ہر چیز کا ایک وقت ہوتاہے۔ پہلے کتاب پتّوں پر لکھی جاتی تھی‘ پھر کاغذ وجود میں آیا اور اب انٹرنیٹ کا دور ہے۔ کتاب اور کاغذ سے ہمیں اس لیے بھی محبت ہے کہ یہ ہمارے دور کی چیزیں ہیں۔ آنکھ کھولتے ہی ہم نے کاغذ کی خوشبو محسوس کی‘ کتاب کے لمس کا مزا لیا۔ لیکن کیا نئے دور کو آنے سے روکا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہمارا مسئلہ کتاب نہیں قاری ہونا چاہیے۔ ایک بچہ اگر کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب کی بجائے موبائل پر کچھ پڑھنے کا شوق رکھتاہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ خود ہم نے تو دس برس کے دوران بیس بیس موبائل تبدیل کرلیے لیکن ہماری خواہش ہے کہ ہمارے بچے پرانی چیزوں پر ہی اکتفا کریں۔ میرے ایک دوست کا دعویٰ تھا کہ رات کواُس کے سرہانے کوئی نہ کوئی کتاب ضرور موجود رہتی ہے اور جب تک وہ کتاب کا کچھ حصہ پڑھ نہ لے اسے نیند نہیں آتی۔ میں نے چیک کیا تو اُس کا کہا سچ پایا‘ موصوف بستر میں گھس کر تین گھنٹے موبائل استعمال کرتے تھے اور جب تھک جاتے تو کتاب اٹھاتے اور پہلا صفحہ پڑھتے ہی گہری نیند کی آغوش میں اتر جاتے۔ گویا کتاب انہوں نے نیند کی گولی کے طور پر رکھی ہوئی تھی۔
پریشانی کی با ت کتاب کی صدی کا ختم ہونا نہیں، یہ تو صرف نئی ٹیکنالوجی پر منتقل ہورہی ہے۔ مسئلہ تو یہ درپیش ہے کہ کتاب پڑھنے والوں کی تعداد کیسے بڑھائی جائے۔ Visuals کی وجہ سے ساری دنیا میں پڑھنے سے زیادہ دیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اکثرافسانہ جب ڈرامائی شکل میں سامنے ہو تو پڑھنے سے زیادہ لطف دیتاہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ لکھی ہوئی چیز کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے، اپنا ایک ماحول ہوتا ہے۔ اُردو جب سے رومن میں ڈھلی ہے‘ انتہائی خطرناک صورتحال ہوگئی ہے۔ موبائل سے لے کر انٹرنیٹ تک یہ انگریزی شکل والی اُردو چھاتی جارہی ہے اور حال یہ ہوگیا ہے کہ نئی نسل کی اکثریت کو نہ ٹھیک اُردو آتی ہے نہ انگلش۔ کسی نے بڑا اچھا کہا کہ ہم بیک وقت چار زبانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ گھر میں اُردو بولتے ہیں‘ آپس میں پنجابی وغیرہ‘ سکول میں انگلش اور مرنے کے بعد حساب عربی میں ہوگا۔
اُردو کے ساتھ جو سلوک ہمارے ہاں روا رکھا جارہا ہے اُس کی اِس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بچے بھی بغیر اغلاط کے اُردو میں دس لائنیں نہیں لکھ پاتے۔مطالعے کا یہ عالم ہے کہ میں نے پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ ایک دفعہ یونیورسٹی کے ایک لیکچر کے دوران میں نے طلباء سے پوچھا کہ منیر نیازی کون تھے؟ ایک لڑکی نے ہاتھ کھڑا کیا اور فوراً بولی: ’’بہت اچھے گلوکار تھے‘‘۔ یہ سنتے ہی پوری کلاس تالیوں سے گونج اُٹھی۔ میں نے سرکھجایا اور پوچھا کہ ان کا کوئی گانا یاد ہے؟ محترمہ نے ذہن پر زور دیا اور پھر چہک کر بولیں:’’جی سر! ان کا یہ گانا تو بڑا مشہور ہے:’’ساڈا چڑیاں دا ڈیرہ وے بابلا‘‘۔ اس ہولناک جواب پر پھر تالیاں بج گئیں۔
آج بھی آپ مختلف یونیورسٹیز میں جاکر یہ سوال پوچھ لیں کہ منٹو کون تھا؟ تو اکثریت کا یہی جواب ہوگا: ’’وہ بہت عظیم شاعر تھے‘‘۔ جب مغالطہ‘ مطالعہ بن جائے تو یہی ہوتاہے۔ دُکھ تو یہ ہے کہ جن گھروں میں پڑھا لکھا ماحول ہے وہاں بھی نئی نسل اُردو پڑھے بغیر جوان ہورہی ہے۔ ماں باپ کی ترجیح بھی سیاست پر گفتگو رہ گئی ہے۔ وہ دور گزر گیا جب انگلش کی ٹیویشن رکھی جاتی تھی‘ آج کل ماں باپ اُردو کا ٹیوٹر ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ بچوں کے سب سے کم مارکس بھی اُردو میں ہی آرہے ہیں۔ ظاہری بات ہے جب ہر سکول پر انگلش میڈیم کا لیبل چپکا کر اُونچ نیچ کا ماحول پیدا کریں گے تو کون اُردو پڑھے گا۔ میں ترس گیا ہوں کوئی ایسا سکول دیکھنے کو جس پر جلی حروف میں لکھا ہو: ’’اُردو میڈیم‘‘۔
