با تیں راشد اشرف سے… – سجا د پرویز

سوال: آپ کی پیدائش کہاں کی ہے ؟
راشد اشرف: پیدائش کراچی کی ہے۔ 70ء کی دہائی میں۔

سوال: آپ نے تعلیمی زندگی میں کن اساتذہ سے استفادہ کیا؟
راشد اشرف: ابتدائی تعلیم انٹر تک حیدرآباد ہی سے حاصل کی۔ اس کے بعد حیدرآباد سے کراچی کا رخ کیا جہاں سے این ای ڈی یونیورسٹی (داود انجینئرنگ کالج) سے کیمیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اُردو میں لکھنے کا آغاز سولہ برس کی عمر میں کیا۔ پبلک اسکول حیدرآباد میں اُردو کے استاد سے مجھے دلی عقیدت تھی، جن کا نام نعیم الرحمٰن جوہر تھا. نعیم صاحب پہلے ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ انٹر کی کلاس کے آخری دن نعیم صاحب نے اپنے تمام طالب علموں کے سامنے اپنی داستان حیات بیان کی۔ تمام طالب علم ان سے محبت کرتے تھے ا ور ان کی باتیں سننے میں محو تھے۔ قبول اسلام سے قبل نعیم الرحمٰن جوہر، نربھئے رام جوہر تھے. ان کے والد نے انہیں گیتا کے ساتھ ساتھ بائبل اور قران کریم کی تعلیم بھی دی جس کی بنیاد پر آگے چل کر وہ اختیاری طور پر نربھئے رام سے نعیم الرحمٰن ہوئے۔

سوال: راشد صاحب بتائیے کہ اس وقت اُردو زبان اور اُردو ادب کی ترقی کی کیا صورت حال ہے؟ اور کون سی صنف زیادہ ترقی کر رہی ہے؟
راشد اشرف: اس وقت اُردو زبان اور اُردو ادب کی ترقی کی صورت حال بیک وقت مایوس کن اور خوش کن ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی آمد اور لوگوں کی کثیر تعداد کے اس سے استفادے کے بعد، اُردو لکھنے کا رجحان کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ ’کٹ اینڈ پیسٹ‘ کا دور دورہ ہے۔ اکثر کہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں ’گوگل سرچ انجن‘ کی سہولت بند کردی جائے تو یقین کیجیے کہ اُردو کے آدھے اخبار راتوں رات دم توڑ جائیں گے، آدھی صحافت کا صفایا ہوجائے۔ دوسری جانب اُمید افزا پہلو یہ ہے کہ اس صورت حال میں بھی نئے لکھنے والے تواتر کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان میں حالیہ چند برسوں میں خودنوشت لکھنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس صنف ادب کو کئی لکھنے والوں نے درخوراعتنا جانا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کئی لکھنے والوں نے اس انداز سے خودنوشت لکھی ہے کہ اپنے قاری کو ’درگور‘ کردیا ہے۔ خاکہ نگاری، سفرنامہ اور تنقید میں بھی کثیر تعداد میں کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔
رہا سوال شاعری کا تو اس سلسلے میں خامہ بگوش کا وہ جملہ ہمیشہ تازہ رہے گا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”عہد میر میں دلی میں پانچ ہزار شاعر تھے، آج لاہور کے تھانہ انار کلی کی حدود میں اس سے زیادہ شاعر مل جائیں گے“۔ غالباً یہ مشفق خواجہ ہی تھے جنہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’بعض لوگ صرف اس لیے شعر کہتے ہیں کہ وہ پڑھنے والوں کا صبر آزما سکیں‘۔

اردو زبان و ادب میں شاعری تو واقعی ایک ’سنگین ‘ مسئلے کا رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ حالیہ چند دہائیوں میں ایسے شعرا کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو محض اپنا کلام شائع کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس عمل کے دوران شاعری کے معیار کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔خدا لگتی کہوں گا کہ اس وقت جو سب سے بڑا گناہ کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تصنیفات کو ستائشی مضامین لکھ لکھ کر نمایاں کیا جارہا ہے جن کا کام محض بھرتی کا کام ہے۔ مضمون نگار محض تعلقات یا دیگر وجوہات (یا معاشی ضروریات ) کی بنا پر یہ کام کیے چلے جارہے ہیں۔ خصوصا ً شاعروں کی ایک کھیپ کی کھیپ تیار ہورہی ہے جو اپنے پیسے کے بل بوتے پر جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وقت ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ زندہ کیا چیز رہے گی اور کیا نہیں۔ اب ’خامہ بگوش‘ بھی اس دنیا سے جاچکے ہیں جو اس قسم کے واقعات کا نوٹس لیتے تھے اور اس انداز میں لیتے تھے کہ مضروب اپنے زخم چاٹتا رہ جاتا تھا۔ پاکستان میں گزشتہ برسوں میں ایسے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ لوگ خلیجی ممالک سے یا یورپ و امریکہ سے اپنی کتاب کے ہمراہ وارد ہوئے، ایک روز پانچ ستارے والے کسی ہوٹل میں شاندار تقریب ہوئی، بہترین کھانا کھلایا گیا، شرکاءمیں سے دو تین نے معاوضہ لے کر ادبی جرائد و اخبارات میں ان کی کتاب کی توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے ۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا ہے۔

