ایک پیالی چائے – عائشہ اکرام

”ڈاکٹر محسن مگھیانہ‘‘ ایک ایسا نام جو ذہن میں آتے ہی قارئین کو تروتازہ کر دیتا ہے۔ اُردو ادب سے آپ کا تعلق نصف صدی پرانا ہے۔طب آپ کا پیشہ ہے اور شعرو ادب آپ کا شوق اور شوق بھی ایسا جو انہیں دیگر ادیبوں سے ممتاز کر دے ۔کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی ادیب یا فنکار مشہور ہونے کے بعد اپنی آپ بیتی لکھتا ہے لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلے آپ بیتی لکھی، پھر شہرت پائی اور شہرت بھی ایسی جو ان کی شخصیت میں مزیدمتانت و انکساری لے آئی۔ طب، آپ کی باہرکی دنیا، جو لوگوں کو جسمانی فائدہ دے اور ادب آپ کی اندر کی دنیا جو لوگوں کو روحانی تسکین پہنچائے۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ ایک ”تخلیق کار‘‘ بھی ہیں اور ”انوکھا لاڈلا‘‘ بن کر طنز و مزاح کا روپ دھار کر ”چھیڑ خانی‘‘ اور ”اٹکھیلیاں‘‘ بھی کرتے نظر آتے ہیں ۔بعض اوقات اپنی خوبصورت باتوں سے اپنے چاہنے والوں کی”بھمبیری‘‘ گھما کر کہتے ہیں ”مسئلہ ہی کوئی نہیں‘‘ اور جب ”مستیاں‘‘ کرتے کرتے ”حُسنِ مصر‘‘ کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ”خالی ہاتھ‘‘ بھی لوٹ کر آنا پڑتا ہے لیکن پھر ”سفر نامہ حج الف (اللہ)میم(محمد ۖ)‘‘ لکھ کر اپنے چاہنے والوں کو ایسی روحانیت آمیز باتوں سے نوازتے ہیں جو قارئین کو اسی مقدس مقام پر لے جاتی ہے۔ الغرض ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ہر روپ اور ہر پہلو نرالا اور جُدا ہے۔
اسی طرح آپ نے انشائیہ نگاری ”ایک پیالی چائے‘‘ پی کر بھی کی اور ”پنڈ دی لاری‘‘ میں بیٹھ کر بھی کی۔ آپ کے مختلف انشائیے وقتاََفوقتاََ رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ جن میں سے اکثر ”ایک پیالی چائے‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہو کر اہلِ ادب سے داد وصول کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی تخلیقی شخصیت کے ہر پہلو میں ان کی تمام دیگر ادبی جہات بھی جھلکتی ہیں۔ مزاح گوئی،افسانہ نگاری،کالمانہ رنگ،عالما رنگ اور شاعرانہ رنگ بھی ان کی شخصیت کا خاص حصّہ ہیں۔
انشائیہ بھی مضمون کی طرح انگریزی ادب کی ہی نثری صنف ہے۔شگفتگی اور تازگی، انشائیے کی بنیادی صفت ہے۔ انشائیہ نگار چونکہ طنزو مزاح کو بروئے کار لاتے ہوئے قاری کو فرحت و راحت سے ہم کنار کرتاہے، سو ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی کتاب ”ایک پیالی چائے‘‘ میں بھی انہوں نے اتنے خوبصورت انشائیے تحریر کیے ہیںکہ آغاز سے ہی قاری کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ کسی نے ستار کے تاروں پر مضراب رکھ دی ہے۔ ستار بجتا ہے اور سامع اس کی لہروں میں گم ہو جاتا ہے۔پر کشش لہریں کانوں کے رستے دل ودماغ پر چھا جاتی ہیں اور سامع ارضی پستیوں سے اٹھ کر سماوی بلندیوں پر پرواز کرنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے اپنے انشائیوں میں زندگی کے متنوع رنگوں کو یکجا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے موضوعات کی رنگا رنگی میں ان کی شگفتہ مزاجی کا رنگ بہت گہرا اور خوبصورت ہے۔
”ظرف، باری، خواہش، سچ، زندگی، ایک پیالی چائے، اور قرینہ”جیسے انشائیے ڈاکٹر محسن مگھیانہ کو کامیاب اور صاحبِ طرز انشائیہ نگار ثابت کرتے ہیں۔ ان انشائیوں کے کئی ایک جملے قاری کی فکر کو مہمیز کرتے ہیں۔ مثلاََ:
”خواہش کرنا کیا بُرا ہے لیکن خواہش کا غلام بن کر رہ جانا مناسب نہیں۔‘‘ ( خواہش)
”سچ کہنے کے لیے محض جرأت ِ اظہار کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ سچ سننے اور کہنے کے لیے جرأتِ کردار درکار ہوتی ہے۔‘‘ (سچ)
”یہ انسان کا ظرف ہی تو ہے جو اس کے عظیم ہونے یا نہ ہونے کا تعیّن کرتا ہے۔کسی کی اعلیٰ ظرفی کا اندازہ تو تب ہی ممکن ہے جب وہ با اختیار ہو۔‘‘ (ظرف)
”چائے کی پتی کو جس قدر ابالا جائے ،چوکھا رنگ چڑھتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بیچاری اپنے اوپر اُبلنے کی سختیاں جھیل کر لوگوں کو ذہنی سکون فراہم کرتی ہے۔‘‘ (ایک پیالی چائے)
قرینے کا خیال بھی انتہائی سلیقے سے رکھنا پڑتا ہے، کہیں یہ نہ ہو کہ قرینے کا خیال کرتے کرتے قدرتی حسن اور نیچر کہیں دب کر رہ جائیں۔‘‘ (قرینہ)
ان چند مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے انشائیے فکری اور فنی بالیدگی کی حدوں کو چھوتے ہیں اور اپنے قارئین کو بہت آہستگی اور نرم مزاجی سے ذہنی و روحانی سطح پر آسودگی فراہم کرتے ہیں۔
انشائیہ کی بنیاد سر سید احمد خان نے رکھی یا ڈاکٹر وزیر آغا نے یا کسی اور نے، اس کے بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر کہنا ٹھیک نہیں لیکن اس کی بنیاد کو پختہ تر بنانے میں ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے انشائیوں میں کہیں کردار نگاری، کہیں مکالمہ اور کہیں امر واقعہ کی صورت میں نہایت عمدگی سے قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کی سعی نظر آتی ہے۔ آپ نے اپنے ان انشائیوں کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ کی بھی کوشش کی ہے اور ادبی نظریات کی ترجمانی بھی کی ہے۔
ان کے نزدیک:
”ادب کی مثال بھی تو پانی کی طرح ہے۔ اگر اچھا ادب آبِ رواں بن کر جاری رہے تو معاشرے میں خوشیاں اور بھلائیاں ہر طرف لہلہانے لگتی ہیں۔ جب کہ منفی ادب اس کھارے پانی کی طرح ہے جو سوسائٹی کی زمیں کو کلر آلود کر دیتا ہے۔۔۔ یہ فیصلہ اب اہلِ قلم اور اہلِ فن کو کرنا ہے کہ انہیں لہلہاتے کھیت پسند ہیں یا اُجڑے دیار۔‘‘ (پانی رے پانی)
ڈاکٹر صاحب کے انشائیے پہلے پہل توماہانہ ”تخلیق‘‘ لاہور، ”ماہِ نو‘‘ لاہور، ماہنامہ”ماورا‘‘ لاہوراور دوسرے رسالوں میں شائع ہوتے رہے۔ لیکن بقول ڈاکٹر صاحب کے:
”31دسمبر 2015ء کو ہم بطورچیف سرجن اور سرجیکل ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے طور پر سرکاری نوکری سے بیسویں گریڈ میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر زہسپتال جھنگ سے الحمدوللہ باعزت ریٹائر ہوئے ہیں تو اپنی مختلف تحریروں کو اکٹھا کیا ہے اور ان انشائیوں کی کتاب ”ایک پیالی چائے‘‘ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کر رہے ہیں”
64 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 200 روپے مقرر کی گئی ہے اور اسے ”سنگری پبلیکیشنز، فیصل آباد‘‘ نے خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ 2017ء میں شائع کیا۔


نوٹ: ”انوکھا لاڈلا‘‘، ”چھیڑ خانی‘‘، ”اٹکھیلیاں‘‘، ”بھمبیری‘‘، ”مسئلہ ہی کوئی نہیں‘‘، ”مستیاں‘‘، ”حُسنِ مصر‘‘، ”خالی ہاتھ‘‘، ”سفر نامہ حج الف (اللہ)میم(محمد ۖ)‘‘، ”ایک پیالی چائے‘‘ اور ”پنڈ دی لاری‘‘ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی کتابوں کے نام ہیں۔