ایک کتاب، ایک حقیقت – رضا علی عابدی

یہی کوئی اسّی سال ہونے کو آرہے ہیں، برطانیہ میں ایک کتاب بہت مقبول ہوئی۔ کتاب کا نام تھا ’’مائی خیبر میریج‘‘، درہ خیبر میں میری شادی۔ یہ خود نوشت سوانح اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو کی ایک خاتون نے لکھی تھی۔ ان کا نام ”موراگ مرے عبداللہ‘‘ تھا۔ بدقسمتی سے ان کی کہانی اب بھلادی گئی ہے لیکن اب جو کسی نے دوبارہ چھاپ دی تو پڑھ کر یقین نہیں آتا۔ یہ کہانی آج کے پاکستان کے قبائلی علاقے کی بتائی جاتی ہے جسے شاید علاقہ غیر بھی کہتے ہیں۔ موراگ مرے نے خود بیان کیا ہے کہ کیسے گلاسگو یونیورسٹی کی ایک پارٹی میں برصغیر کے ایک قبائلی سردار کے بیٹے سید عبداللہ خان سے اس کا تعارف ہوا اور کیسے دونوں کے دلوں میں وہ چھوٹا سا دیا جل اٹھا جسے محبت کہتے ہیں۔ پہلے وہ چھپ چھپ کر ملے یہاں تک کہ سیدعبداللہ نے شادی کی بات چھیڑ دی۔ موراگ کے باپ جیمز نے سنا تو وہ بھڑک اٹھا۔ وہ لڑکی کو اپنے ایک دوست کے بیٹے سے بیاہنا چاہتا تھا۔ طے یہ ہوا تھا کہ باپ کی ساری دولت بیٹی کو ملے گی، اور اگربیٹی نے انکار کیا تو سارا پیسہ اٹھا کر آوارہ بِلّیوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کو دے دیا جائے گا۔ موراگ نے کہا کہ آپ اپنی دولت جسے چاہیں دے دیجئے، میں تو اسی خوبرو پٹھان سے شادی کروں گی۔ باپ نے سمجھایا کہ اول تو اس کی پہلے سے کئی بیویاں ہوں گی، دوسرے وہ غلاموں کی طرح رکھے گا اور آخر تمہیں کھانے پینے میں شیشے کا سفوف ملا کر دے دیا جائے گا۔ ادھر سید عبداللہ کا باپ بھی اس رشتے کا مخالف تھا۔ اس نے تار دے کر پوچھا کہ کیا لڑکی بہادر ہے، گولی چلاسکتی ہے، اور ہمارے قلعے پر حملہ ہوا تو کیا دشمن سے لڑسکے گی؟ لیکن جب موراگ نے کہا کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہے تو باپ نے شادی کی اجازت دے دی۔ موراگ کا باپ مسیحی تھا۔ بیٹی مذہب بدلنے چلی تو وہ اپنی بات پر پہلے سے زیادہ اڑ گیا۔ اسے سمجھانے بجھانے میں تین مہینے لگے۔ آخر اسی کے گھر میں نکاح ہوا۔ تین مسلمان لائے گئے، ایک نکاح خواں اور دو گواہ۔ لڑکی سے تین بار پوچھا گیا کہ کیا اسے بعوض ایک ہزار پاؤنڈ سکندر خان کے بیٹے سید عبداللہ کی بیوی بننا منظور ہے؟ جب ہاں کہہ دی گئی تو موراگ کے باپ نے قرآن کی کچھ آیات پڑھیں اور بیٹی کو رخصت کیا۔ شادی کے ایک سال بعد موراگ نے بیٹی مارگریٹ کو جنم دیا۔ ڈیڑھ سال بعد موراگ، عبداللہ اور ننھی مارگریٹ اْس علاقے کو روانہ ہوئے جسے انگریز علاقہء غیر کہا کرتے تھے اور جسے چینی ترکستان اور بلوچستان کے درمیان سینکڑوں میل لمبی پٹّی کہا جاسکتا ہے جو اْس وقت کے ہندوستان کو افغانستان سے جدا کرتی تھی۔ یہ چھوٹا سا کنبہ سمندرکے راستے کراچی پہنچا جہاں بچّی کی ولایتی نرس کو رخصت کیا گیا اور ایک قبائلی آیا کو مارگریٹ کی دیکھ بھال سونپی گئی۔ دو دن کا سفر طے کرکے یہ لوگ پشاور پہنچے جہاں موراگ نے پہلی بار سفید برقع اوڑھا اور کسی مشرقی شہر کی سیر کی۔اس سے آگے خیبر کا اور سنگلاخ چٹانوں کا سفر درپیش تھا۔