سوال: کیا کسی زبان کی ترقی محض اس بات پر منحصر ہے کہ اس کو سرکاری تحفظ حاصل ہو؟ اگر ایسا نہیں ہے تو زبان اور ادب کے تحفظ اور ترقی کے کیا کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟

کسی زبان کی ترقی ہرگز ہرگز محض اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ اس کو سرکاری تحفظ حا صل ہو۔ اردو زبان میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی بھرپور قوت ہے۔ یہ تمام تر نامساعد و نامواقف حالات کے باوجود بھی اپنا راستہ بنا رہی ہے۔ ان حالات میں سرکار عوام کو تحفظ دے لے ، وہی بہت بڑی بات ہوگی، ایسی صورت میں عوام خود خوشی خوشی زبان کو تحفظ دے لیں گے۔

سوال: آ پ کی دلچسپی اردو کی کتابیں جمع کرنے میں ہے اور ان میں سے اکثر کتب کو ۔کمپیوٹر پر منتقل کرنے کا محنت طلب کام کرنے کا خیال کیوں کرآیا؟

انٹرنیٹ پر اب تک سا ڑھے چھ سو نادر و نایاب Scribed.com پر جبکہ Kitabustan.com پر ایک سو کتابیں پیش کرچکا ہوں اور ان تمام کتابوں کے دائرہ مطالعہ کا ریکارڈ حیران کن ہے۔ اب تک پوری دنیا میں تین لاکھ سے زائد افراد ان کتابوں کو پڑھ چکے ہیں جبکہ ڈاون لوڈ کرنے والوں کی تعداد علاحدہ ہے۔ اس کام کو سرانجام دینے کے پس پردہ صرف ایک ہی سوچ تھی اور وہ یہ کہ کسی بھی عمدہ و دلچسپ کتاب کو کسی فرد واحد کی ذاتی جاگیر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے ہرخاص و عام کی دسترس میں ہونا چاہیے۔

ایک امریکی اور ایک برطانوی آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ برطانوی نے اپنی دوربین سے ساحل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا’وہ دیکھو! سو فٹ د ور کس قدر حسین لڑکی کھڑی ہے‘

امریکی نے جواب دیا ” وہ تو ٹھیک ہے مگر سو فٹ دور کھڑی حسینہ کس کام کی ؟ “

سو کوئی اہم اور تاریخی کتاب اگر کسی صاحب کے کتب خانے میں برسوں سے پڑی ہے اور وہ اگر اس پر پھن کاڑھے بیٹھے ہیں تو اس کا دوسروں کو کیا فائدہ۔
اس کام کو کیے جانے کے پس پردہ اردو زبان کی ترویج کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی کارفرما تھی کہ اردو کی وہ کتابیں پیش کی جائیں جو ماضی کی گرد میں کہیں چھپ کر نظروں اور ذہنوں سے اوجھل ہوگئی تھیں اور جو فی زمانہ کسی تحقیق کے کام میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہیں مزید یہ کہ دنیا کے ایسے حصوں میں قیام پذیر لوگ ان سے استفادہ کرسکیں جہاں اردو کی کتابیں پہنچا تو کجا، وہ اردو بولنے کو بھی ترس جاتے ہیں۔ بیرون ممالک میں مقیم ایسے ہزارہا لوگ ہیں جنہوں نے مذکورہ کتابوں میں شامل فیروز سنز سے سن ستر کی دہائی میں شائع ہوئے بچوں کے ڈھائی سو سے زائد ناولوں کو اپنے بچوں کو اردو سکھانے کی غرض سے ڈاو ¿ن لوڈ کیا ہے۔ میرے نام اس سلسلے میں سینکڑوں برقی مکتوبات آچکے ہیں، لوگوں نے انہیں خود پڑھا ہے ، اپنے بچوں کو پڑھوایا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

کتابوں کی اسکیننگ اور انٹرنیٹ پر ان کتب کی دستیابی (uploading) ایک ایسا طریقہ ہے جس کی مدد سے کتابوں کو ایک طویل عرصے تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر ان کی ”آخری آرام گاہ“ پرانی کتابوں کے اتوار بازار وںہی میں بنتی ہے ۔ اسی سوچ کے پیش نظر ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنا کتب خانہ جاپان کی کیوتو یونیورسٹی کو سونپ دیا جہاں ان کی ستائیس ہزار کتابوں کی اسکیننگ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ ڈاکٹر نے اپنے اس فیصلے کے جواز میں 2012ءمیں ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:

حمیدالدین شاہد کا کتب خانہ دکنیات کے لحاظ سے اہم تھا۔ڈاکٹر سہیل بخاری، ڈاکٹر شوکت سبزواری، ڈاکٹریاض الحسن ، ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری جیسے متعدد نام ہیں جن کے کتب خانے کبھی شہرت اور اہمیت رکھتے تھے لیکن اب ان کے نام و نشان بھی نہیں۔ان میں سے مرزا علی اظہر برلاس اور ڈاکٹر ریاض الحسن اور دیگر کئی افراد نے اپنے کتب خانے اور قیمتی نوادرات و مخطوطات مشفق خواجہ کی نذر کردیے تھے۔ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری صاحب نے اپنا کتب خانہ ایک دارالعلوم
کے کتب خانے کو دے دیا۔لیکن دیگر ذاتی کتب خانوں کا اب وجود نہیں رہا۔ایسے بیشتر کتب خانے کراچی ہی نہیں لاہور بلکہ ہر شہر میں کباڑیوں اور ردی فروشوں یا فٹ پاتھوں پر فروخت ہوئے۔اب ان کا نام و نشان نہیں۔ آج ہمارے اکابر میں کراچی میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے کتب خانے بہت وقیع سمجھے جاتے ہیں۔ان کے علاوہ سحر انصاری صاحب یالاہور میں محمد عالم مختار حق، افضل حق قرشی ، اکرام چغتائی، ڈاکٹر تحسین فراقی اور اقبال مجددی صاحبان وغیرہ کے کتب خانے بھی ایک مثال ہیں۔لیکن ان سب کا مستقبل کےا ہے یہ سوال ہر ایک کے لیے، جس جس کے پاس ذاتی کتب خانہ موجود ہے، اذیت ناک ہے۔زیادہ سے زیادہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کے بعد ان کا کتب خانہ کسی لائبریری کو دے دیاجائے گا یا لائبریری میں پہنچ جائے گا۔لیکن کراچی یونیورسٹی ، ہمدرد یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں کئی ذاتی کتب خانے جمع ہوئے لیکن ان کا کیاحشر ہوا؟ یہ عبرت ناک ہے۔کراچی یونیورسٹی میں احسن مارہروی، مولوی بشیر الدین احمد،ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور دیگر متعدد اکابر و مشاہیرکے کتب خانے بھی آئے لیکن منوں مٹی تلے دبے ہوئے ہیں اور کوئی ان کا پرسان ِ حال نہیں۔بعض ذخائر ابھی تک بوریوں میں بند پڑے ہیں اور یوں ہی تباہ ہورہے ہیں، کوئی نہیں جو انھیں کھولنے اور ترتیب دینے تک کا سوچے، ان کی حفاظت اور دیکھ بھال اور انھیں ترتیب دینا اور قابل ِ استفادہ \”02-8-300×400\”رکھنا تو دور کی بات ہے۔ یونیورسٹیوں کے خود اپنے ذخائر اب انتہائی کس مپرسی کی حالت میں ہیں اور تباہ ہوچکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں ان کا مستقبل بھی مختلف نہیں۔ جس طرح ہم اور ہمارا معاشرہ، ہماری اقدار، ہماری روایات ہر چیز تباہی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے اورذمے داروں میں کوئی نہیں جو اس تباہی کو روکنے کے لیے کوشاں یا مستعد ہو۔اسی طرح لائبریریاں بھی اور خاص طور پر جامعات کی لائبریریاں اپنے ارباب ِ اقتدار کی بے نیازی اور نااہلی کے سبب تباہی اور کس مپرسی کا شکار ہیں۔ بظاہر اقبال کا یہ شعر بطور ضرب المثل بھی ہمارے دلوں کو چھوتا رہتا ہے:

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آ با کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

لیکن یورپ وامریکہ کا وہ کونسا کتب خانہ ہے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ وہاں کتابیں کس مپرسی کی حالت میں برباد ہورہی ہیں؟ یقینا ان کتابوں پر قوم و ملت کا زیادہ حق ہے لیکن اگر وہ یہیں رہتیں تو کیا اب تک وہ باقی رہتیں؟ ہندوستان میں مسلم عہد حکومت کے کتنے ہی بے مثال اور عالی شان کتب خانوں کے ذکر سے ہماری علمی تاریخ بھری پڑی ہے، لیکن آج وہ کہاں ہیں؟ ان کی کتابوں کی فہرستیں بھی مرتب ہوئی تھیں لیکن وہ فہرستیں تک اب یہاں موجود نہیں وہ بھی یورپ ہی کے کتب خانوں کی زینت ہیں!یوں دیکھیں توعلمی حوالے سے مغرب کے جو احسانات ہم پر ہیں، میں تو اسے بھی ان کے سامراجی اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک ایسا اقدام بھی سمجھتاہوں کہ جس کی وجہ سے ہماری علمی و تہذیبی فضیلتیں ایک ثبوت اور حقیقت کے طور پروہاں محفوظ ہیں اور خود ہمارے استفادے کے لیے بھی موجود ہیں اور ہم ان سے حسب ِ استطاعت فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔اگر وہ سب کچھ، جو مغربی کتب خانوں میں آج محفوظ ہے،وہاں محفوظ نہ رہتا تویہاںہمارے عبرت ناک اور نہ رکنے والے زوال کے باعث وہ سب بھی ضائع ہوچکاہوتا۔آج یہ بھی ہمارا دور ِ زوال ہی ہے کہ ہم اپنے معاشرے اور اپنی اقدار کو محفوظ رکھنے کے لیے رمق بھر بھی کوشش نہیں کررہے۔ ان ساٹھ پینسٹھ برس میں ہم نے ادارے بنائے نہیں، جو موجود تھے یا اگر کچھ بن بھی گئے تھے تو ہم نے انھیں بربادی کی حد تک پہنچادیاہے۔ماضی تو ایک طرف جب ہمارا حال بھی تیز تر زوال کا شکار ہے اور ہمارے نظام میں اب کوئی ایسی امید افزا صورت نظر نہیں آتی کہ ہم اپنی حالت کو سنبھالا دے سکیں اور اس مزید زوال کو ، جو ہمارا مقدر لگ رہاہے، روک بھی سکیں۔

