تصور کیجئے۔ ایک شخص کے ذاتی کتب خانے میں پچیس ہزار نادر کتابیں موجود ہیں لیکن ایک کتاب کے آخری دو یا تین صفحات نہیں ہیں۔ یہ دو یاتین صفحات پانے کے لیے وہ دنیا بھر کے کتب خانوں کو کھنگال رہا ہے مگر ابھی تک ناکامی ہوئی ہے۔ کسی جستجو سے والہانہ لگاؤ ہو تو ایسا ہو۔ ان صاحب کا نام محمد موسیٰ ہے اور کسی بڑے شہر کے عظیم الشان بنگلے میں نہیں بلکہ صوابی کے قصبہ ٹوپی کے قریب دریائے سندھ کے کنارے ایک چھوٹے سے گاؤں زروبی میں رہتے ہیں۔ تیس سال سے اُردو کی قدیم اور جدید کتابیں جمع کررہے ہیں جن کی تعداد پورے یقین سے نہیں، اندازاً بتاتے ہیں: بیس، پچیس ہزار۔ ہماری سائنس اس ای میل کو سلامت رکھے۔ پچھلے دنوں مجھے محمد موسیٰ صاحب کی ای میل ملی جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ الطاف حسین حالی کی کتاب ”تریاق مسموم‘‘ میرے پاس ہے لیکن اس کے آخر ی دو یا تین صفحات غائب ہیں۔ اگر آپ لندن کے کتب خانوں میں موجود اس کتاب کے آخری صفحے حاصل کرنے میں میری مدد کردیں تو ممنون ہوں گا۔
مجھے ”تریاق مسموم‘‘ کا سراغ نہ ملا۔ یہ خبر سنانے کے لیے میں نے محمد موسیٰ صاحب کو فون کیا اور پھر جو باتیں چھڑیں تو دیر تک اور دور تک چلیں۔ ان کی عمر اب چون برس کے قریب ہے۔ سنہ اٹھاسی میں ان کے اعلیٰ معیاری کتابیں جمع کرنے کے شوق نے سر اُبھارا۔ انہوں نے فٹ پاتھ سے لے کر بڑے کتاب گھروں تک، جہاں سے بھی ملیں یہ کتابیں جمع کرنی شروع کیں۔ اب حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں اُردو کے ریسرچ اسکالر ان سے رابطے میں ہیں۔ محمد موسیٰ انہیں مطلوبہ کتابوں کے عکس یا اسکین کر کے پی ڈی ایف فائل بنا کر کمپیوٹر سے بھیجتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ یوں جاری ہے کہ جس وقت میں ان سے بات کر رہا تھا، ہندوستان سے کتابوں کے چار پارسل پہنچنے والے تھے۔ کہنے لگے کہ میں چاہتا ہوں کتاب زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے۔ میں نے کہا کہ کتابوں کے اس تبادلے پر بھاری رقم اٹھتی ہوگی، بتانے لگے کہ اہل علم باقاعدگی سے ادا ئیگی کرتے رہتے ہیں۔ میں نے کچھ خاص خاص کتابوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ”حالنامہ بایزید‘‘ کا نام لیا جو سات سو صفحوں کی کتاب ہے اور نایاب ہے۔ اسی طرح ڈپٹی نذیر احمد کی متنازع کتاب ”امہات الامّہ‘‘ کا ذکر کیا جو مشتعل مجمع نے ان کی آنکھوں کے سامنے جلا ڈالی اور سنا ہے کہ وہ روتے رہے۔ بتانے لگے کہ بعد میں یہی کتاب عظیم بیگ چغتائی نے شائع کی تو لوگوں نے ان پر حملہ کردیا۔ میں نے کہا کہ ایسی کیا بات تھی اس کتاب میں ؟ محمد موسیٰ صاحب کو کتاب کے کچھ اقتباس یاد تھے جو انہوں نے مجھے سنا دئیے۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ ڈپٹی نذیر احمد کے اسلوب میں جو شوخی گھلی ہوتی تھی، اس کو ہر کوئی سراہ نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح مولوی چراغ علی کی کتاب ’’سلیمانؑ‘‘ کی بات چھڑی جس کی خوبی یہ ہے کہ کسی نبی کے بارے میں جذباتی نہیں بلکہ خالص تاریخی اور علمی کتاب ہے مگر اب نایاب ہے۔ محمد موسی صاحب نے بتایا کہ ان کے ذخیرے میں سارے ہی موضوعات شامل ہیں لیکن فکشن کا بڑا کلیکشن ہے مثلاً سدرشن کو اور ان کی کہانیوں کو لوگ جانتے ہی نہیں، محمدی بیگم کو دنیا بھول گئی۔ ڈپٹی نذیر احمد پر سات سو صفحوں کی بے مثال کتاب ’’حیات نذیر‘‘ اور اسی نوعیت کی بے شمار کتابیں ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ کہ محمد موسیٰ کو اکثر کتابوں کے صرف نام ہی نہیں بلکہ دوسری تفاصیل بھی یاد ہیں۔
