لندن سے آداب عرض – عارف وقار

یکم ستمبر 1939ء کو جب ہٹلر نے اچانک ہمسایہ ملک پولینڈ پر حملہ کر کے دوسری جنگ عظیم کا طبل بجایا تو بمبئی کے ساحل پر کھڑے لندن روانگی کے لیے تیار بحری جہاز کے مسافروں میں ہل چل مچ گئی۔ بہت سے مسافروں نے سفر کا ارادہ ترک کر دیا اور سامان واپس لینے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہو گئے۔ کچھ مسافر گو مگو کی کیفیت میں عرشے پر ٹہلنے لگے۔ انہی پریشان لوگوں میں ایک نوجوان آغا اشرف نام کا بھی موجود تھا جسے لندن یونیورسٹی میں اردو پڑھانے کی نوکری ملی تھی لیکن یورپ میں جنگ چھڑنے کی خبر نے اس کے تمام ارادے متزلزل کر دیے تھے۔ کچھ دیر بعد جہاز نے روانگی کا سائرن بجایا اور باقی ماندہ مسافروں کو لے کر روانہ ہو گیا۔ آغا اشرف نے اس سفر کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا اور ہر طرح کی فکر مندی سے آزاد ہو کر سمندر کی لہروں کا مشاہدہ کرنے لگے۔ یہ سفر نہر سویز والے مختصر راستے سے نہ ہو سکا بلکہ جنگی خطرات سے بچتے ہوئے ساحل افریقہ کے ساتھ ساتھ لمبا راستہ اختیار کیا گیا۔ جہاز جوہانسبرگ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تو مقامی اخبارات کی تفصیلی رپورٹوں سے پتا چلا کہ سارا یورپ جنگی شعلوں کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ چنانچہ کئی مسافروں نے مزید سفر کا ارادہ ترک کر دیا اور جنوبی افریقہ ہی میں رہ گئے لیکن آغا اشرف نے اپنا سفر جاری رکھا کیونکہ قضا و قدر نے بہت سے کام اس نوجوان کے لیے مختص کر رکھے تھے جن میں انگریزوں کو اردو سکھانے اور برطانوی شہروں کی سیاحت سے لے کر لندن پر جرمن بمباری کا آنکھوں دیکھا حال بی بی سی سے نشر کرنے تک کئی معرکے شامل تھے۔
ہندوستان اور برطانیہ میں اردو نشریات کا آغاز کرنے والے آغا اشرف کو آج قریب قریب فراموش کیا جا چکا ہے اور اگر کراچی کے جوان ہمت ناشر اور محقق راشد اشرف 72 برس پرانی ایک نایاب کتاب کی اشاعتِ نو کا بیڑا نہ اٹھاتے تو شاید آغا اشرف کو یہ نئی زندگی نہ ملتی۔ آغا اشرف آغا باقر کے بھائی اور مولانا محمد حسین آزاد کے پوتے تھے۔ 1912 میں پیدا ہوئے اور 1962 میں چل بسے لیکن پچاس برس کی اس مختصر زندگی میں بھی انہوں نے درس و تدریس سے لے کر براڈ کاسٹنگ تک کئی شعبہ ہائے زندگی کی سیر کی، مشرق و مغرب کے بہت سے ملکوں کی سیاحت کی اور اپنے سیر و سفر کے تجربات کو مطبوعہ مضامیں کی شکل میں دوسروں تک بھی پہنجایا۔

”لندن سے آداب عرض“ اصل میں اس ہفتہ وار فیچر کا عنوان تھا جسے وہ بی بی سی لندن کی ہندوستانی نشریات میں پیش کیا کرتے تھے۔ ابھی لندن یونیورسٹی میں کچھ ہی عرصہ پڑھایا تھا کہ ان کی خدمات بی بی سی نے حاصل کر لیں جہاں سے جرمن پروپیگنڈے کے جواب میں ہندوستانی نشریات کا آغاز ہو چکا تھا۔ 1939ء سے 1943ء تک آغا اشرف چیف اناؤنسر اور ناظمِ ہندوستاننی نشریات کی حیثیت میں بی بی سی سے منسلک رہے۔