مگر سچ پوچھئے تو کچھ عرصے سے مےری ہمت جواب دے گئی ہے۔ 650 کتابوں کی اسکیننگ ایک تھکا دینے والا کام ہے۔ یہ اپنا خراج طلب کرتا ہے۔ مشفق خواجہ لائبریر ی میں ایک برس سے کتابوں کی اسکیننگ پر مامور ایک دوست کے بقول ’شام کو جب گھر واپس جاتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میری گردن اور کمر پر گویا کسی نے سیمنٹ کا لیپ کردیا ہے۔‘

کچھ عرصہ قبل فرزند قابل اجمیر ی جناب ظفر قابل کا فون آیا۔ کہنے لگے کہ میں اپنے والد سے متعلق چند اہم کتابیں اور ان کے ہاتھ کا تحریر کردہ مسودہ ”دیدہ بیدار“ (1958) بھیج رہا ہوں۔ان کے الفاظ یہ تھے:

”چونکہ آپ کتابوں کی اسکیننگ کرتے ہیں لہذا ان کو بھی انٹرنیٹ پر محفوظ کردیجئے۔میرے دل کا بائی پاس آپریشن ہونے والا ہے، ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے، زندہ بچنے کا امکان کم ہے لہذا یہ امانت آپ کو بھیج رہا ہوں۔“

قابل اجمیری مرحوم کی کتابیں اور مسودہ جب میرے پاس پہنچے تو انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک ایسا قیمتی اثاثہ جسے لوگ سینے سے لگا کر رکھتے ہیں مگر شاید ظفر صاحب کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ انٹرنیٹ پر اسے محفوظ کردینا ہی ان حالات میں سب سے مناسب ہے۔ الحمد اللہ کہ ظفر قابل اجمیری صاحب کی سرجری کامیاب رہی اور وہ رو بہ صحت ہیں۔

میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ مزید کام کیسے کیا جائے ۔ کیا سبیل ہو۔

پھر یوں ہوا کہ اللہ تعالی نے ایک مہربان کو بھیج دیا۔ یہ نوجوان بیرون ملک سے آئے،میرے غریب خانے پر ملاقات کو تشریف لائے ،کہا کہ ایک عرصے سے ”بزم قلم“ پر آپ کے اسکیننگ کے کام کو دیکھ رہا ہوں۔خواہش ہے کہ اسے وسعت دی جائے۔اس سلسلے میں مالی تعاون کی پیشکش کی۔ طے پایا کہ کسی ایسے شخص کی خدمات حاصل کی جائے گی جو مناسب معاوضے پر ماہانہ بنیادوں پر اسکیننگ کا کام کرسکے۔ طے ہوا کہ ایک ماہ میں کم و بیش فی الحال صرف ۵۱ نثری کتابیں اسکین کی جائیں گی جن کی اسکیننگ کی لاگت وہ ماہانہ بنیادوں پر ارسال کیا کریں گے۔ تمام معاملات طے پا جانے کے بعد ہمارے ممدوح نے ابتدائی طور پر ایک معقول رقم اس کام کے لیے فراہم کردی۔

“اس سلسلے میں بھی حیرت انگیز پیش رفت ہوئی اور ایک ایسا نوجوان مل گیا جو بخوشی اس کام پر تیار ہوگیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل سے درخواست کی گئی کہ اپنے باقی ماندہ کتب خانے سے متفرق موضوعات تحقیق، خودنوشت، وفیات، سفرنامہ وغیرہ پر مبنی 20 کتابیں عنایت کردیں آپ نے بخوشی حامی بھرلی، اٹلانٹس پبلی کیشنز کے جناب فاروق احمد نے کتابیں فراہم کرنے کا کہا، مےںنے اپنے کتب خانے سے 50 کتابیں علاحدہ کیں، سید معراج جامی صاحب نے اپنے کتب خانے سے 12 اہم ہندوستانی کتب فراہم کیں۔ HP کا ایک مناسب سا ’جواں سال‘ اسکینر خریدا گیا اور مذکورہ نوجوان کو فراہم کردیا گیا۔ابتدائی طور پر قابل اجمیری کے دو مسودات اور چند کتابیں اسکیننگ کے لیے دے دی گئیں۔ اور پھراسکیننگ کا آغاز ہوگیا اور ان دنوں بھی روزانہ کی بنیادوں پر یہ کام جاری ہے۔ میری احباب سے درخواست ہے کہ:

متفرق اہم نثری موضوعات پر کتابیں فراہم کرسکیں تو اچھا ہو۔کتاب نئی نہ ہو۔ کسی مرحوم یا آنجہانی ادارے کی کتابیں فراہم کرنے میں کوئی قبا حت نہیں ہے۔ کتابیں احتیاط سے اسکیننگ کے بعد واپس کردی جائیں گی۔

