مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری – محمد عمر رانا

لائبریریاں کسی بھی قوم و ملک کا سرمایہ ہوتی ہیں اور ان کا کسی بھی معاشرے اور قوم کی علمی وتحقیقی ترقی میں کلیدی کردار ہوتا ہے. کتب خانے کسی بھی قوم کی تہذیب کو نقطہء کمال تک پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں. پاکستان کے بڑے شہروں میں تو کالج اور جامعات کے کتب خانوں اور پبلک لائیبریریوں کی ایک اچھی اور تسلی بخش صورت حال ہے مگر دُور دراز کے علاقوں میں یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے. اگر پرائیویٹ کتب خانوں کا تذکرہ چھیڑا جائے تو وطن عزیز کی بڑی نجی لائبریریوں میں سے ایک میلسی، ضلع وہاڑی کے ایک گائوں سردار پور جھنڈیر میں آب وتاب اور علمی رعنائیوں کے ساتھ خدمتِ خلق میں پیش پیش ہے.

پاکستاں جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں علمی و تحقیقی سرگرمیوں کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں، اس گو نا گوں صورتحال میں ”مسعود جھندیر ریسرچ لائبریری‘‘ اندھیروں میں اجالے کا استعارہ ہے. اس کتب خانے کا تذکرہ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ مضمون نگار نے ایک ممتاز اقبال شناس پروفیسر صدیق جاوید مرحوم کی ذاتی لائبریری کی کتب کو میاں غلام احمد جھنڈیر کے حوالے کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا. اس کتب خانے کی حوالگی کے بعد مرحوم صدیق جاوید نے بارہا گلہ بھی کیا کہ عمر تم نے یہ کیا کردیا. مجھے بے سرو ساماں کردیا. اب میں اپنی علمی و ادبی تسکین کہاں سے اور کیسے پوری کروں گا؟ 1995ء کے بعد ان کا کتب جمع کرنے کا شوق مزید تقویت پا گیا اور آپ نے آئندہ بیس سالوں میں اس سے بھی دگنی تعداد میں کتب جمع کر لییں. الحمدللہ آج یہ ذخیرہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی عظیم الشان لائیبریری کا حصہ بن چکا ہے.

ملک غلام محمد چوغطہ (1865ء – 1936ء) علاقہ کے ایک معروف دانشور اور زمیندار تھے جن کی چند سو کتابیں ان کے نواسوں، میاں مسعود احمد جھنڈیر، میاں محمود احمد اور میاں غلام احمد کو وراثت میں ملیں اور یہی کتابیں اس بڑی لائبریری کے وجود کی وجہ بنیں۔ جھنڈیر حضرت غازی عباس علمدار ابن علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہیں اور یہ خاندانی طور پر درمیانہ درجہ کے محنتی زمیندار ہیں۔ لائبریری کا نام بڑے بھائی میاں مسعود احمد کے نام کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ محمد ہارون موسی ایم بی اے (امریکہ ) لائبریری کے معتمد (سیکرٹری) ہیں۔ جب کہ ڈاکٹر محمد فیصل مسعود جھنڈیر ایف آر سی پی ( مقیم کینیڈا) گاہے گاہے غیر ملکی نادر کتب بھیجتے رہتے ہیں۔

میاں غلام احمد جھنڈیر لائبریری کو یوم آزادی 2013ء کے موقع پر اتنے عظیم قومی ورثہ کو جمع کرنے پر صدارتی ایوارڈ ”تمغہء امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ یہ لائبریری قصبہ سردار پور جھنڈیر تحصیل میلسی ضلع وہاڑی میں واقع ہے۔ اس بستی کی داغ بیل مزروعہ زمین پر 1963ء میں ڈالی گی۔ اس ”کتاب بستی‘‘ کا نام اپنے والد محترم میاں سردار محمد کے نام کی نسبت سے سردار پور جھنڈیر رکھا گیا۔

میاں مسعود احمد جھنڈیر

یہاں پر شہری سہولیات مثلاً بجلی، بنک، زیرِزمین سیوریج، پختہ گلیاں، ڈاک خانہ، گورنمنٹ گرلز ہائی سکول، گورنمنٹ بوائز سکول، پنجاب ووکیشنل انسٹیٹیوٹ، دو ہسپتال، پختہ سڑکیں، واٹر فلٹریشن پلانٹ، سٹریٹ لائٹس، ٹیلیفون ایکسچینج، پبلک ٹراسپورٹ وغیرہ میسر ہیں۔ مختلف محکموں نے لائبریریوں کی اہمیت کے پیش نظراس ذخیرہ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے. حکومت نے میلسی میں کینال پر دو پل ”پل غازی عباس‘‘ اور ”پل غوث پاک‘‘ تعمیر کیے۔ واپڈا نے میلسی کے ایک سب ڈویژن کا نام ”سردار پور جھنڈیر‘‘ اور ایک فیڈر کا نام ”سردار جھنڈیر‘‘ رکھا ہے۔ پاکستان ریلوے نے ریلوے سٹیشن ”آرے واہن‘‘ کا نام بدل کر ”سردار جھنڈیر‘‘ رکھ دیا ہے. پی ٹی سی ایل نے انٹرنیٹ اور آپٹک فائبر کی سہولت میسر کی۔ حکومتِ پنجاب نے قصبے کو دوسرے شہریوں سے ملانے کے لیے سڑکوں کی تعمیر کی جب کہ سٹیٹ بنک نے ایم سی بی بنک کو آئن لائن سہولت میسر کی۔