برطانوی شہروں پر ہٹلر نے اندھا دھند بمباری کی جو مہم دو ماہ تک جاری رکھی، آغا اشرف اس کے چشم دید گواہ تھے۔ 11 ستمبر 1940 کے نشریے میں آغا اشرف نے بتایا کہ شبینہ حملے اب ایک معمول کی بات بن چکے ہیں۔ جونہی سورج غروب ہوتا ہے، جرمن طیارے فضا میں نمودار ہو جاتے ہیں۔ شروع شروع میں لوگ تجسس کے مارے بمبار طیاروں کا نظارہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آتے تھے یا گھروں کی کھڑکیاں کھول کر آسمان کی طرف دیکھتے تھے اور خطرے کا سائرن بجنے کے باوجود ان حرکتوں سے باز نہیں آتے تھے لیکن اب لوگوں کی آگہی میں اضافہ ہوا ہے اور وہ نہ صرف نظارہ بازی سے گریز کرتے ہیں بلکہ خطرے کا سائرن بجتے ہی ہوائی حملے سے بچنے کی پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ آکسفرڈ سٹریٹ جیسی بارونق جگہ، جہاں کھوے سے کھوا چھلتا ہے، سائرن بجتے ہی سنسان ہو جاتی ہے البتہ جونہی خطرہ ٹلنے کا گھگھو سنائی دیتا ہے، نجانے کن کن کونوں کھدروں سے لوگ اچانک برآمد ہو جاتے ہیں اورساری رونق بحال ہو جاتی ہے۔۔۔
لندن کی مشہور زیر زمین ریلوے خطرہ ٹلنے کا سائرن بجتے ہی ہجوم سے یوں بھر جاتی ہے کہ ہندوستانی ریلوے کی تھرڈ کلاس کے ڈبے یاد آتے ہیں۔۔۔ جس مکان میں میرا ڈیرا ہے اس کا اپنا ایک چھوٹا سا تہ خانہ ہے جس میں چار پانچ افراد پناہ لے سکتے ہیں مگر ہر شام نجانے کہاں سے آٹھ دس عورتیں، بہت سے بچوں سمیت آن دھمکتی ہیں اور تہ خانے پر قابض ہو جاتی ہیں۔ میں پناہ لینے کے لیے کبھی تہ خانے میں نہیں جاتا لیکن کل رات جرمنوں نے ایسی وحشیانہ بمباری کی کہ میرے کمرے کی دیواریں لرزنے لگیں اور کھڑکیوں کے شیشے تڑخ گئے۔ مجبوراً مجھے بھی تہ خانے کی طرف بھاگنا پڑا لیکن میں ایک گھنٹے سے زیادہ اس ماحول میں نہ ٹھہر سکا اور برستے بموں کے دوران ہی واپس اپنے کمرے میں آ گیا۔ مجھے کھڑکی سے دھوئیں بھرا آسمان دکھائی دے رہا تھا جس میں بار بار سرخ لکیریں سی دوڑ جاتی تھیں، شدید قسم کے دھماکوں سے کان پھٹے جا رہے تھے۔ لیکن میں نے پروا نہ کی اور بستر میں لیٹ کر گہری نیند سو گیا۔۔۔
اس تمام تفصیل کے باوجود اس کتاب کو محض ایک ”جنگی ڈائری‘‘ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ اس میں لندن کی اس زمانے کی زندگی کے کئی معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً 2 جولائی 1942ء کو جب برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل نے برطانوی پارلیمان میں اپنی مشہور تقریر کی تو آغا اشرف بی بی سی کے نمائندے کے طور پر وہاں موجود تھے۔ وہ سابق وائسرائے ہند لارڈ ولنگڈن کے جنازے میں بھی شریک تھے۔ ہندوستان میں انہیں وائسرائے سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہو چکا تھا جس کا احوال انہوں نے اس کتاب میں درج کیا ہے۔ کتاب میں ایک مضمون برطانیہ میں اردو زبان کی صورت حال پر روشنی ڈالتا ہے۔ اور ایک مضمون میں ان ہندوستانی طلبا کا احوال درج ہے جو کیمبرج یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں زیر تعلیم تھے۔