چند ماہ قبل دہلی میں ہوئے جشن ریختہ میں ہمارے یہاں سے جناب ضیاءمحی الدین نے شرکت کی تھی۔ وہ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ :
”جس طرح ریختہ نے اردو کتابوں کی اسکیننگ کی ہے اور انہیں عوام کے استفادے کے لیے پیش کیا ہے بالکل اسی طرز پر ہمارے یہاں پاکستان میں بھی کام ہونا چاہیے۔ میں واپس جا کر اپنے لوگوں کو شرم دلاو ¿ں گا اس جانب بھی توجہ کریں۔“

ضیاءصاحب کے علم میں شاید یہ بات نہیں کہ مشفق خواجہ مرحوم کا بے مثال کتب خانہ بھی تین برس سے کیٹلاگنگ (cataloging) اور اب اسکیننگ کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ ادھر ڈاکٹر معین الدین عقیل کے کتب خانے کی ستائیس ہزار کتابوں کی روزانہ کی بنیاد پر آٹھ افراد اسکیننگ میں مصروف ہیں۔ انجمن ترقی اردو کراچی(پاکستان) کی انتظامیہ بھی انہی خطوط پر سوچ رہی ہے۔

مذکورہ بالا معاملے میں میرے بخت میں جو درج تھا وہ ہوگیا،اب وہ بھرپایا، اک وقفہ لیا ہے اوراب دم کے کر آگے چلیں گے۔ جب تلک ساغر چلے گا، چلائیں گے۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں ، کتابوں یا مطلوبہ مواد کی لوگوں کو فراہمی کے پس منظر میں مدد کا جذبہ کارفرما ہے اور اس سلسلے میں مشفق خواجہ مرحوم، سید معراج جامی اور عقیل عباس جعفری جیسے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ بنا کسی غرض ، لوگوں کی مدد کی ہے۔

سوال: دنیا کے ہر کونے سے آپ کو کتابیں موصول ہوتی ہیں ،آپ کا کیا تاثر ہے کہ دنیا کے الگ الگ حصوں میں رہنے والے،اردو والے،اور انکی نگارشات ایک جیسی ہیں یا ان میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ اور یہ کہ خصوصاً برصغیر ہند وپاک میں اردو زبان کاکیا مستقبل نظر آتا ہے۔اور دونوں ملکوں میں لکھے جانے والے ادب اور طباعت میں کیا کیا نمایاں فرق نظر آتا ہے؟

یہ بات درست ہے کہ مجھے دنیا کے ہر کونے سے کتابیں موصول ہوتی ہیں۔ خاص کر ہندوستان سے جہاں سے ہر طرح کی چیز، ہر طرح کا سامان پاکستان آتا ہے سوائے کتابوں اور جرائد کے ۔

دنیا کے مختلف حصوںسے تعلق رکھنے والوں کی نگارشات ہرگز ہرگز ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ ان میں تنوع ہوتا ہے، ہر علاقے اور خطے کا رنگ نمایاں ہوتا ہے، ہر تحریر کا الگ الگ مزہ ہوتا ہے۔ خاص کر خودنوشتوں کے معاملے میں تو بیک وقت کئی ‘ذائقے‘ محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ہاں البتہ پاک و ہند سے شائع ہونے والی خودنوشتوں میں ایک قدر مشترک ضرور ہے۔ برصغیر کے نامساعد حالات میں لوگوں کا آگے بڑھنا، زیست کرنا، اس میں درپیش مصائب کا بیان اور ہمت اور عزم کے ساتھ ان سے نبرد آزما ہونے کا احوال۔ یہ قاری کو ہمت اور حوصلہ دیتا ہے۔

حالیہ دنوں میں میں نے دہلی سے شائع ہوئی ایک ایسی ہی خودنوشت’پگڈنڈیاں‘ کا مطالعہ کیا اور مصنفہ بچنت کور کے دکھ کو اپنے دل میں محسوس کیا۔ جمشید پور کے اسلم بدر صاحب کی خودنوشت ’پندار کا صنم کدہ‘بھی خاصے کی چیز ہے۔ اسی طرح خاکہ نگاری کی صنف میں بے شمار لوگوں نے اہم سنگ میل قائم کیے ہیں ، درجنوں معیاری مجموعے منصہ شہود پر آچکے ہیں۔ منٹو، شورش کاشمیری، چراغ حسن حسرت، نصر اللہ خاں، اسلم فرخی، غرضیکہ کس کس کا نام لوں اور کس کا نہیں۔ لیکن حال ہی میں ہندوستانی فلمی صنعت سے وابستہ جاوید صدیقی کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ’روشندان‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس کے مطالعے کے بعد میرا یہ ماننا ہے کہ خاکہ نگاری کی تیزی سے ماند پڑتی صنف ادب میں گویا اس کتاب نے ایک نئی روح پھونک دی ہے اور اس کی رگوں نیا خون دوڑا دیا ہے۔ ہر حساس دل رکھنے والے کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔

’پگڈنڈیاں ‘ ہو یا’روشندان‘، دونوں میں حالات کے شکنجے میں جکڑے ہوئے مجبور انسانوں کی داستانیں موجود ہیں۔ یہ اس خطے کی قسمت ہے جسے برصغیر پاک و ہند کہا جاتا ہے ۔ یہاں کی اکثریت کو نان و جویں کے حصول کے لیے سنگلاخ پتھروں کا کلیجہ چیرنا پڑتا ہے۔ اپنا آپ داو ¿ پر لگانا پڑتا ہے تب کہیں جا کر گوہر مقصود ہاتھ آتا ہے اور وہ بھی سب کے نصیب کا حصہ نہیں بنتا۔

