ایک کثیر الاستعمال کتاب! – عطاء الحق قاسمی

یادش بخیر۔ میرے ایک شاعر دوست تھے۔ لمبے تڑنگے، عموماً سفاری سوٹ میں ملبوس نظر آتے اورمشکل سے مشکل کام نہایت آسانی سے کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ ایک دن پاکستان ٹیلیوژن لاہور سنٹر میں مشاعرہ تھا۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا ۔پروڈیوسر دیگر شعرا کے ساتھ افطاری کا سامان لیے بیٹھا تھا جس میں روح افزا کے دوجگ بھی شامل تھے۔ یٰسین قدرت نے آتے ہی روح افزا سے اپنے ہاتھ دھوئے۔ ان کا خیال تھا کہ اس شربت سے ہاتھ دھونا بھی روح کی افزائش میں مدگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ساہیوال کے ایک مشاعرے میں احمد ندیم قاسمی شرکت کے لیے پہنچے۔ وہ ہم نیاز مندوں کے ساتھ میزبان کے گھر پر تشریف فرما تھے۔ ان کے سامنے شیشے کی ایک میز دھری تھی۔ چھ فٹ قد اور بھاری بھرکم جسم والے میرے یہ دوست آتے ہی اس میز پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد شیشے کی کرچیاں ان کے جسم کے جن حصوں سے نکالی گئیں اس کا بیان چنداں مناسب نہیں۔ موصوف جو کام جس سے چاہتے تھے وہ ہزار انکارکرے لیکن وہ کروانے میں کامیاب ہو جاتے تھے تاہم ان کی یہ بہت بڑی صفت تھی کہ وہ اپنے کام کے سلسلے میں جلد بازی کے قائل نہیں تھے بلکہ انہیں جو تاریخ دی جاتی تھی وہ پورے صبر و تحمل سے اس تاریخ کا انتظارکرتے۔ ایک دفعہ ”فنون“ کے دفتر تشریف لے گئے اور اپنی دس غزلیں بغرض اشاعت احمد ندیم قاسمی صاحب کوپیش کیں۔ قاسمی صاحب پریشان ہوگئے مگرانہوں نے وقتی ”ریلیف“ کے لیے کہا ”آپ کی غزلیں دو سال بعد چھپ جائیں گی“ اور میرے یہ دوست ٹھیک دو سال بعد ندیم صاحب کے پاس گئے اور کہا ”آپ نے دو سال بعد غزلیں شائع کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ شائع نہیں ہوئیں!“ ندیم صاحب نے کہا ”رسالہ پریس میں ہے انشاء اللہ آپ اپنی غزلیں اس میں دیکھ لیں گے“ اورجب رسالہ چھپ کر آیا تو اس میں ان کی غزلیں واقعی شامل تھیں۔ ندیم صاحب نے اس کرشمے کے لیے غالباً جادو کی کسی چھڑی سے کام لیا تھا…
”فنون“ میں غزلیں شامل کروانا تواس دوست کے لیے مسئلہ ہی کوئی نہیں تھا۔ وہ اگر ہزاروں سال پہلے پیداہوا ہوتا ا ور یہ فیصلہ کر بیٹھتا کہ اس نے مقدس آسمانی صحیفوں میں اپنا کلام شامل کرواناہے تو یقین کریں اس نے کروا لینا تھا!