آغا اشرف نے معروف مستشرق ڈاکٹر گراہم بیلی سے تفصیلی ملاقاتوں کا حال بھی رقم کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح ڈاکٹر بیلی سے بی بی سی کی ہندوستانی سروس کے لیے چھ تقریریں اُردو میں لکھوائی گئیں اور انہی کی آواز میں نشر کی گئیں۔ ڈاکٹر بیلی غضب کی اُردو بولتے تھے اور پنجابی بھی اسی روانی سے بول لیتے تھے کیوں کہ وہ کئی برس تک پنجاب میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے تھے۔
ایک اور مضمون میں آغا اشرف بیان کرتے ہیں کہ ہندوستانی زبانوں پر جو عبور جارج گریرسن کو حاصل تھا وہ اور کسی کو نصیب نہ ہو سکا۔ گریرسن نے 1894ء سے 1928ء تک مسلسل 34 برس تک ہندوستان کی مختلف زبانوں اور بولیوں پر تحقیق کی اور اپنے مشاہدات کو Linguistic Survey of India کے نام سے 19 جلدوں میں شائع کیا۔ انہوں نے اپنے منشیوں کے ہمراہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں جا کر بولیوں کے نمونے اکٹھے کئے۔ پھر اس وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو کام میں لاتے ہوئے ان 364 زبانوں اور بولیوں کی گراموفون ریکارڈنگ بھی تیار کی جو کہ اب برٹش لائبریری کے آواز خزانے میں محفوظ ہے۔ گریرسن کا انتقال 1941ء میں نوے برس کی عمر میں ہوا۔
کتاب کے دوسرے حصے میں آغا اشرف کے سفر ایران اور سری لنکا کی سیاحت کا احوال درج ہے۔ کتاب کے آخر میں خود آغا اشرف کی شخصیت کے بارے میں دو مضامیں شامل ہیں۔ پہلا مضمون اُردو کے معروف محقق اسلم فرخی کے زور قلم کا نتیجہ ہے اور دوسرا آغا صاحب کے بھائی محمد باقر کا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح نوعمری ہی میں آغا اشرف نے اُردو اور فارسی پر کامل عبور حاصل کر لیا تھا اور یونیورسٹی کی سطح پر تدریسی فرائض انجام دینے لگے تھے۔ قیام لندن کے دوران انہوں نے انگریزی زبان پر بھی اپنی مہارت کو مزید نکھارا اور سنوارا اور پھر خدا داد صلاحیتوں، ذاتی محنت اور لگن کی بدولت پاکستان کی فارن سروس سے وابستہ ہو کر امریکا چلے گئے۔ قیام لندن کے دوران آغا اشرف کی شادی ایک انگریز خاتون سے ہو گئی تھی جس سے ان کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ آغا اشرف نے ایک صاف ستھری اور بے آلائش زندگی بسر کی۔ مغرب کے آزاد ماحول میں بھی انہوں نے شراب اور سیگرٹ کو کبھی ہاتھ نہ لگایا اور تمام عمر گوشت خوری سے بھی پرہیز کیا۔ لیکن اس تمام احتیاط کے باوجود انہیں معدے کے سرطان نے آن گھیرا اور 1962ء میں صرف 50 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ لاہور میں مدفون ہیں۔
اپنی تحریروں اور نشریاتی کارناموں کے بارے میں ان کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ نہ کوئی تحریر سنبھال کر رکھی اور نہ اپنی ریکارڈ شدہ تقریریں محفوظ کیں۔ ان کے چند ہی مضامیں زیرِ نظر کتاب میں محفوظ ہو سکے، دیگر بہت سی تحریریں ابھی تک اس زمانے کے مختلف رسائل و جرائد میں بکھری پڑی ہیں۔ ان کی نقرئی آواز کے کئی شاہکار بھی بی بی سی اُردو سروس کے آواز خزانے میں مدفون ہیں جنہیں لندن میں مقیم رضا علی عابدی جیسا کوئی محقق ہی کھود کر نکال سکتا ہے اور راشد اشرف کے شروع کیے ہوئے اس کام کو آگے بڑھا سکتا ہے۔

(بی بی سی)