میری نظر میں برصغیر ہند وپاک میں اردو زبان کا مستقبل تمام تر ناموافق حالات کے باوجود پائدار ہے۔ خاص کر ہندوستان میں جب تک ’اردو‘زبان میں فلم بنتی رہے گی، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔ یقین کیجیے کہ جب تک چھوٹے چھوٹے اداکار بچے ہندوستان میں بنی چلر پارٹی جیسی فلموں میں بے عیب، ش قاف کا خیال رکھتے ہوئے اردو بولتے رہیں گے، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔جب تک رچی مہتا جسے لوگ ’امل‘(amal) جیسی فلموں کو پیش کرتے رہیں گے اور نصیر الدین شاہ جیسے عظیم اداکار فلم میں بے عیب اور بامحاورہ اردو بولتے رہیں گے، اردو کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں میں ہندوستانی آرٹ فلموں کا ذکر قصداً نہیں کرنا چاہتا کہ وہ میری انتہائی دلچسپی کی چیز ہیں جن پر تفصیلی گفتگو کا یہ متحمل یہ انٹرویو نہیں ہوسکتا۔ لیکن بہرحال اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ ان فلموں میں سے بہتیری ایسی ہیں جن میں اردو زبان کی صحت کا خیال رکھا گیا ہے اور دیکھنے والوں کو اردو سیکھنے کی ترغیب ملی ہے۔ پاکستان کہنے کو اردو کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں یہ حال ہے کہ انگریزی دان طبقہ اردو کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاکستان میں انگریزی بو لیے ، رکے ہوئے کام ہوجائیں گے، سامنے والا مرعوب ہوجائے گا۔ یہاں ایسے مناظر دیکھتے ہوئے ایک عمر گزر گئی ہے۔

ہند میں انگریزی بولنا باعث فخر نہیں سمجھا جاتا جب کہ یہاں صورت حال اس کے برعکس ہے۔

ادھر یہاں کے ٹی وی چینلوں نے وہ ادھم مچایا ہے کہ الامان الحفیظ۔ سب سے زیادہ بگاڑ یہی لوگ پیدا کررہے ہیں۔ خبریں پڑھنے مرد و خواتین سارا دن غلط اردو بولتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے کبھی اردو کی کوئی کتاب کھول کر بھی نہ دیکھی ہوگی۔ محترم آصف جیلانی کی بات دوہرا رہا ہوں کہ لفظ ’حوالہ‘ پاکستان میڈیا کے اعصاب پر سوا رہوگیا ہے۔ ایک ایک جملے میں چار چار مرتبہ اس لفظ کو دوہرایا جاتا ہے۔

دونوں ملکوں میں شائع ہونے والی کتابوں کی طباعت میں واضح فرق ہے۔ یہ فرق صاف نظر آتا ہے۔ مجھے ایک ہندوستانی ناشر نے بتایا تھا کہ ہند میں سرکار اردو زبان میں شائع ہونے والی کتابوں کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سے آنے والے رسائل کی قیمت ناقابل یقین حد تک کم ہوتی ہے، اتنی قیمت میں پاکستان میں رسالے کا سرورق ہی بنتا ہوگا۔ یہی حال کتابوں کا ہے۔ ہند سے شائع ہونے والی کتابوں کا کاغذ نہایت عمدہ اور معیاری ہوتا ہے جبکہ یہاں بڑے بڑے نامی گرامی ناشرین کا یہ حال ہے کہ وہ’میٹ‘کاغذ کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ سال نامور ادیب و براڈکاسٹر رضا علی عابدی کی کتاب’ کتابیں اپنے آباءکی‘ شائع ہوئی ہے اس قدر عمدہ اور دلچسپ و تاریخی کتاب کی طباعت کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ کتابیں اپنے آباءکی،’آباء‘ ہی کے زمانے میں شائع ہوئی کوئی کتاب معلوم ہوتی ہے۔

سوال: آ پ کو خود ادب کی کون سی صنف زیادہ پسند ہے اور آپ کس صنف میں اظہار خیال کرنا پسند کرتے ہیں ؟

“خودنوشت، خاکہ اور سفرنامہ۔ میر ے خیال سے یہ تینوں اصناف ادب محض میری نہیں بلکہ اکثریت کی پسندیدہ ہوتی ہیں۔ پاکستانی ادیبوں کے تحریر کردہ ہندوستان کے سفرناموں سے شیفتگی کا یہ عالم ہے کہ 2011ءمیں فرزند ابن صفی جناب احمد صفی دلی گئے تو میں نے انہیں لذت کام و دہن کی آزمائش کے لیے کریم ہوٹل کا نام تجویز کیا اور نتیجہ حسب حال نکلا۔ کریم ہوٹل کے کھانے کھا کر ان کا وزن اور واپسی پر اس کے بیان سے ہماری اشتہا، دونوں میں قابل ذکر اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح اور کئی مثالیں بھی ہیں۔

