساتھ داغستان میں رسول حمزہ توف کے ساتھ گزاریں گے۔ بعینہِ اسی طرح مشہور مزاح نگار شفیق الرحمٰن کو ہم نے کھوج نکالا ہے۔ ان کی یادداشتوں کا ٹکڑا اتنا جان دار شان دار اور دلچسپ ہے کہ آپ کی رُوح سرشار ہو جائے گی۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی کی بیٹی سلمیٰ صدیقی کی آپ بیتی بہت اہم ہے کہ کیا ان سے نکاح کے وقت کرشن چندر نے اسلام قبول کیا تھا—؟ کیا سوشلزم کیمونزم کے اپنے افسانوں، ناولوں میں پرچارک عظیم افسانہ نگار کرشن چندر کے خیالات، بنیادی فکر میں کوئی تبدیلی آئی تھی—؟ آپ ان کی زندگی کے ہر پہلو کو مکمل جان اور پہچان سکیں گے ۔اس مسودہ کی آخری اور حتمی پروف ریڈنگ میں نے خود عرق ریزی سے کی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا میں کسی قدیم محل میں آ نکلا ہوں جس میں دالان ہیں، راہ داریاں، شیشہ گری سے منقش کمرے ہیں اور جھروکے— جن میں میر تقی میرؔ اور غالبؔ سے لے کر جیلانی بانو تک سب سے نشست رہی۔ پہلے ہی دالان میں میرؔ نے وہ اسیر کیا کہ میں دم بہ خود— وہاں سے متصل دالان میں غالبؔ کے منہ میں حقہ کی نے تھی، خوشبودار تمباکو کے دھویں میں غالبؔ کے ساتھ میں نے عمر بسر کی۔ مولانا حسرتؔ موہانی اُردو زبان و ادب کی خدمت کرتے اور سچ کے لیے چکّی کی مشقتیں جھیلتے دُنیا سے گزر گئے لیکن انقلابی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ سچ جانیے اس محل میں بسر کیے برسوں کی روداد سے یہ جانا کہ ایک قبیلہ آباد ہے میرؔ و غالبؔ سے منٹو اور راجندر سنگھ بیدی سے ہوتا ہوا زبیر رضوی اور جیلانی بانو تک! ایک مکمل خاندان اور اُن کے شب و روز، دُکھ سُکھ، نشت و برخواست، انداز، خوشی اور غم محبتیں اور نفرتیں— ہم نے اک آئینہ حیرت دیکھا۔اس فقیر اور بک کارنر جہلم کے رُوح رواں گگن شاہد اور امر شاہد کی محنت آپ کے سامنے ہے۔ ’’ادیبوں کی آپ بیتیاں‘‘— دیکھیے ، پرکھیے ، جانچیے اور پھر اپنی رائے کا اندراج کرا دیجئے تا کہ اس سفر میں آپ کی گراں قدر مشاورت سے ہم اپنا سفر جاری رکھ سکیں— تخلیق ہو، ترتیب وتدوین ہو، کہ تالیف۔ہمارا اصل انعام ایوارڈ ہمارا قاری ہے۔ قاری کی سند معتبر ترین ہے۔ کتاب کسی سرکاری یا درباری ایوارڈ کے ساتھ نہیں بلکہ ہمیشہ قاری کے ساتھ زندہ رہتی ہے۔