آج دل صبح سے اداس تھا، نا معلوم سی اداسی پورے من میں چھائی ہوئی تھی، بے وجہ پریشانی زیادہ پریشان کن ہوتی ہے کیوں کہ اگر وجہ معلوم ہو تو تدارک کیا جاسکتا ہے، حل ڈھونڈا جا سکتا ہے مگر وجہ ہی نہ ہو تو مرے ہوئے کو سو درّے۔
فیس بک گر چہ کوئی خیر کی چیز نہیں مگر بلا وجہ کی سرچنگ بھی کبھی کبھی ایسی بات لے آتی ہے کہ لگتا ہے یہ مالک نے ہمارے لیے ہی بھجوائی ہے۔ ساری پریشانی، ساری ٹینشن ہوا میں تحلیل ہو گئی، جب یہ الفاظ نظر آئے “تخلیق کسی بھی صنف کی ہو، شفاف دلوں پر اترتی ہے۔ کامیابی کسی بھی درجے کی ہو مسلسل محنت سے ملتی ہے۔‘‘ سمیرا حمید کے ناول “راہ نورد شوق” سے چند الفاظ… ان سطروں نے سارا ڈپریشن دور کر دیا۔
فی زمانہ مطالعے کا شوق کم سے کم ہوتا جا رہا ہے مگر اس کی اہمیت آج بھی مسلّم ہے۔ لفظ بھی رزق کی طرح ہوتے ہیں جو نصیب کی طرح ملتے ہیں اور مقدّر بدل ڈالتے ہیں۔ کتاب بہترین ساتھی ہے، اس میں کوئی شک نہیں مگر کتب بینی کا شوق کم ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بہترین لیڈر، بہترین ریڈر ہوتے ہیں۔ کتاب واحد چیز ہے جس میں کھو کر اپنا آپ ڈھونڈا جاتا ہے۔تھامس جیفرسن لکھتا ہے کہ میں کتابوں کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک قاری مرنے سے پہلے کئی زندگیاں جیتا ہے جب کہ جو لوگ مطالعہ نہیں کرتے وہ ایک اور تنہا زندگی گزارتے ہیں۔
چینی کہاوت ہے کہ جب تم پہلی بار کتاب پڑھتے ہو تو کسی سے پہلی بار ملاقات کرتے ہو لیکن جب اسی کتاب کو دوسری بار پڑھتے ہو تو جیسے پرانے دوست سے ملاقات کرتے ہو… سٹیو جابز کہتا تھا کہ ہمیشہ علم کے پیاسے رہو۔ دنیا درحقیقت انہی لوگوں کی بدولت ہے جو مطالعہ کے شوقین ہیں۔ کتابوں کے بغیر کمرہ ایسا ہے جیسا کہ جسم بغیر روح کے۔ کتابیں اور پھول اس کائنات کا حسن ہیں۔ کتابوں سے دوستی وہی لوگ کرتے ہیں جن کے اندر سیکھنے کی لو ہوتی ہے۔ اپنے اندر سیکھنے کی عادت ڈالیے۔
پوری دنیا کتا ب ہے، ایک ایک واقعہ، ایک ایک شخص سکھاتا ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’زمین پر پڑے کاغذ سے بھی نصیحتیں ملنا شروع ہوجاتی ہیں۔‘‘ راہ چلتے کہیں نہ کہیں کوئی صفحہ دیکھیں، کوئی بورڈ، بینر یا اشتہار دیکھیں تو اس سے بھی سیکھنے کو ملے گا۔ سیکھنے کی عادت آپ کو کتاب سے جوڑتی ہے آپ کے مستقبل پر اثر ڈالتی ہے۔
