اس دنیا میں بہت سے نامور، قابل اور مقبول انسان گزرے ہیں. دینی میدان میں بھی اور دنیوی لحاظ سے بھی، جنہوں نے اپنی عظمتوں کا لوہا منوایا اور اپنی قدر ومنزلت کا اعتراف زمانہ بھر سے کروایا۔ ان کی کامیابی، سربلندی اور عروج و ارتقاء میں جہاں ان کی دیگرقربانیاں اور کوششیں شامل رہیں وہیں ان کا ذوقِ مطالعہ اور شوقِ کتب بینی بھی اہم رہا ہے۔ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو جہالت اور لا علمی کو لے کر آتا ہے، لیکن جب یہاں سے کوچ کر جاتا ہے تو اپنے ذوق کے مطابق علم و معلومات کا ایک خزانہ چھوڑجاتاہے. انسان کی فطرت میں علم و تحقیق کا مادہ رکھا گیا ہے. کو ئی باضابطہ علم و تحقیق کے دریا بہاکر رخصت ہوتا، کوئی تجربات کی شمعیں روشن کر کے آنے والی نسلوں کی رہبری کر جاتا ہے. لیکن جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں، اور نئے سے نئے جہاں کی فکر میں پرواز کرتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے روشن صفحات پر اپنا نام اور کارنامہ نقش کرجا تا ہے۔ انسان اپنے علم میں کمال، اوراپنی شخصیت میں نکھار اسی وقت لا سکتا ہے جب وہ خود کو کتابوں اور تحقیق و جستجو کا محتاج سمجھے، اور اپنے علم و معلوما ت میں اضافہ کی کوشش میں ہمیشہ میں لگا رہے. ہمارے اسلاف واکابر جن کی کتابوں سے ہم اپنے علم میں اضافہ، معلومات میں وسعت پیدا کرتے ہیں، اور جن کے قیمتی علمی شہ پاروں سے آئے دن استفادہ کرتے ہیں اور فکر و نظر میں پختگی، شعور و احساس میں بلندی حاصل کرتے ہیں یہ دراصل احسان ہے ان لوگوں کا جن کی زندگی کی صبح و شام کتابوں کی ورق گردانی میں گذری، اورعمرعزیز کے قیمتی لمحات مطالعہ و کتب بینی کے لیے وقف ہوئے، اور پھر اسی محنت و جہدِ مسلسل سے ان لوگوں نے علم کے دریا بہائے، تحقیق کے مو تی لٹائے. کتا ب ہی ان کی زندگی کی رفیق اور اسی سے ان کی تنہائیاں آباد تھیں، اور وہی ان کے سفر و حضر کی ساتھی تھی۔ بلاشبہ مطالعہ انسان کو نئی نئی راہوں سے آشنا کرتا ہے. بقول ایک دانا کے: ’’قوتِ مطالعہ نہ ہوتو آدمی کی شخصیت ایک محدود شخصیت ہوتی ہے، قوتِ مطالعہ حاصل ہوتے ہی اس کی شخصیت ایک آفاقی شخصیت بن جاتی ہے۔ پوری دنیا کا کتابی ذخیرہ اس کے لیے ایک وسیع علمی دسترخوان کی صورت اختیا ر کر جاتا ہے‘‘۔ آئیے اس سلسلہ میں چند واقعات اکابر کے واقعات ملاحظہ کرتے ہیں تاکہ ہم بھی ہم اپنے خوابیدہ جذبات کو بیدارکرسکیں اور خفتہ صلاحیتوں کو نئی تحریک دلاسکیں اور شوق وذوق کو پروان چڑھاسکیں۔
حضرت امام محمد ؒ کے بارے میں ہے کہ وہ راتوں کو بہت کم سویا کرتے تھے، کتابیں پاس رکھ کر رات بھر مراجعت اور مطالعہ فرماتے رہتے۔ ( قیمۃ الزمن عند العلماء:۳۰) علامہ ابن جوزی ؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ: میں اپنا حال عرض کرتا ہوں کہ میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی بھی طرح بھی سیر نہیں ہوتی، جب بھی کوئی نئی کتاب نظر آجاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔۔۔ اگر میں کہوں کہ میں نے زمانہ طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو بہت سے زیادہ معلوم ہوگا۔ میں نے مدرسہ نظامیہ کی پوری کتابوں کا مطالعہ کیا، جس میں چھ ہزار کتابیں ہیں۔ ( قیمۃ الزمن عند العلماء:۶۱) فتح بن خاقان خلیفہ عباسی المتوکل کے وزیر تھے. وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے اور جب سرکاری کاموں سے ذرا فرصت انہیں ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے لگ جاتے۔ علامہ ابن رشد ؒ کے بارے میں ہے کہ وہ اپنی شعوری زندگی میں صرف دوراتوں کو مطالعہ نہیں کرسکے۔ جاحظ کے بارے میں ہے کہ وہ کتا ب فروشوں کی دکانیں کرایہ پر لے لیتے اور ساری رات کتابیں پڑھتے رہتے۔ ( شاہراہِ زندگی پر کامیابی کاسفر: ۱۹) مولاناابوالکلام آزاد بچپن ہی سے کتب بینی کے شوقین تھے، مطالعہ ان کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ تھا. ابتدائی عمر سے کتابوں کے رسیا اور مطالعہ کے عادی بن گئے تھے. وہ خود اپنا لڑکپن کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں: لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے ہیں، مگر تیرہ برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتا ب لے کر کسی گوشہ میں جا بیٹھتا اور کوشش کرتا کہ لوگو ں کی نظروں سے اوجھل رہوں. کلکتہ میں ڈلہوزی اسکوائر ضرور دیکھا ہوگا، جنرل پوسٹ آفس کے سامنے واقع ہے؛ اسے عام طو رپر لال ڈگی کہاکرتے تھے ،اس میں درختوں کا ایک جھنڈ تھا کہ باہر سے دیکھیے تو درخت ہی درخت ہیں؛ اندر جائیے تو اچھی خاصی جگہ ہے اور ایک بنچ بھی بچھی ہوئی ہے، معلوم نہیں اب وہ جھنڈ ہے کہ نہیں۔ میں جب سیر کے لیے نکلتا تو کتاب ساتھ لے جاتا اور اس جھنڈ کے اندر بیٹھ کر مطالعہ میں غرق ہوجاتا. والدمرحوم کے خادم خاص حافظ ولی اللہ مرحوم ساتھ ہواکرتے تھے۔ وہ باہر ٹہلتے رہتے اور جھنجھلا جھنجھلا کر کہتے اگر تجھے کتا ب ہی پڑھنی تھی تو گھر سے نکلا کیوں؟۔۔۔ اکثر سہ پہر کے وقت کتا ب لے کرنکل جاتااور شام تک اس کے اند ر رہتا۔ ( غبارِ خاطر:۱۰۵) ایک جگہ فرماتے ہیں: میں آپ کو بتلاؤں میرے تخیل میں عیشِ زندگی کا سب سے بہترین تصور کیا ہوسکتا ہے؟ جاڑے کا موسم ہو اور جاڑا بھی قریب قریب درجہ انجماد کا، رات کا وقت ہو، آتش دان سے اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں۔ (متاعِ وقت اور کاروانِ علم :۲۶۳)
مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ اپنے گھرانے اور خود اپنے ذوق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ہمارا گھرانہ علماء ومصنفین کا گھرانہ ہے، والد صاحب اپنے زمانہ کے عظیم مصنفوں میں تھے. خاندانی وموروثی اثرات بڑے طاقتور ہوتے ہیں، وہ نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں اور بچوں اور بچیوں سب میں ان کے اثرات کم و بیش پائے جاتے ہیں. کچھ یہ آبائی اثر، کچھ والد صاحب کے ذوق و انہماک ہمارے سارے گھر پر کتابی ذوق سایہ فگن تھا. کتب بینی کا یہ ذوق، ذوق سے بڑھ کر لت، اور بیماری کی حد تک پہونچ گیا تھا کہ کوئی چھپی ہوئی چیز سامنے آجائے تو اس کو پڑھے بغیرچھوڑ نہیں سکتے تھے. ہم بھائی اور بہنوں کو تھوڑے پیسے دست خرچ کے لیے ملتے یا خاندان کے کوئی بزرگ جاتے ہوئے (اس زمانے کے خاندانی رواج کے مطابق) بچوں کو روپیہ دے جاتے، اس کا ایک ہی محبوب مصرف تھا کہ اس سے کوئی کتاب خریدی جائے۔ اس سلسلہ میں خود میری ایک دلچسپ کہانی سنتے چلیے کہ میرے پاس اس طرح کچھ پیسے آگئے. وہ ایک دو آنے سے زیادہ نہ تھے. میں اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کتاب، کتب فروشوں ہی کے یہاں ملتی ہے اور ہر چیز کی دکان الگ ہوتی ہے. میں امین آباد گیا، گھنٹہ گھر والے پارک کے سامنے بڑی دکانوں کی جو قطار ہے، اس میں کسی دوا فروش کی دکان پر پہونچا. غالبا” سالومن کمپنی تھی میں نے پیسے بڑھائے کہ کتا ب دیجیے. دکان پر کام کرنے والے نے سمجھا کہ کسی شریف گھرانے کا بھولا بھالا بچہ ہے، کیمسٹ کی دکان پر کتاب کیا ملتی، دواؤں کی فہرست اُردو میں تھی، انھوں نے وہی بڑھا دی اور پیسے بھی واپس کردیے. میں پھولے نہ سماتا تھا کہ کتاب بھی مل گئی اور پیسے بھی واپس ہوگئے. خوش خوش گھر پہونچا، اور اس سے اپنے چھوٹے سے اس کتب خانہ کو سجایا جو والد صاحب کے یہاں کی ان کتابوں سے بنایا تھا، جو ان کے لیے بے کار تھیں اور وہ ردی میں ڈال دیتے تھے. یہی شوق میری دونوں بہنوں کا تھا کہ کتاب کے بغیر ان کو چین ہی نہیں آتاتھا۔ ( کاروانِ زندگی:۱/۵۸) شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی ؒ کا تذکرہ ملاحظہ کیجیے، وہ فرماتے ہیں کہ: اس ناکارہ کا معمول ۱۳۳۵ھ سے ایک وقت کھانے کا ہوگیا تھا۔۔۔ کہ رات کو کھانے میں مطالعہ کا حرج ہوتا، نیند بھی جلد آتی تھی، پانی بھی زیادہ پیا جاتا تھا۔ ابتداءً میری ایک چھوٹی بہن کھانا لے کر اوپر میری کوٹھری میں پہنچ جاتی تھی اور لقمہ بناکر میرے منہ میں دیتی تھی اور دیکھتی رہتی تھی کہ جب منہ بند ہوجاتا تو دوسرا لقمہ دے دیا کرتی تھی. اس ناکارہ کو التفات بھی نہیں ہوتا تھا کہ کیا کھلایا. ایک دوسال بعد اس کو بھی بند کردیا. اس زمانے میں بھوک تو خوب لگتی مگر حرج کا اثر بھوک پر غالب تھا۔ (متاعِ وقت کاروانِ علم :۲۸۴) مفتی محمد شفیع ؒ کے بارے میں مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں کہ: جب والد صاحب کا رشتۂ تلمذ شاہ صاحب کشمیری ؒ کے ساتھ قائم ہوا، تو جو علمی مذاق گھٹی میں پڑا تھا اسے اور جلا ملی اور وسعتِ مطالعہ، تحقیق وتدقیق اور کتب بینی کا صرف ذوق ہی نہیں بلکہ اس کی نہ مٹنے والی پاس پیدا ہوگئی۔ حضرت والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ دوپہر کو جب مدرسے میں کھانے اور آرام کا وقفہ ہوتا تومیں اکثر دارالعلوم کے کتب خانے میں چلا جاتا تھا، وہ وقت ناظم کتب خانہ کے بھی آرام کا ہوتا تھا، اس لیے ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ میر ی وجہ سے چھٹی کے بعد بھی کتب خانے میں بیٹھے رہیں، چناں چہ میں نے انہیں باصرار اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ دوپہر کے وقفے میں جب وہ گھر جانے لگیں تو مجھے کتب خانے کے اندر چھوڑکر باہر سے تالا لگاجائیں، چنا ں چہ ایسا ہی کرتے اور میں ساری دوپہر علم کے اس رنگارنگ باغ کی سیر کرتارہتا تھا۔ (میرے والد میرے شیخ :۱۲)