خودنوشت آپ بیتی میر ی دلچسپی کا ایک خاص موضوع ہے اور اس صنف ادب میں کچھ کام بھی کیا ہے۔ پاک و ہند سے شائع ہونے والی خودنوشت آپ بیتیوں کی فہرست پر گزشتہ چار برس سے کام کررہا ہوں، یہ تقریباً مکمل ہوچکی ہے اور امکان ہے کہ کسی موقر ادبی جریدے میں شائع ہوگی۔ اسی طرح ابن صفی پر دو کتابیں لکھنے کے بعد اب اردو خودنوشتوں پر ایک جامع کتاب لکھنے کا ارادہ ہے لیکن کیا کیجیے کہ کسی ’قدر ناشناس‘ کی تگڑی سی’زرپرستی ‘ کا طلبگار ہو ں اور ذاتی طور پر سوچتا ہوں کہ اگر اس کے بجائے ملکہ شراوت پر کتاب لکھنے کا ارادہ کیا ہوتا تو ناشرین کی قطار لگ چکی ہوتی۔ یہ الگ بات ہے کہ قطار میں موجود ناشرین کی اکثریت میں ‘نا‘ اور ‘شر‘، دونوں عناصرکا غلبہ ہوتا۔ لیکن صاحب، کیا کیجیے کہ بقول جناب احمد صفی، اگلے وقتوں میں زور شرافت پر ہوتا تھا، اب ’شراوت‘ پر ہے۔
خیر یار زندہ صحبت باقی بلکہ ناشر زندہ شراوت باقی ۔۔۔۔۔! رہا سوال اظہار خیال کرنے والی بات کا تو کتابوں بالخصوص خودنوشتوں پر تبصرے ہی عرصہ چار برسوں سے دلچسپی کا موضوع رہے ہیں جو پاک و ہند کے مختلف ادبی جرائد میں شائع ہورہے ہیں۔ اس کوشش کو اپنے باعث فخر نہیں سمجھتا، یوں سمجھ لیجیے کہ دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک ذریعہ ہے۔

سوال: کمپیوٹر کی ایجاد نے۔اردو والوں کو۔بہت قریب، کردیا ہے ، یہ اچھی علامت ہے یا تصادم کی ؟

اس بات میں دوسری کوئی رائے نہیں ہوسکتی کہ کمپیوٹر کی ایجاد نے اردو والوں کو قریب کردیا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور متفرق فورمز کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے جہاں نئی کتابوں کی اشاعت کی اطلاعات، شاعری، نثری مضامین سبھی کچھ پلک جھپکتے میں ای میل باکس میں پہنچ جاتا ہے، لوگ اسے باقاعدگی سے دیکھتے ہیں اور تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ اس سے کتابوں کی فروخت میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ایسے شواہد موجود ہیں کہ مےری نئی کتابوں کی اشاعت، پیش کی جانے والی اطلاعات کے ردعمل میں لوگ اردو بازار کراچی کی دو معروف دکانوں میں متعلقہ کتاب کے حصول کے لیے مےری ’مدلل‘ رائے و تعارف کے احترام میں مےرا نام لیتے پہنچے۔ البتہ اس بات کا کوئی ریکارڈ نہ مل سکا کہ زر کثیر صرف کرکے کتاب خریدنے اور اسے پڑھنے کے بعد وہی لوگ میر ے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔ سچ پو چھیئے تو طبیعت میں پائی جانے والی درویشی اور متاثرین کے متوقع ردعمل کے سبب کبھی ہمیں اس کی تفصیلات جاننے کا شوق بھی نہ ہوا۔

بہرحال یہ صحت مندانہ رجحان ہے، حوصلہ افزا بات ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اردو ٹائپنگ یعنی یونی کوڈ یا ان پیج کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ذاتی علم میں ایسے کئی بزرگ ہیں جو اسی برس سے زیادہ کی عمر میں مہارت سے اس کا استعمال کررہے ہیں۔
پروفیسر اطہر صدیقی، ظہیر الحسن جاوید،آصف جیلانی…. کتنے ہی ان جیسے مزید نامور لوگ ہیں جو مذکورہ طرز تحریر میں مہارت رکھتے ہیں۔

اس شعبے میں کئی خاموش مجاہد صلے کی تمنا کی پروا کیے بغیر چپ چاپ اپنا کام کیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں کئی نام ہیں جیسے فرخ منظور، محمد وارث اور اسی طرح ہند میں اعجاز عبید ہیں جنہوں نے یونی کوڈ میں متفرق موضوعات پر ہزارہا برقی کتابوں کی دستیابی کو ممکن بنایا ہے۔ پاکستان میں ایک صاحب شرجیل نامی نے شکاریات پر ایک عمدہ ویب سائٹ بنائی ہے۔میاں سعید کی ویب سائٹ معتبر تسلیم کی جاتی ہے۔ اعجاز عبید صاحب کو پاکستان سے بھی کئی لوگوں کا تعاون حاصل ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ ان تمام لوگوں کی ستائش کرسکوں۔ اردو محفل، بزم قلم، علی گڑھ اردو کلب،ادب ڈاٹ کام، اردو ویب، اردو سخن وغیرہ کئی ایسی سائٹس ہیں جہاں اراکین اردو میں لکھتے ہیں اور تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