کتنی ہی گھاٹیاں طے کرتا، راہ میں مارنے مرنے پر آمادہ قبائلیوں کو مطمئن کرتا جب یہ گھڑ سوار قافلہ وہاں پہنچا جہاں اُونچائی پر ایک قلعہ سر اٹھائے کھڑا تھا، سید عبداللہ نے کہا۔ ’’موراگ، یہ رہا تمہارا نیا گھر‘‘۔ کتاب یہاں پہنچ کر حیرت کے ایسے ایسے دریچے کھولتی ہے کہ ذہن میں تصویروں پر تصویریں ابھرتی جاتی ہیں۔ بڑے سردار، ان کی اہلیہ اور دو جوان بیٹیوں کی گرم جوشی نئے آنے والوں کو حیران کرگئی۔ اس قلعہ نما حویلی کا ایک ایک گوشہ سجایا گیا تھا، حویلی کا ہر شخص بہترین لباس پہنے تھا، ایک دھوم مچی تھی اور اس دھوم میں علاقے کے سارے ہی قبائل شریک تھے۔ دن ڈھلتے ہی تمام پہاڑیوں کے اوپر بڑے بڑے الاؤ جلادئیے گئے اوراگلی صبح ہوتے ہی ہر طرف سے قبائلیوں کے قافلے خوش آمدید کہنے وہاں پہنچنے لگے۔ کچھ بھی ہو، بڑے سردار کا اکلوتا بیٹا ولایت سے نہ صرف تعلیمی سند بلکہ ایک خوش رنگ بہوبھی لے کر آیا تھا۔ قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ ابھی باقاعدہ شادی ہونی باقی تھی۔ اس کا بھی علاقے میں اعلان ہوگیا اور پھر جو تیاریاں شروع ہوئیں انہیں ان چند سطروں میں سمیٹنا دوبھر ہے۔ اس دوران موراگ نے زنان خانے کی جو تفصیل بیان کی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ قبائلی رسم ورواج کی اتنی باریکیوں میں اس سے پہلے کون گیا ہوگا۔ آخر شادی کے جشن کا دن بھی آگیا۔ علاقے میں خیموں کا شہر بس گیا۔ دُور دُور کے دوستوں اور دشمنوں، سبھی کے قافلے ناچتے گاتے اور تحفے تحائف سے لدے پھندے پہنچنے لگے۔ تحفوں میں نمدوں اور قالینوں سے لے کر سفید عربی گھوڑے تک کیا شامل نہیں تھا۔ بکرے بھونے جانے اور بریانی کی دیگیں اترنے کا تو ذکر ہی کیا۔ موراگ نے ہر بات لکھ دی کیونکہ اس کے لیے ہر بات عجب، انوکھی اور نرالی تھی۔ اور جو بات اس نے بہت ہی پیار سے لکھی وہ یہ تھی کہ اسے دلہن کس شان سے بنایا گیا۔
موراگ اپنے قلعہ نما گھر سے ہر طرف نظر آنے والی پہاڑیاں اور گھاٹیاں دیکھتی رہی۔ وہ اسکاٹ لینڈ کی کھلی فضا میں پلی بڑھی تھی، اسے باربار خیال آیا کہ کیوں نہ نکل کر علاقے کو قریب سے دیکھا جائے۔ یہاں اس نے گھریلو ملازموں کا بھیس بدل کر باہرنکلنے کے قصے بیان کیے ہیں۔ ایک پہاڑی پر کوئی سایہ نظر آتا تھا، موراگ وہاں جا پہنچی۔ ایک قبیلے کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ لوگ سانپوں کی پرستش کرتے تھے انہیں دیکھنے جا پہنچی۔ ایک بار گھرکے مرد کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ مخالف قبیلے نے ان کے قلعے پر حملہ کردیا۔ قلعے کی عورتوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان عورتوں میں موراگ بھی شامل تھی۔ موراگ کو اپنی دوجوان نندوں کی فکر تھی جن کی شادی کے آثار نہیں تھے۔ بڑی نند نے بھاوج پر اپنے دل کا حال کھولا۔ اسے ایک مخالف قبیلے کے سردار کا بیٹا پسند تھا۔ دونوں نے بچپن ساتھ گزارا تھا۔ لیکن مسئلہ سنگین تھا۔ باپ اس رشتے کے خیال سے ہی بھڑک اٹھیں گے۔ آخر موراگ نے نہ صرف انہیں رضامند کیا بلکہ خود جاکر لڑکے والوں سے بھی بات کرلی۔ دوقبیلوں میں نہ صرف صلح ہوئی بلکہ رشتہ داری بھی ہو گئی۔ یوں زندگی چین سے گزرتی رہی۔ ایک روز سید عبداللہ نے بیوی اور بیٹی سمیت ہندوستا ن جانے کا فیصلہ کیا اور یہاں سے کہانی کا انداز بدلا۔ موراگ نے اپنے مشاہدے کو کسی کہنہ مشق مصنف کی طرح لکھا۔ دہلی کی سیر کے بعد یہ لوگ ایک ہندو مہاراجا کے مہمان رہے اور ہندوستانی رجواڑوں کی شان و شوکت دیکھی۔ گرمیوں میں شملہ چلے گئے۔ وہاں شادی کا میلہ دیکھا جہاں والدین اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کولے کر آتے تھے اور ہاتھ کے ہاتھ رشتے طے ہوا کرتے تھے۔ موراگ نے ان سادھوؤں، جوگیوںاور بیراگیوں کی دل چسپ تصویر کھینچی ہے جو کمالات بھی دکھاتے تھے۔ اس کا ایک مشاہدہ ایسا ہے کہ سْنا ہی کیجئے۔ لکھتی ہیں کہ مہاراجا اور ان کے احباب کے ساتھ رہ کر احساس ہو ا کہ ہندو صبح سویرے منہ اور ناک میں پانی بھر کر زور زور سے غرارے ضرور کرتے تھے۔ پتہ چلا کہ محمود غزنوی نے پے درپے حملے کرکے سارے ہی بْت مسمار کردیے۔ وہ چاہتا تھا کوئی بت پرستی نہ کرے لیکن جب کوئی باز نہ آیا تو اس نے حکم دیا کہ بتوں کا چورا کرکے اور اس کا سفوف بنا کر دالوں میں ملا دیا جائے اور بعد میں بتایا جائے کہ آپ لوگ اپنے بْت کھا چکے ہیں۔ اس وقت سے ہندو حضرات شور مچا کر غرارے کرتے ہیں تاکہ بتوں کا چورا ان کے بدن سے نکل جائے۔ یہ عبارت لکھنے کے بعد موراگ خود بھی ہنسی ہوں گی۔
سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب کی حقیقت جان کر ہم بھی ہنسے۔ اب سنیے کتاب کی حقیقت۔ اس میں جو ”موراگ مرے عبداللہ‘‘ ہیں وہ اصل میں مصنّفہ ”سائرہ ایلزبتھ لوئزا شاہ‘‘ ہیں۔ جو سید عبداللہ ہیں وہ سردھنا (میرٹھ یو پی) کے سردار اقبال علی شاہ ہیں۔ وہ بچی جو مارگریٹ ہے، وہ ان کی بیٹی امینہ شاہ ہے جس کے دو بھائیوں نے خصوصاً ادریس شاہ نے تصوف کے میدان میں شہرت پائی۔ان کی اولادوں میں دو سے ہم سب واقف ہیں، مشہور اداکار نصیر الدین شاہ اور سید کمال مرحوم۔ کتاب میں دو چار کے سوا سارے نام اور مقام فرضی ہیں اور شاید کتاب کا بڑا حصّہ بھی۔

(جنگ)

اپنا تبصرہ بھیجیں