ایسے ان گنت واقعات ماضی قریب وبعید کے بہت سے علماء اور محققین ومصنفین کے کتابوں میں درج ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کرکے حصولِ علم کو اپنا مشغلہ بنایا. کتب بینی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور ہر وقت مطالعہ میں مہنمک رہتے تھے. ان کی انہی قربانیوں کے نتیجہ میں آج اسلامی علوم اور دیگر معلومات پر بیش قیمت کتابوں کا ذخیرہ تشنگانِ علوم کی پیاس بجھارہا ہے۔ آخر میں علامہ شبلی نعمانی ؒ کا بیان کردہ ایک نہایت چشم کشا اور عبرت انگیز وقعہ پڑھتے چلیں، فرماتے ہیں: عدن سے چوں کہ دلچسپی کے نئے سامان پیدا ہوگئے تھے، اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کررہے تھے، لیکن دوسرے ہی دن ایک پُر خطر واقعہ پیش آیا جس نے تھوڑی دیر میں مجھ کو سخت پریشان رکھا. ۱۰ مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کررہے تھے. انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا اور جہاز نہایت آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا. میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے. اس اضطراب میں اور کیا کرسکتا تھا، دوڑتا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے. میں نے ان سے کہا کہ آپ کو کچھ خبر بھی ہے؟ بولے کہ ہاں! انجن ٹوٹ گیا ہے. میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ کتاب پڑھنے دیکھنے کا کیا موقع ہے؟ فرمایا کہ جہاز کو اگر برباد ہی ہونا ہے تو یہ تھوڑاسا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابلِ قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا۔ (سفر نامہ روم ومصر وشام:۱۹)
ہمارے لیے یہ واقعات عبرت اور نصیحت کا پیغام دیتے ہیں کہ ہم اپنے قیمتی اوقات کو کن لایعنی اور غیر ضروری کاموں میں ضائع کرتے ہیں؟ اُمت کاایک بڑا طبقہ بے دریغ اپنے وقت کو برباد کرنے میں لگا ہوا ہے. ضیاعِ وقت نوجوانوں کا مشغلہ بن گیا ہے. موبائل اور کمپیوٹر کے ذریعہ بچے اور بڑے ہروقت کھیلوں میں مصروف رہتے ہوئے اپنی عمرِ عزیز کے عظیم لمحات کو ضائع کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ذرا برابر احساس تک نہیں کہ ہم کتنا قیمتی سرمایہ اپنے ہاتھوں سے تباہ کررہے ہیں. دنیا میں اگر کامیابی اور سربلندی مقصود ہے اورعزت ومقبولیت درکار ہے تو پھر ہمیں بھی ان ہی باکمال انسانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے علم کو پھیلانے، مطالعہ کو وسیع کرنے اور کتب بینی کی عادت ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے. یہی ہمارے لیے کامیابی کی کلید اور عزت وسربلندی کی شاہراہ ہے۔ ورنہ اگر قیمتی اوقات کو صرف کھیل کود اور دل بہلائی میں بے کار کیا جائے تو صرف ندامت اور ناکامی کے سواکچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ہم سبق لیں اور واقعات سے عبرت حاصل کریں اور اپنی زندگی کو چمکانے اور خوب سے خوب تربنانے کی کوشش کو فکر کریں، اچھے نتائج اور بہترین اثرات اللہ تعالی ضرور دے گا۔
(اُردو سٹار نیوز)