کتب کا یہ قابل قدر ذخیرہ ایک تاریخی، دینی اور ثقافتی ورثہ کی حیثیت سے محفوظ ہے۔ چوں کہ لائبریری جاندار چیز ہے اس لیے اس کو وقت کے ساتھ جدید تبدیلی سے آراستہ کیا گیا ہے۔ اس لائبریری میں 215000 کتب، 118000 رسائل، 4050 مخطوطات اور قرآن مجید کے 1153 قلمی نسخہ جات محفوظ ہیں۔ یہ عظیم لائبریری تین بھائیوں کی 50 سالہ، بغیر کسی بیرونی مالی مدد کے، جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ البتہ مخیر حضرات سے کتب کے عطیات اس لائبریری کو ملتے رہتے ہیں۔

1980ء کے بعد ایم اے، ایم فِل، پی ایچ ڈی اور مابعد، محققین کو لائبریری سے مستفید ہونے کی سہولت دی گئی ہے۔ اس عوامی کردار کی وجہ سے محققین، مشرقی اور انگریزی زبانوں میں فنون عامہ اور معاشرتی علوم کے مضامین میں استفادہ حاصل کررہے ہیں اور یوں یہ لائبریری کسی بھی پبلک ریسرچ لائیبریری سے بھی بہتر تحقیقی انداز میں معاشرے کی خدمت سرانجام دے رہے ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے وسیع تر منصوبوں کی وجہ سے یہاں ریسرچ کلچررواں دواں ہے۔

چوں کہ یہ لائبریری ایک چھوٹی سی ”گل زمین‘‘ یا ”بستی چراغاں‘‘ میں واقع ہے اس لیے یہاں ریسرچ سکالرز کو مناسب سہولیات میسر کی جاتی ہیں۔ یہاں ملکی و غیر ملکی دانشور، چانسلرز، ادبی و سائنسی شخصیات، اساتذہ، کالج و یونیورسٹیوں کے تعلیمی دورے ہوتے رہتے ہیں. ملکی و بین الاقوامی الیکٹرانک میڈیا نے نہ صرف اس لائبریری کی تحقیقی میدان میں خدمات کو سراہا ہے بلکہ اس لائبریری کے حوالے سے بے شمار انٹرویو اور دستاویزی پراگرام بھی براڈکاسٹ کیے ہیں. مختلف ملکی و غیر ملکی اخبارات نے بھی اس ضمن میں‌ خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے. برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور ایرانی ریڈیو ٹی وی کے محکمہ صداوسما نے میاں غلام احمد کے خصوصی انٹرویو نشر کیے۔

لائبریری کا نیا کمپلیکس 2007ء میں مکمل ہوا جو 2100 مربع فٹ کورڈ ایریا پہ محیط ہے۔ اس کمپلیکس میں آٹھ کشادہ ہال، آڈیٹوریم، ملٹی میڈیا ورک سٹیشن، کمیٹی روم اور ہاسٹل شامل ہے۔ لائبریری میں کل دس ملازم کام کر رہے ہیں۔ جن میں لائبریرین، نائب قاصد اور مالی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ عظیم الشان لائبریری 5 ایکڑ کے خوبصورت پارک میں گھری ہوئی ہے۔
ایک انگریز فلاسفر کا قول ہے کہ اگر کسی علاقے کو تمدنی اور معاشی طور پر ترقی یافتہ بنانا ہو تو وہاں کتب خانہ قائم کر دینا چاہیے. بلاشبہ اس فلاسفر نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے. اگر اس قول پر اربابِ اختیار اور صاحبِ استطاعت لوگ عمل پیرا ہوں تو کچھ ہی عشروں میں ہم علمی تحقیقی اور ادبی لحاظ سے یورپ کے ہم پلہ ہو سکتے ہیں.

اس لائبریری سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ:

3 تبصرے “مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری – محمد عمر رانا

  1. Bohat he khobsurat kavish hay or es library ka parh kar dil kush howa mujah en ka mobile no darkar hay takkay man bhe apnay resalay or kitabaan es library ko tufah tan bhe sakon. MEHBOOB ELAHI MAKHOOR EDITOR MONTHLY ANOKHI KAHANIYAN, KARACHI

  2. سلام و درود بر مالک دانش دوست و علم پرور کتابخانه جهندیر
    این کتابخانه را در سال ۲۰۱۳ بازدید کردم و پس از آن یکی دوبار در ملتان توفیق زیارت با جناب جهندیر را داشته ام
    یکی از ماندگارترین خاطرات این جانب است و آرزوی بازدید دوباره و حتی اقامت پژوهشی در این مرکز را با خود دارم
    به اراده والایتان درود می فرستم
    تقی صادقی
    رایزن فرهنگی اسبق ایران در پاکستان

تبصرے بند ہیں