میں چونکہ بر صغیر کے ان گنت کتب خانوں کی سیر کرچکا ہوں،اپنے تجربے کی بنا پر میں نے ان سے پوچھا کہ اس ذخیرے کو دیمک اور کیڑوں سے بچانے کا کچھ انتظام کیا ہے آپ نے۔ مثال کے طور پر انہیں فیومی گیشن چیمبر میں رکھ کر یا ان پر پلاسٹک چڑھا کر لیمی نیشن کرکے محفوظ کر نے کے بارے میں کچھ سوچا؟ اس معاملے وہ دیہاتی نکلے۔ بتانے لگے کہ ہم کتابوں میں تمباکو رکھتے ہیں جس سے یہ ابھی تک تو بالکل محفوظ ہیں۔ (پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ میری کسی کتاب میں کیڑا لگا ہو تو پندرہ سیکنڈ کے لیے اسے مائیکروویو اوون میں رکھ دیتا ہوں، سارے کیڑے مکوڑے بھن کر راکھ ہوجاتے ہیں۔ ایک ماہر خاتون نے بتایا کہ کتاب کو کچھ دیر کے لیے ڈیپ فریزر میں رکھنے کے بھی بڑے فائدے ہیں)۔
میں نے پوچھا کہ کیا کبھی کوئی محقق ریسرچ کی خاطر یہاں خود آیا؟ انہوں نے بتایا کہ اب جدید طریقے رائج ہوگئے ہیں۔ کسی کو آنے کی ضرورت نہیں۔ میں لوگوں کو ان کا مطلوبہ مواد بھیجتا رہتا ہوں۔ کتاب زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جائے، اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔ اس پر میں نے کہا کہ مجھے مرزا محمد ہادی رسوا کے بارے میں بڑی ہی مفصل کتاب چاہیے ہے۔ فوراً ہی بولے کہ علی گڑھ کی ڈاکٹر میمونہ بیگم انصاری مارہروی کی کتاب ’’مرزا محمد ہادی کی سوانح اور ادبی کارنامے‘‘ سے بہتر کتاب نہیں۔ دو سو چورانوے صفحات ہیں (انہیں یہ بھی یاد تھا)۔ آپ کو پی ڈی ایف فائل بھیج دوں؟ پھر کچھ سوچ کر بولے کہ نہیں۔ میرے پاس دو تین نسخے ہیں۔ میرے ایک عزیز برطانیہ ایک شادی میں جانے والے ہیں۔ ان کے ہاتھ بھیج دیتا ہوں۔ آپ اطمینان رکھیے۔
باتوں باتوں میں حیدرآباد دکن کے عبدالصمد کا ذکر آگیا جو پیشے کے اعتبار سے موٹر میکینک تھے مگر کتابیں جمع کرکے انہوں نے شاندار ریسرچ سینٹر قائم کردیا اور تحقیق کرنے والوں کا ہاتھ بٹانے لگے۔ ان کا نام سن کر محمد موسیٰ صاحب نے سوشل میڈیا کی زبان میں مجھے ’’بریکنگ نیوز‘‘ دی اور بتایا کہ آج کل ’’ریختہ‘‘ والے اپنے آلات اور سا ز وسامان لے کر عبدالصمد صاحب کے پاس پہنچے ہوئے ہیں اور ان کی نایاب کتابوں اورخاص طور پر قدیم اُردو رسالوں کو اسکین کرکے ان کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر رہے ہیں۔ آخر میں نے دل دکھانے والا وہ سوال کیا جو میں اکثر لوگوں سے کرتا رہا ہوں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کے بعد کتابوں کے اس ذخیرے کو کون سنبھالے گا؟ کہنے لگے کہ یہ فکر مجھے بہت ستاتی ہے۔ میرا ایک بیٹا ہے جو ابھی چھوٹا ہے۔ کئی درس گاہیں اور دوسرے ادارے پیش کش کرچکے ہیں کہ اپنا ذخیرہ ہمیں بطور عطیہ دے دیجیے، ہم اسے محفوظ کر لیں گے۔ لیکن ذہن کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا ہے۔ محمد موسیٰ صاحب کی یہ بات سن کر خیال آیا کہ کتابیں جمع کرنے والے جتنے لوگوں سے میں نے یہ سوال کیا، ہرایک نے یہی جواب دیا۔
میں تو اتنا جانتا ہوں کہ خود میں نے کتابوں کا ذاتی ذخیرہ بہاول پور کی ایک درسگاہ کو پیش کردیا اور خود جاکر دیکھ لیا کہ میری کتابیں وہاں آرام سے رکھی ہیں چنانچہ میں بھی اب چین سے ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ میرے گھر میں ایک نیا ذخیرہ بننا شروع ہوگیا ہے۔
(جنگ)