ہمارے سلف صالحین پر نظر ڈالیے، علم اور کتاب کے دلدادہ تھے۔ ایسی ایسی مثالیں ملتی ہیں جو کسی اور قوم اور نسل میں ناپید ہیں۔ ابن جوزی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اتنی کتب تالیف کیں کہ فہرست بنانا ناممکن ہے۔ ان کی وصیت کے مطابق حدیث کی کتابیں لکھتے وقت قلم تراشتے ہوئے جو برادہ جمع ہوتا تھا اس پر پانی گرم کر کے غسل دیا گیا۔ امام شیبہ بصری جیسے عالم بھی تھے کہ جنہوں نے ساڑھے بارہ من سیاہی سے تفاسیر اور کتابیں لکھیں۔ کوفےکے مشہور مصنف جاحظ کتب فروشوں کی دکانیں کرائے پر لے کر ساری رات کتابیں پڑھتے رہتے۔ ممتاز فلسفی ابن رشد اپنی زندگی میں صرف دو راتوں کو مطالعہ نہیں کر سکے، ان دونوں میں ان کے قریبی عزیز وفات پا گئے تھے۔ خلیفہ عباسی المتوکل کے وزیر فتح بن خاقان اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے۔ جب انہیں سرکاری کاموں سے ذرا فرصت ملتی، کتاب نکال کر پڑھنے لگتے۔ امام فخرالدین رازی کو اس بات کا افسوس ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت مطالعے کے بغیر گزر جاتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں ”اللہ کی قسم، مجھے کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے کیونکہ وقت ہی عزیز چیز ہے‘‘ امام محمد ؒ ساری رات مطالعے میں منہمک رہتے۔ ساتھ ساتھ پڑھے گئے مواد پر کتاب بند کر کے غور و خوض کرتے۔ بسا اوقات صبح تک جاگتے رہتے اور عشاء کے وضو ہی سے نماز فجر پڑھتے۔ امام شافعیؒ کے جلیل القدر شاگرد، امام مزنیؒ فرماتے ہیں: ”میں نے اپنے استاد کی ایک کتاب کا پچاس برس مطالعہ کیا اور ہر مرتبہ مطالعے میں مجھے نئے فوائد حاصل ہوئے۔‘‘
عصرحاضر کے عظیم عالم ڈاکٹر حمیداللہؒ جنہوں نے ساری عمر فرانس میں بسر کی، ایک کمرے کے فلیٹ میں رہتے تھے جو چاروں طرف کتابوں کا بھرا ہوا ہوتا صرف اتنی جگہ خالی ہوتی جہاں سو جاتے۔
کتب بینی کا شوق کیسے پیدا ہو؟ مطالعہ کتب ایک ایسی عادت ہے جو ڈیولپ کی جا سکتی ہے۔ بالکل ایسے جب آپ کوئی ڈش پہلی بار کھاتے ہیں تو وہ اچھی نہیں لگتی لیکن دو تین بار کھانے سے ٹیسٹ ڈیولپ ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح مطالعہ کی عادت بھی ہے۔ اپنے سرہانے کتاب رکھیے۔ گاڑی میں بھی کتابیں ضرور ہونی چاہئیں تاکہ جیسے ہی فرصت میسر آئیں آپ مطالعہ شروع کر سکیں۔
مطالعہ کیسے کیا جائے؟ رضوان رضی مشہور دانشور اور مفکر ہیں کہتے ہیں کہ: ”کتاب کو تین بار پڑھا جائے، پہلی دفعہ سرسری طور پر، دوسری مرتبہ زبان کے چٹخارے کے لیے اور تیسری بار سمجھ کر کہ کتاب آپ سے کہنا کہا چاہ رہی ہے؟‘‘ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کتاب کو ختم کرنے کے بعد نوٹس بنائیں کہ آپ نے اس سے حاصل کیا کیا؟ درج بالا حقائق سے جو بات عیاں ہوتی ہے وہ یہ کہ مطالعہ ایک طرزفکر کا نام ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کتابوں کے شوقین ہوں تو ان کی یہ عادت بچپن سے بنائیے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر آپ موبائل کی بجائے کتاب پکڑے نظر آئیں۔ خود کو مثال بنائیں گے تو بچوں پر بھی اثر ہوگا۔
(دلیل)