ہند وستان سے ریختہ کے نام سے ایک اردو ویب سائٹ کا آغاز کیا گیا ہے جہاں متفرق موضوعات پر کثیر تعداد میں کتابیں دستیاب ہیں۔ یہ نہایت کارآمد ویب سائٹ ہے جو تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔

پاک و ہند سے جب کبھی بھی کوئی رابطہ کرکے یہ اطلاع دیتا ہے کہ آپ کی اپ لوڈ کی ہوئی فلاں کتاب اس کے ایم فل یا پی ایچ ڈی کے مقالے کی تکیل کے سلسلے میں کارآمد ثابت ہوئی ہے تو یقین کیجیے کہ یہ میرے لیے ازحد باعث طمانیت و انبساط ہوتا ہے۔ اب تک یہ حقیر پاک و ہند کے پندرہ ایم فل یا پی ایچ ڈی کے مقالوں کے لکھنے والوں کو بھرپور مدد فراہم کرچکا ہے۔ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے مجھے اپنے مقالوں کی ان پیج فائل نظر ثانی و تصحیح کے لیے ارسال کی ہے

سوال: آخر میں ان ادیبوں اور شاعروں کے نام بتا ئیے ؟ جو آپ کو زیادہ پسند ہیں ۔

یہ سوال دلچسپ ہے۔ اوائل عمری ہی سے بچوں کے ناول لکھنے اور ترجمہ کرنے والے ادیب میرے دل کے قریب رہے تھے۔ یہ مجھے ایک ایسی دنیا میں لے جاتے تھے جو ایک طلسماتی دنیا تھی۔ یہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے تھے، ذہنوں کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ یہ وہ خاموش مجاہد تھے جن کے اوپر تاحال کوئی تحقیق نہ ہوئی، کوئی مقالہ نہ لکھا گیا، اور تو اور ان میں سے اکثر کا ذکر بعد از مرگ وفیات کی کتابوں میں بھی نہ آیا۔ وہ قلم کی مزدوری کرتے، کسی صلے کی تمنا کے حصول کے بنا، خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن مجھ ایسے لاکھوں پڑھنے والوں کے ذہن و قلب میں وہ آج بھی پوری آب و تاب سے زندہ ہیں۔ ان میں مقبول جہانگیر ہیں، سلیم احمد صدیقی، زبیدہ سلطانہ، جبار توقیر، محمد یونس حسرت ہیں۔ راز یوسفی، سعید لخت، سعید احمد سعید، ابو ضیاءاقبال ہیں۔ ان میں سید ذاکر اعجاز، شوکت ہاشمی، قمر نقوی، فرخندہ لودھی، عزیز اثری، ذوالفقار احمد تابش، سیف الدین حسام جیسے قلم کار شامل ہیں۔ یہ میرے ہیرو ہیں اور میں ان کو سلام پیش کرتا ہوں۔

اور پھر اے حمید مرحوم کو تو کسی طور نظر انداز کیا ہی نہیں جاسکتا ہے۔ کچھ وقت گزرا اور چھٹی جماعت میں پہنچا تو وقت سے قبل ہی ابن صفی مرحوم کو جآپ کڑا اور ان کی تحریر کے سحر میں ایسا مبتلا ہوا کہ آگے چل کر ان پر باقاعدہ تحقیق کرڈالی اور ان پر دو عدد کتابیں لکھیں۔مختصر الفاظ میں کہنا چاہوں گا کہ ابن صفی، اے حمید اور محمد خالد اختر سے میں نے محبت کی ہے۔ ان میں اے حمید مرحوم سے لاہور میں ان کی قیام گاہ پر ملاقات کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔ آج بھی ان تینوں ادیبوں کی کوئی بھی کتاب ہاتھ میں تھام کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہوں۔

ان مصنفین کی برسہا برس پرانی تحریر کردہ کتابوں کو دیکھ کر آج بھی میری وہی کیفیت ہوتی ہے جسے محمد خالد اختر نے ایک مرتبہ اپنی پسندیدہ کتابوں کو ایک زمانے بعد اپنے عزیز از جان دوست ، مشہور مزاح نگار شفیق الرحمن کے گھر میں ایک ڈبے میں رکھا دیکھ کر ان الفاظ میں بیان کیا تھا:

” چھ سبز چھوٹی سی کتابیں۔کیسے خوبصورت، مسرت بخش essays وہ لکھتا تھا اور ملنے میں وہ کتنا شفیق، ہنس مکھ ، خوش گفتار رفیق ہوگا۔ اب میں نے اس کی کتابیں برسوں کے بعد دیکھیں۔ایک پھانس سی میرے حلق تک آئی اور میں نے انہیں بھیگی ہوئی آنکھوں سے، احترام سے اس گوشے سے اٹھایا۔اپنے ہاتھ سے بار بار تھپکا۔ایلفا، پیارے ایلفا۔ تم نے ہمیں ہماری جوانی میں کیا کچھ نہیں دیا۔تمہارے جیسے essays ، زندگی کے حزن،اس کی شادمانی اور خوبصورتی سے دمکتے ہوئے، اب کون لکھ سکے گا“۔

(ہم سب)