اختر رضا سلیمی کا ناول ”جندر“ – ظفر عمران

بچپن میں ہم بچے جب ننھیالی گاوں جاتے، تو بلندی سے نیچے بہتی مانگلی (مانگل) کا نظارہ کرتے۔ مانگل دریا کنارے ایک جندر (چکی) بھی تھا، جس کا پاٹ پانی کی قوت سے گھومتا تھا، اور اس کی کوک پہاڑ کی بلندی تک آتی تھی۔ وہ پن چکی اب ناکارہ ہے۔ اختر رضا سلیمی نے جب مجھے اپنا دوسرا ناول ”جندر“ تھمایا، تو میں نے اسی لمحے اپنے آپ کو اس مقام پر پایا، جہاں کھڑے ہو کے ہم مانگلی اور جندر کی پراسرار کوٹھڑی کا نظارہ کیا کرتے تھے۔
کچھ برس ہوئے مطالعے سے جی اچاٹ ہوچکا ہے۔ اول تو کتاب کھولنے کا من ہی نہیں ہوتا؛ طبیعت پر جبر کرتے کتاب کھول بیٹھوں تو لفظ پکڑائی نہیں دیتے؛ اُچھلتے بھاگتے کودتے اِدھر اُدھر بھاگ نکلتے ہیں۔ ”جندر“ کو ایک ہی نشست میں، ایک رات میں پڑھ لیا۔ اس سے امید بندھی ہے کہ میں مطالعے کی طرف لوٹ آوں گا۔ ”جندر“ پڑھ کر پہلا تاثر یہ اُبھرا یہ ناول مجھ پر لکھا گیا ہے؛ جیون کے جندر کو مطالعے کی چونگ نہ دینے والا شخص۔ حیات میں سیاحت نہیں، مطالعہ نہیں، تو ایسا جیون موت کے انتظار کے سوا کیا ہے!
مطالعہ کرتے میری بری عادتوں میں، املا پر غور کرنا، اور لفظوں کی بناوٹ میں محو ہوجانا ہے۔ اساتذہ نے کئی بار سمجھایا کہ زبان نہیں خیال اہم ہے، لیکن کیا کیجیے کہ انھی اساتذہ ہی نے زبان کے چسکے سے آشنا کیا۔ ”جندر“ پڑھتے خوش گوار حیرت ہوئی کہ املا کی درستی کا بہت حد تک خیال رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دو لفظوں کو جوڑ کر لکھنے کی عمومی چلن کے برخلاف، لفظ توڑ کے لکھے گئے ہیں۔ اس لیے جہاں املا کی کوئی ایک آدھ غلطی دکھائی دی، دل نے چاہا کہ کاش یہ نہ ہوتی۔
اختر رضا سلیمی کا پہلا ناول ”جاگے ہیں خواب میں“ بہت عمدہ ہے۔ مجھے امید تھی دوسرا ناول اس سے بھی بہ ترین ہوگا، اور سلیمی نے نومید نہیں کیا۔ ”جندر“ پڑھ کر از حد خوشی ہوئی، کہ اُردو زبان میں خیال کی ایک ہی رو میں اتنا گندھا ہوا ناول لکھا گیا ہے۔ میں ناقد نہیں، کہ کسی ناول کو ادبی پیمانوں پر ناپ تول کر اس کے لکھنے والے یا تحریر کے محاسن پر کلام کروں، یہ مجھے زیبا نہیں ہے۔ میں اس ثقافت کا شاہد رہا ہوں، اس زبان سے آشنا ہوں، جہاں ناول کا مرکزی کردار بسر کرتا ہے، اور یہیں سے مصنف کا بھی ناتا ہے۔ میں اپنے مشاہدے کے برتے پر کہتا ہوں، کہ یہ لہجہ یہ آہنگ اس دھرتی کا نہیں ہے۔
اُردو زبان میں ہمارے لیے کچھ ایسی مشکلیں ہیں، جنھیں ہضم کرنا اس وقت تک آسان نہیں جب تک کہ اُردو زبان مقامی زبانوں کو مکمل طور پر نگل نہیں لیتی۔ یہ موضوع ایک طویل بحث کا متقاضی ہے؛ سو قرض رہا۔
ڈرامے کے طالب علم کے طور پہ، میں ”کہانی“ کو کسی اور طرح دیکھتا ہوں۔ کس طرح دیکھتا ہوں، اُن جزئیات کی تفصیل میں جائے بغیر ”جندر“ پڑھتے مجھے یوں لگا، کہ ناول کی زبان وہ نہیں ہونا چاہیے تھی، جو ہے۔ ماحول ہری پور ہزارے کا ہے؛ گرچہ ”جندر“ میں ہندکو زبان کے ذخیرہ الفاظ کا اُردو قالب بھی دکھائی دیتا ہے، لیکن جس طرح کا بہائو ہے، اس میں چند الفاظ جملوں میں رچے ہوئے دکھائی نہیں دیے۔ نہایت ادب و احترام سے میں یہ کہنے جارہا ہوں، کہ ناول پڑھتے ہوئے بعض جگہ احساس ہوتا ہے کہ کہانی سنانے والے کا اسلوب بدل گیا ہے، اور پھر وہ اپنے اسلوب میں لوٹ آیا ہے؛ یوں جیسے بیچ بیچ میں کسی اور کے قلم نے چھوا ہے۔
صیغہ واحد متکلم میں بیان ہوئی داستان؛ ناول کے مرکزی کردار ولی خان کی زبان تعلیم یافتہ شخص کی سی ہے، شاید اس لیے کہ چکی والا ولی خان اُردو ادب کا مطالعہ کرتا ہے، ”اداس نسلیں“، ”آگ کے دریا“ پر علمی تبصرہ کرتا ہے؛ ”اُداس نسلیں“ کو ”آگ کے دریا“ پر ترجیح دیتا ہے کہ اس کی کہانی مربوط ہے۔ ولی خان ایک جگہ فرائڈ کا حوالہ بھی دیتا ہے۔ اعتراض کیا ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ جندروئی (چکی والا) دانش ور، یا فلسفی نہیں ہوسکتا؛ ایسا ہے کہ جندروئی دفتری زبان میں بات کرے، اچمبھا ہوتا ہے۔ مجھے لگا کہ کردار نگاری میں کچھ کمیاں رہ گئی ہیں۔ میں اسے یوں‌ کہوں گا؛ اختر رضا سلیمی نے جندروئی کا سوانگ بھرا، لیکن وہ اس بہ رُوپ میں‌ اپنا آپ چھپا نہیں پائے۔
اوپر جو لکھا وہ قاری کی محدود مشاہدہ ہے؛ طالب علم کی معروضات ہیں۔ ادب میرے یا کسی کے ایسے لفظوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ وقت ثابت کرتا ہے کہ کیا آب ہے اور کیا سراب تھا۔ ”جندر“ پڑھ کر جس طرح کی سرشاری ہوئی، وہ شادمانی کہتی ہے کہ ”جندر“ کو اُردو ادب کے اچھے ناولوں میں شمار کیا جائے گا۔

(ہم سب)