ارشاد احمد پنجابی یکم اکتوبر 1942ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نعیم اللہ کپورتھلوی نے قیام پاکستان سے قبل ہی ہجرت کرکے عثمانیہ محلہ، عقب داتا دربا ر، لاہور میں رہائش اختیار کی. جب ارشاد پنجابی کے والد نعیم اللہ کپورتھلوی کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بہت کم تھی اور آپ کی پرورش آپ کی والدہ امتہ العزیز نے کی. ارشاد احمد پنجابی نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ سکول بھاٹی گیٹ سے حاصل کی اور بعد میں آپ نے جامعہ پنجاب سے فارسی اور پنجابی میں ایم اے کیا. آپ کو بچپن سے ہی پنجابی زبان سے بے حد لگائو تھا اور آپ کا بنیادی موضوع تحقیق تھا. آپ کی پہلی تصنیف ”پنجابی نامہ‘‘ تھی. ارشاد احمد نے اپنے نام کے ساتھ پنجابی لکھ کر فخر محسوس کیا اور آپ پنجابی صاحنب کے نام سے پکارے جاتے تھے. آپ نے ”پنجابی سے پنجابی‘‘ لغت بھی مرتب اور شائع کی. ارشاد احمد پنجابی نے اپنی کُل پونجی، ایک وراثتی گھر، جو بلال گنج کی کباڑی مارکیٹ میں تھا اور اس کی مالیت اس زمانے میں لاکھوں تھی، کو فروخت کرکے پنجابی زبان کی ترویج اور ترقی پر خرچ کردی اور اپنے لواحقین کے لیے اپنی تصانیف کی صورت میں علم و ادب کے خزانے ہی چھوڑے.
آپ نے تمام عمر پنجابی زبان کی ترویج کے سلسلہ کو جاری رکھا اور پنجابی زبان میں لغت مرتب کی. آپ کی پہلی لغت ”اُردو پنجابی لغات‘‘ مرکزی اُردو بورڈ سے شائع ہوئی. اس کے بعد ”پنجاب کی عورت (حیات و ثفاقت)‘‘، ”آل مال تھال‘‘، ”پنج گیٹے‘‘، ”اُردو پنجابی سانجھ‘‘ (اس کتاب میں اُردو اور پنجابی کے مشترکہ الفاظ کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور بتایا کہ یہ دونوں زبانیں کس قدر قریب تر ہیں) اس کے ساتھ پنجابی سے پنجابی میں لغت بھی شایع ہوتی رہی اور آپ نے پنجابی کی ایک جامع لغت پر بھی کام جاری رکھا.
ارشاد احمد پنجابی نے پنجابی زبان کی ایک ایسی جامع لغات تیار کرنے کا منصوبہ بنایا جسے وہ کئی سالوں سے انتھک محنت اور تحقیق کے بعد مختلف شہروں اور قصبوں کے لوگوں سے ان الفاظ کے معانی تلاش اور تصدیق کرتے رہے. یہ کام ایک ادارے کا تھا جو آپ تن تنہا کر رہے تھے. آپ کو پنجابی کے علاوہ فارسی اور انگریزی زبان کے علاوہ ہندی اور گورومکھی زبان پر بھی اتنا ہی عبورحاصل تھا. آپ نے پنجابی کھوج میں اپنا ایک الگ نام اور پہچان قایم کی. یہی وجہ ہے کہ آپ کی مرتب کردہ لغت پنجابی میں ایک مستند حوالہ رکھتی ہیں اور پنجابی زبان کا مورخ آپ کی مرتب کردہ کتب کی حیثیت اور اہمیت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے گا. گو کہ آپ کی زندگی نے وفا نہ کی مگر محدود وسائل اور خرابی صحت کے باوجود آپ نے اپنے کام کو جاری رکھا. آپ 30 (تیس) جلدوں پر مشتمل ایک جامع پنجابی لغات مرتب کرنا چاہتے تھے مگر ایسا نہ ہوسکا اور وہ اپنے خواب کو شرمندہ ء تعبیر تو نہ کرسکے مگر آنے والوں کے لیے بہت سا تخلیقی اور تحقیقی کام چھوڑ گئے. آپ پاکستان ٹیلیوژن کے لیے پنجابی پروگرام ”ویلے دی گل‘‘ کے ذریعے اپنے مشن کی تکمیل کرتے رہے. آپ نے اپنے مقاصد اور پیغام کو لوگوں تک پہنچایا.ایک مکمل پنجابی ٹیلیوژن چینل کا قیام آپ کی زندگی کا خواب تھا. آپ نے پنجاب کے بچوں کے لیے ابتدائی ذریعہ تعلیم کے طور پر پنجابی کے حق میں جدوجہد کی. علاوہ ازیں جب 1977ء میں اقبال صدی کی تقریبات کا انعقاد ہوا تو آپ ڈیلگیشن کمیٹی کے ممبر بنے. آپ کا اقبال کی خودی کے فلسفہ پر مطالعہ بہت وسیع تھا. آپ نے چوں کہ پنجابی ثقافتی لغت مرتب کرنا تھی، اس کی پہلی کڑی ”پنجابی نامہ” تھی جسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی. جب پنجابی رسم الخط کو تبدیل کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنی تو آپ اس کے بھی ممبر منتخب ہوئے اور اس زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کی مخالفت میں دلایل دیے اور اس میں کامیاب بھی رہے.
ارشاد احمد پنجابی زندگی میں لوگوں کی قدر کے قائل تھے. اس کا عملی مظاہرہ آپ نے محمد آصف خان، جو پنجابی ادبی بورڈ کے سیکرٹری تھے، کی زندگی میں ان کے اعزاز میں ایک شام منائی. آپ نے دو ڈرامے ”اکبر اعظم‘‘ اور ”قلعہ روہتاس کی ایک شام‘‘ لکھے جو ”نعرہ حق، کوئٹہ‘‘ کے خصوصی شمارے ”پنجاب نمبر‘‘ میں شائع ہوئے. ارشاد احمد پنجابی نے اپنی پوری زندگی پنجابی زبان وادب کی ترویج اور ترقی کے لیے بے انتہا کام کیا. پنجابی ادب کے لیے آپ کی خدمات کو ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جاے گا. دل کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے باوجود انتھک محنت کی اور صرف 51 (اکاون) برس کی عمرمیں 20 ستمبر1993ء کو لاہور میں انتقال کرگئے. آپ میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک ہیں. آپ کا ذاتی ذخیرہ کتب، آپ کی وفات کے بعد چلڈرن کمپلیکس لائبریری کو دلدار پرویز بھٹی صاحب کی زیر نگرانی دے دیا گیا.
“پنجابی زبان کے نامور لکھاری، ارشاد احمد پنجابی – محمد عمر رانا” ایک تبصرہ
تبصرے بند ہیں
ارشاد احمد پنجابی دھرت پنجاب دا اک سچجا پتر سی، پنجاب نوں ہمیشہ ایہو جئے پُتراں تے مان رہسی، رب اوہناں دی مغفرت فرمائے۔ اوہ اک بہشتی روح سن۔ اوہناں تے اسیں پنجابی جناں وی مان کر سکیئے گھٹ ہے۔