آپ لاکھ کہہ لیں کہ کتاب کو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ کتاب ہماری زندگیوں سے کتنی تیزی سے نکلتی جارہی ہے۔ کتاب کی فروخت کتاب میلوں تک کیوں محدود ہوکر رہ گئی ہے؟ خالصتاً بک سٹالز آہستہ آہستہ سٹیشنری سٹورز میں کیوں بدلتے جارہے ہیں۔ لاہورجیسے مرکز میں ایسے کئی بک سٹالز ہیں جو یا تو بند ہوگئے یا اُن پر اب جنرل سٹورز کی آئٹمز بھی دستیاب ہیں۔ گنے چُنے رائٹرز کی کتابیں رائلٹی پر شائع ہوتی ہیں ورنہ لکھاری اپنی کتاب اپنے پیسوں سے خود چھپواتاہے‘ سینکڑوں لوگوں کو بھیجتا ہے۔ تصویریں چھپتی ہیں‘ تبصرے چھپتے ہیں اورپھر دوسرا ایڈیشن آجاتاہے۔ ہمارے تو قومی سطح کے اخبارات کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کتابوں پر تبصرے کے لیے کم ازکم ایک جلد ہی منگوا لیا کریں۔ آپ کو ہر جگہ یہی لکھا نظر آئے گا: ’’تبصرے کے لیے دو کتب بھیجیں‘‘۔ ہماری لائبریریاں ایسی کتب سے بھری پڑی ہیں جنہیں مارکیٹ سے خرید کر شائد ہی کوئی پڑھنا پسند کرے۔ ایک وہ دور تھا جب نثر نگار‘ افسانہ نگار بننا چاہتے تھے‘ ناول نگار بننا چاہتے تھے۔ اب پہلی ترجیح کالم نگار بننا ہے اور ڈائریکٹ سیاسی تجزیہ نگار بننا ہے۔
ڈیجیٹل عہد میں نایاب ترین کتابیں آن لائن منتقل ہورہی ہیں۔ ایک کلک پر پوری لائبریری دستیاب ہے۔ رائٹر کو کتاب فروخت ہونے کی اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی کتاب پڑھے جانے کی ہوتی ہے۔شکر ہے کہ آج بھی اطمینان بخش تعداد میں ایسے رائٹرز موجود ہیں جو ادب تخلیق کر رہے ہیں‘ تحقیقی کتابیں لکھ رہے ہیں‘ شاعری کر رہے ہیں۔ آنے والے وقت میں اخبار کی طرح کتاب بھی فری دستیاب ہوا کرے گی اور اچھی کتاب کا فیصلہ اس کے لائکس‘ کمنٹس اور شیئرز کیا کریں گے۔ یہ کوئی بری بات نہیں۔ کتاب کے لیے اس سے اچھا فیڈ بیک کوئی نہیں۔ آغر ندیم سحر اورپروفیسر ڈاکٹرعرفان شہزاد تارڑ صاحب کا بے حد شکریہ جنہوں نے منڈی بہاؤالدین میں کتاب کے متوالوں کے لیے اتنی شاندار کانفرنس سجائی جس کا سلوگن تھا: ’’یہ کیسا عشق ہے اُردو زبان کا‘‘۔ اس کانفرنس کے ذریعے انہوں نے اُردو سے محبت کا جو پیغام دیا ہے وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ ادبی مراکز سے دور مضافات میں علم و ادب کے فروغ کے لیے اتنا بڑا کام کرنے کے لیے ہمت اور محنت کے ساتھ ساتھ بندے کا تھوڑا بہت پاگل ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ تڑکا انسان سے ناممکن کام بھی کروا دیتاہے۔ ایک واقعہ جو مجھے اس سفر کے دوران نہیں بھولے گا وہ یہ کہ میں جب فرخ شہباز وڑائچ کی ہمراہی میں لاہور سے موٹر وے کے ذریعے منڈی بہاؤ الدین آرہا تھا تو راستے میں ایک ریسٹ ایریا میں کافی پینے کے لیے رکا۔ یہاں پارک میں بیٹھے ایک جاننے والے مل گئے۔ پہلے سیلفی بنوائی پھر بڑے تپاک سے ملے اور پوچھنے لگے کہ کہاں جارہے ہیں؟ میں نے بتایا کہ منڈی بہاؤالدین کی اُردو کانفرنس میں۔ یہ سن کر وہ بڑے حیران ہوئے پھر خوش ہوکر بولے’’ارے واہ۔۔۔ کتنا ٹکٹ ہے؟‘‘۔ فرخ شہباز کوئی اور جواب دینے لگا تھا کہ میں نے اسے جلدی سے روکا اوراُن صاحب کو بتانا پڑا کہ اللہ کا شکر ہے ابھی تک پاکستان میں شاعروں ادیبوں کو دیکھنے پر ٹکٹ نہیں لگا۔۔۔!!!
(یہ مضمون منڈی بہاؤالدین کی اُردو کانفرنس کے افتتاحی سیشن بعنوان ’’ڈیجیٹل عہد میں کتاب‘ مسائل اور امکانات‘‘ میں پڑھا گیا)
نوٹ: گل نوخیزاختر صاحب کے دیگر کالم پڑھنے کے لیے ان کی ویب سائٹ وزٹ کیجیے.