ان سب باتوں کاحسین شیرازی اور ان کی کتاب ”بابونگر“ سے کوئی تعلق نہیں لیکن بابو نگر چونکہ طنز و مزاح کی کتاب ہے لہٰذ اس کے بارے میں اس قسم کی ہلکی پھلکی گفتگو سے بات آغاز کی جاسکتی تھی۔ میرا کالم کتابوں پر تبصرے کا کالم نہیں ہے چنانچہ سینکڑوں کتابیں مجھے موصول ہوتی ہیں جومیرے لیے روح کی غذا کا درجہ رکھتی ہیں لیکن میں فون پر مصنف کا شکریہ تو ادا کر دیتا ہوں اوراسے اپنے تاثرات سے بھی آگاہ کرتاہوں مگر کبھی اس پر کالم نہیں لکھ پاتا کہ یہ چیز میرے کالم کی حدود سے باہر ہے۔ چنانچہ جب حسین شیرازی صاحب نے مجھے اپنی کتاب مرحمت فرمائی تو میں دل کی گہرائیوں سے ان کا شکر گزار ہوا جب انہوں نے ایک تقریب میں اس پر اظہار خیال کے لیے کہا تو میرے پسینے چھوٹ گئے۔ لیکن ان کے بھائیوں جیسے دوست مجید اکرم صاحب اور اپنے بیٹے یاسرپیرزادہ کے اصرار کے سامنے نہ ٹھہر سکا چنانچہ میں تقریب میں چلا گیا اور زبانی اظہارِ خیال کیا۔ چند دنوں بعد برادرم جنید اکرم میرے پاس تشریف لائے اور دو سی ڈیز مجھے مرحمت فرمائیں۔ ایک سی ڈی اس تقریب میں کھینچی گئی تصاویر پرمشتمل تھی اور دوسری میں تقریب کی ویڈیو فلم تھی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا اس کے بعدانہوں نے چندکاغذات مجھے تھمائے اور فرمایا ”آپ نے تقریب میں کتاب اورصاحب ِکتاب بارے جو کہا تھا وہ ہم نے ٹرانسکرائب کرادیا ہے اب آپ اسے بطورکالم شائع کردیں“ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ اس کے بعد میرے لیے کوئی گنجائش رہ جاتی ہے؟ سو اس تقریب میں ، میں نے جو کچھ کہا وہ آپ ذیل کی سطور میں پڑھ لیں۔
خواتین و حضرات! آج کی تقریب کے دوران میں حمید احمد سیٹھی صاحب کو دیکھتا رہا ہوں۔ معززین کے بڑے بڑے مزیدار جملے سننے کو ملے مگر حرام ہے ان کے چہرے پر ذرا سی بھی مسکراہٹ آئی ہو۔البتہ اصغر ندیم سید کے مضمون پر میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی جسے وہ روکنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ وہ واقعی سچے مزاح نگار ہیں کیونکہ ایک مزاح نگار کا دوسرے مزاح نگار کی بات پر ہنسنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ باقی جہاں تک برادر مکرم کی کتاب کا تعلق ہے میں تو اس کتاب کی ضخامت دیکھ کر ڈر گیا تھا کیونکہ یہ لڑائی میں بھی کام آسکتی ہے۔ مخالف کے سر پر ماریں اس کا سر پھٹ سکتا ہے۔ رات کوتکئے کے طور پر بھی آپ استعمال کرسکتے ہیں۔ چارپائی اونچی نیچی ہو تو اس کے نیچے بھی رکھ سکتے ہیں۔ یہ خاص کار آمد چیزہے اور اگر آپ زیادہ استفادہ چاہتے ہیں توپڑھ بھی لیں۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بہرحال حسین شیرازی کی محبت ہے کہ جن دوستوں میں انہوں نے کتاب تقسیم کی شاید میں پہلے چند دوستوں میں سے تھا۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے اوسطاً دس کتابیں ملتی ہیں ایک دن میں۔ یہ مہینے کی تین سو کتابیں بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ 18اخبار میرے گھر آتے ہیں۔ کوئی پندرہ سولہ رسالے بھی آتے ہیں تو علم کے وفور نے مجھے جاہل بنا کر رکھ دیاہے۔ یہ سارا کچھ پڑھنا میرے لیے کوئی آسان کام نہیں ہوتا لیکن ہوتا یہ ہے کہ میں جب کبھی کوئی کتاب اٹھاتا ہوں تو اسے سونگھتا ہوں۔ اس کے بعد یہ کتاب کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ مجھے پڑھائے یا نہ پڑھائے۔ ایک دفعہ پتہ نہیں کس نے کس کی کتاب پر تبصرہ لکھا تھا بڑا مزیدار کہ یہ کتاب ایسی نہیں ہے جسے پڑھ کر آپ شیلف میں رکھ دیں بلکہ یہ کتاب پڑھ کر آپ کا دل چاہتا ہے کہ اسے دیوارپر دے ماریں یامیرے ایک استاد محترم تھے فوت ہوگئے ہیں وہ شعر کہتے تھے بہت برے شاعر تھے۔ ایک دفعہ ایک دوست میرے پاس آیا اور ان کی کتاب پڑھنے کے لیے مانگی میں نے کہا بس ایک شرط ہے تم مجھے واپس نہیں کرو گے۔ ہمارے شاعر وں کو یہ بہت شوق ہوتاہے کہ ان کی کتاب کا دوسراایڈیشن شائع ہو۔ خالد شریف بیٹھے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کو کتنے طعنے سننا پڑتے ہیں کہ جناب دس سال ہو گئے ہیں اور ہماری کتاب کی صرف دس کاپیاں بکی ہیں اور دس بھی انہوں نے دوستوں میں بانٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ حرکت میرے دوست مجتبیٰ حسین نے کی جو انڈیا کے سب سے بڑے مزاح نگارہیں۔ انہوں نے ایک شاعر کے مجموعے کے دیباچے میں یہ لائن چپکے سے شامل کردی کہ جو صاحب دوسرے ایڈیشن کی ایک کاپی خریدیں گے انہیں پہلے ایڈیشن کی دو کاپیاں مفت دی جائیں گی۔اچھا یہ ساری باتیں میں کیوں کررہاہوں یہ ساری باتیں میں اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ طنزومزاح کی کتاب ہے۔ طنز و مزاح کی کتاب پرمقالے نہیں پڑھے جاتے ہیں۔ طنزومزاح کی کتاب پررونگٹے کھڑے کردینے والے جملے نہیں بولے جاتے ہیں بلکہ یہ ایک دلچسپ کتاب ہے۔ دلچسپ کتاب کے حوالے سے میرے نزدیک گفتگو بھی ہلکے پھلکے انداز میں ہوتو زیادہ بہترہے۔
توسچی بات میں آپ کو کہہ رہاہوں کہ اس کو مزاح کی کتاب کہنا غلط ہے۔ یہ مزاح کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ایک سنجیدہ کتاب ہے جو شگفتہ انداز میں لکھی گئی ہے یعنی یہ کتاب پڑھتے ہوئے کئی مقام ایسے آئے کہ آپ پڑھیں توآپ ہنس پڑیں گے لیکن میں جب یہ کتاب پڑھ رہا تھا تو کئی مقام ایسے آئے کہ ہنسنے کی بجائے میرا رونے کو دل چاہا کیونکہ درد سے لکھے ہوئے وہ جملے ہیں، درد سے لکھی ہوئی وہ داستان ہے جو حسین شیرازی صاحب نے لکھی ہے۔ انہوں نے اپنے معاشرے کے زخم دکھائے ہیں اور انداز ایسا رکھا ہے کہ میرے جیسا آدمی جس کے پاس اتنی کتابیں روزانہ آتی ہیں دیکھتا گیا اور ساری کتاب پڑھ کر اٹھا۔
