ایک کتاب، ایک ہزار ایک سرورق – ظفر سید

گذشتہ روز اسلام آباد کی اکادمی ادبیات میں ایک ایسی کتاب کی تقریبِ رونمائی ہوئی جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔
اختر رضا سلیمی ویسے تو بطور شاعر معروف ہیں لیکن جب انھوں نے فکشن کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تو اس دھوم سے اترے کہ سب کو چونکا کر رکھ دیا۔
نامور مصور وصی حیدر نے ان کے ناول ’جاگے ہیں خواب میں‘ کے 1001 سرورق بنائے ہیں، اور یوں ہر کتاب کا سرورق منفرد ہے اور آپ اپنی پسند کے سرورق کے ساتھ کتاب خرید سکتے ہیں۔

یہ ناول اسلام آباد کے عقب میں واقع مارگلہ کے پہاڑی سلسلے کے دوسری طرف بہنے والے دریائے ہرو کے آس پاس رہنے والوں کی زندگیوں کا احاطہ کرتا ہے۔

ناول کا نمایاں رنگ آواگون یا تناسخ کا نظریہ ہے، جس کے تحت ناول کا مرکزی کردار ’زمان‘ مختلف ادوار میں مختلف شناختیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ادوار اشوکِ اعظم کے عہد سے لے کر انیسویں صدی میں انگریزوں کی عمل داری اور پھر سے وہاں سے ہوتے ہوئے جدید زمانے تک سفر کرتے ہیں۔

ناول کے ایک بے حد دلچسپ حصہ وہ ہے جہاں سید احمد شہید ایک کردار کے روپ میں بالاکوٹ کے مقام پر سکھوں سے لڑتے ہوئے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزارہ کے پہلے ڈپٹی کمشنر اور ایبٹ آباد شہر کے بانی جیمز ایبٹ کی اصل دستاویزات بھی ناول کا حصہ بنائی گئی ہیں۔

ناول نگار اختر رضا سلیمی بنیادی طور پر شاعر ہیں لیکن ایک واقعے سے متاثر ہو کر انھوں نے ناول لکھنے کا فیصلہ کیا
اس لحاظ سے ناول کے ایک ہزار ایک سرورق زمان کی زندگی کے بہتے ہوئے دھارے کے مختلف رنگوں کی علامت بھی بن جاتے ہیں۔

ناول نگار اختر رضا سلیمی نے بی بی سی کو ناول کی تحریک کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک بار مری کے قریب ایک پہاڑی چشمے سے پانی پینے کے لیے اترے تو یکایک انھیں احساس ہوا جیسے وہ پہلے بھی یہاں آ چکے ہیں، حالانکہ وہ کبھی ان اطراف سے نہیں گزرے تھے۔

انھوں نے کہا: ’اس کے بعد یہ واقعہ مجھے خواب میں بار بار دکھائی دینے لگا۔ میں نے شاعر ہونے کے ناطے اس پر نظم لکھنے کی کوشش کی لیکن پھر احساس ہوا کہ ایک نظم سے کام نہیں چلے گا، بس یہیں سے ناول کا بیج بویا گیا جو دو سال بعد آپ کے سامنے ہے۔‘

ٹائیٹل کے ڈیزائنر وصی حیدر

ناول کے مصور وصی حیدر نے اس موقعے پر کہا: ’میں نے جب ناول کے مسودے کے چند باب پڑھے تو مجھے لگا کہ ان میں مکان و زمان کا جو تصور پیش کیا گیا ہے وہ میری اپنی مصوری کا بھی اہم موضوع ہے۔ اس لیے میں نے ناول کا سرورق بنانے کی ٹھانی لیکن جلد ہی احساس ہو گیا کہ ایک سرورق سے کام نہیں چلے گا، اس لیے میں سرورق پر سرورق بناتا چلا گیا اور ساڑھے چھ مہینے بعد دیکھا تو ایک ہزار ایک سرورق تیار ہو گئے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے علم کے مطابق آج تک کبھی کسی کتاب کے اتنے سرورق ایک ساتھ نہیں شائع ہوئے۔ اس سلسلے میں لاہور میں واقع گنیز بک آف ریکارڈز سے بھی رابطہ کیا گیا ہے اور وہ اس ریکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں۔

تقریبِ رونمائی میں تقریر کرتے ہوئے معروف فکشن نگار اور نقاد حمید شاہد نے کہا کہ خیال کے ہزار رنگ ہوتے ہیں اور یہ ناول واقعی ایک ہزار ایک سرورقوں کا متقاضی تھا۔

تقریب کے مہمانِ خصوصی اقبال آفاقی نے کہا کہ ناول میں حقیقت اور التباس کے درمیان تاریخیت کا کھیل پیش کیا گیا جس میں انسانی لاشعور کے آثار و باقیات تجربی روایات سے ہٹ کر اپنی شناخت کراتے ہیں۔

اس تقریب کے مہمانانِ اعزاز چیئرمین اکادمی ادبیات پروفیسر ڈاکٹرمحمدقاسم بگھیو اور ملک مہربان علی، مشیر برائے سیاسی امور وزیراعظم آزادکشمیر تھے۔ان کے علاوہ محمد حمید شاہد، ڈاکٹر وحیداحمد، ڈاکٹر صلاح الدین درویش، سعیداحمد اور ضیاء المصطفیٰ تُرک نے بھی اظہارِ خیال کیا۔

جہاں ایک طرف یہ ناول فکشن پڑھنے والوں کو اپنے موضوع اور پیش کش کے انوکھے انداز سے چونکائے گا، وہیں یہ ایسے لوگوں کے بھی کام آ سکتا ہے جو کتابوں کو اپنے ڈرائنگ روم کے صوفوں اور پردوں سے ہم رنگ رکھنا پسند کرتے ہیں۔

(بی بی سی)

اپنا تبصرہ بھیجیں