سری ادب کے بے تاج بادشاہ، ابن صفی کے تمام پرستاروں کے لیے خوشخبری!
نوجوان ادیب محمد فیصل کا تالیف کردہ ابن صفی کی مختصر کہانیوں کا ایک انتخاب نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کر دیا ہے. یہ انتخاب این بی ایف کے تمام بک سٹالز پر موجود ہے. ہم سب جانتے ہیں کہ ”ابن صفی‘‘ اُردو میں سرّی ادب کے بے تاج بادشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے دو سو پنتالیس ناول، فریدی، حمید اور عمران جیسے لافانی کردار اور بہت سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین تخلیق کر کے انہوں نے اُردو ادب میں اپنا نام امر کر لیا ہے۔ ابنِ صفی ایک ”جمہوری ادیب‘‘ ہیں. جمہوری ادب وہ ادب ہے جسے معاشرے کے ہر طبقہ میں یکساں مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ وہ سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر اور علامہ اقبال کے ساتھ ساتھ ابن صفی کو بھی جمہوری ادیبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
کتاب ”ابنِ صفی (منتخب طنزیہ و مزاحیہ تحریریں)‘‘ کے مولف محمد فیصل 24 ستمبر 1980ء کو ملتان میںپیدا ہوئے. آپ نے ایف ایس سی اور بی ایس سی ملتان کی مشہور درس گاہ گورنمنٹ ایمرسن کالج سے 1997ء اور 1999ء میں پاس کی. 2001ء میں محمد فیصل نے کمپیوٹر سائنسز میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی. آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز تدریس کے شعبہ سے کیا. پانچ سال اس شعبہ سے منسلک رہنے کے بعد محمد فیصل آج کل ایک سرکاری ادارہ میں شعبہ کمپیوٹر سے وابستہ ہیں. آپ ادب خصوصا اُردو انگریزی فکشن اور شاعری سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں. آپ گزشتہ کئی برس سے کراچی سے شائع ہونے والے شاعری کیلنڈر کا انتخاب کر رہے ہیں. آپ کے مضامین پاکستان اور بیرونی ممالک کے ادبی رسائل و جرائد کا حصہ بنتے رہتے ہیں. محمد فیصل نے رام پور دبستان کے معروف کلاسیکی شاعر نظام رام پوری کی شاعری کا انتخاب شائع کیا. مختلف موضوعات پر ان کی کئی کتابیں زیرِ اشاعت ہیں. اکادمی ادبیات پاکستان کے اشاعتی سلسے ”پاکستانی ادب کے معمار‘‘ میں ابنِ صفی جیسے ہمہ جہت مصنف اور شاعر پر کتاب ”ابنِ صفی:شخصیت اور فن‘‘ کی اشاعت بھی محمد فیصل کا کارنامہ ہے.
ابن صفی کے بیٹے احمد صفی کے تاثرات:
یہ اعزاز ابن صفی کے علاوہ دورحاضر کے بھی کسی اور مصنف کے حصے میں نظر نہیں آتا کہ اس کی تحریریں معاشرے کے ہر طبقے میں یکساں طور پر پڑھی جاتی ہوں۔ خواہ وہ پڑھے لکھے اساتذہ ہوں، طلبہ ہوں، انجینئر یا ڈاکٹر حضرات ہوں، دیگر پیشہ ورحضرات ہوں، مزدور ہوں، محنت کش ہوں، رکشہ، ٹیکسی یا ٹرک ڈرائیورحضرات ہوں، سربراہان مملکت یا دیگر ارباب اختیار ہوں، سب ہی ابن صفی کو اتنی ہی محبت سے پڑھا کرتے تھے۔ ابن صفی پر مختلف قسم کی تحقیق سے ان کی کتابوں میں سے ماضی، حال اور مستقبل، کے لیے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ نہ صرف ان میں ہمارے مسائل کی تصویر کشی نظر آتی ہے بلکہ غور کیا جائے تو ان مسائل کے حل بھی مل جاتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن صفی ماضی کاحصہ نہیں بلکہ آج کی ضرورت ہیں۔ اس ضرورت کا احساس کیسے کیا جائے اور اس جمہوری ادب سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے، یہ اب موجودہ اور آنے والی نسلوں کے کرنے کا کام ہے۔