میرے خیال میں کسی مصنف کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ کتاب کا سب سے پہلا جو ضروری جزو ہے وہ اس کا ریڈایبل ہونا باقی اس میں فلسفہ ہے کیا ہے یہ ساری باتیں بعد کی ہیں۔ سب سے پہلے کتاب کو اپنا آپ پڑھوانا چاہئے چنانچہ دوتین مشہور ناول ہیں جن کا میں نام نہیں لیتا بہت مشہور ناول ہیں وہ میں آج تک نہیں پڑھ سکا لیکن حرام ہے کہ کسی کے سامنے میں مانوں کہ میں نے نہیں پڑھے ہیں اس لیے کہ وہ کہیں گے کہ میں جاہل آدمی ہوں۔ ”اینے ای ناول ہی نہیں پڑھے“ میں بڑی دفعہ اٹیمپٹ (Attempt) کر چکا ہوں میں بیس پچیس صفحے ہی رو پیٹ کے پڑھتا ہوں اس کے بعد آگے مجھ سے چلا ہی نہیں جاتا۔
ایک دفعہ میں نے لکھا تھا کہ بڑاشاعر یا بڑا ادیب وہ ہوتاہے جو بیک وقت عوام اورخواص میں مقبول ہے جس کی تحریر جوہے وہ ایک ہی وقت میں عوام اور خواص دونوں کو متاثر کرے۔ جو ادیب یا شاعر صرف عوام کو متاثر کرتا ہے وہ چھوٹاادیب ہے جو ادیب، شاعر خواص کو متاثر کرتاہے وہ بھی چھوٹا ادیب ہے۔ چھوٹا اگر شاعر ہوگااس کے شعر رکشوں پر ہی آئیں گے اور اگر وہ خواص کا شاعر ہو تو اسے صرف فیض احمد فیض صاحب پڑھتے ہوں گے زندگی میں۔ اوریا اور دو چارلوگ جو بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن دونوں طبقوں میں پاپولر ہوئے وہ آپ دیکھ لیں۔ شیکسپیئر، اقبال، میر، غالب، سعدی، حافظ یہ سارے لوگ دیکھ لیں یہ ایٹ اے ٹائم (At a time) دونوں طبقوں کو کیٹر (Cater) کرتے ہیں یعنی ہر اایک ان میں سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے ان میں سے لیکن جو چھوٹا ہوگا وہ آپ دیکھیں گے کہ ایک مخصوص طبقے تک اس کی اپروچ ہوگی مثلاً احمد ندیم قاسمی یا فیض صاحب ہیں ہمارے منیر نیازی ہیںآ پ ان کے شعر عام آدمی سے بھی سن لیں اور ان کے شعر خواص سے بھی سن لیں۔ منیر نیازی جب کبھی مشاعرے میںآ تے تھے تو میں حیران رہ جاتا تھا کہ ان کی تہہ در نظمیں عوام ان کو اس طرح کنسیو (Conceive) کرتے تھے جس طرح لکھنے والے کنسیو کرتے ہیں کیونکہ اصل میں پڑھنا جوہوتاہے میں نے بھی یہ نہیں سمجھا کہ لکھنے والا صرف رائٹر ہوتا ہے۔ پڑھنے والا بھی اور لکھنے والا بھی رائٹر ہوتا ہے۔ لکھنے والاوہ کریٹ (Create) کرتا ہے چیز اور پڑھنے والا اسے ری کریٹ کرتا ہے تو یہ دونوں تخلیقی عمل ہیں جب میں حسین شیرزای کو پڑھ رہا تھا تب میں نے فیل (Feel) کیا کہ حسین شیرازی نے اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی تخلیق کار بنادیا ہے میں ان کے جملے بھی انجوائے کرتا تھا اور ان کی تحریر کا دکھ بھی محسوس کرتا تھا اور ساتھ ساتھ میرے اندر بھی خیالات کی ایک لہر سی اٹھتی چلی جاتی تھی تو میں حسین شیرازی صاحب کو اتنی خوبصورت کتاب پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں اورآج میں حاضری دیکھ کر حیران رہ گیا ہوں پورے تین بجے ہال بھر گیا تھا آئندہ جس کتاب کی یہاں تقریب ہو اس کا ٹھیکہ حسین شیرازی صاحب کو دیا جانا چاہئے اس کے علاوہ ادھر ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں جو تالی سب سے پہلے بجاتے تھے تو وہ فنکشن کے بعد مجھے ملیں اگلے ہفتے میری کتاب کی تقریب ہے۔

(روزنامہ جنگ)

اپنا تبصرہ بھیجیں