تقریب بڑی پروقار اور معتبر سی تھی۔ دنیا ئے ادب و صحافت کی معتبر ترین شخصیات کا یہاں موجود ہونا ہی اس کے معتبر ہونے کی گواہی تھی۔ جناب امجد اسلام امجد، ہارون الرشید، اسد اللہ غالب، رؤف طاہر، خالد یزدانی، صوفیہ بیدار، عمرانہ مشتاق اور دیگر بہت سے لوگ جن میں سے کچھ کو میں چہروں سے پہچانتی تھی اور کچھ سے ناواقف تھی۔ وجہ آواری کے اِس ستلج ہال میں اکٹھے ہونے کی جناب ضیا شاہد کی دو نئی کتابیں ”میری سدا بہار تحریریں‘‘ اور ”میرے بہترین کالم‘‘ کی تقریب رونمائی میں شرکت اور ان دونوں کتابوں پر کچھ اظہارخیال کرنا تھا۔
ضیا شاہد کے قلم کو خدا نے تاثیر اور کمال دونوں عطا کیے ہیں۔ اُردو ڈائجسٹ سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے نے جس جس قومی اخبار میں ملازمت کی وہاں انہوں نے صحافت کو نئے رنگ اور نئے انداز دیتے ہوئے خود کو رحجان ساز صحافی کا ٹائٹل اپنے لیے مخصوص کیا۔ لگن اور محنت سے اپنا ذاتی اخبار نکالا اور اسے کامیاب بنانے میں کس تگ و دو اور جانفشانی سے کام لیا۔ اِسے اوپر والے کی نظرکرم کہیے، خدا کی عنایت کہ وہ اس کامیاب ہوئے۔
اس سے پہلے کہ میں کتابوں کے حوالے سے کوئی بات کروں، ذرا تھوڑا سا ذکر ہارون الرشید کا ہوجائے کہ مدتوں بعد اُن سے ملاقات ہوئی تھی۔ چند سال پہلے پنجاب آفیسرز میس میں شعیب بن عزیز کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں سرسری سی ملاقات ہوئی تھی۔ زندگی کے کسی بھی حصّے میں ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کے سلسلے کی کچھ یادیں بھی ملاقات ہونے پر آنکھوں میں جھلملاتی ہیں۔ یاد آیا تھا، ہفت روزہ سیاسی پرچہ ”زندگی‘‘ میں کام کرتی تھی تو ہارون صاحب اس کے مدیر تھے۔ اتفاق ہی ایسا تھا کہ چند دن دفتر نہیں گئی اور نہ ہی کوئی چیز بھیجی۔ جب حاضری دی تو بولے اتنے دنوں سے غیر حاضر کیوں تھیں اور کچھ لکھا نہیں۔ عرض کیا حضور گھر میں سفیدیاں ہورہی تھیں۔ تو کیا سفیدی لکھنے سے روکتی ہے۔ دست بدستہ پھر عرض کی حضور والا میں لکھنے والی ہی نہیں گھر والی بھی ہوں۔ مجھ اکیلی ہی کو اپنے گھر کے بھانڈے ٹینڈے ٹھکانے لگانے تھے۔
تو اب ضیا شاہد کی جانب لوٹتے ہیں۔ ماشاءاللہ سے وہ اس سٹیج پر ہیں جنہیں اب اپنی کتابوں کی رونمائی کی ہرگز ضرورت نہیں۔ وہ ان سے حاصل شدہ آمدنی سے بھی بے نیاز ہی ہیں۔ ہاں اگر ضرورت ہے تو اِس بات کی کہ وہ اپنی تمام تحریروں اور کالموں کو اکٹھا کریں، وقت نہیں تو اِس کام کے لیے سمجھ دار قسم کے دوچار بندے رکھیں، انہیں سلسلہ وار والیوم کی صورت میں چھاپیں۔ لائبریریوں، یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں پہنچاتے جائیں۔ دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے: ایک کتاب کی ضخامت زیادہ نہ ہو اور دوسرے قیمت مناسب ہو۔ یہ کام وقت کی ضرورت ہے۔ یہ کتابیں وقت کا تقاضا ہیں کہ ہماری نئی نسل کتاب سے جس قدر دور ہوگئی ہے اُسے واپس کتاب کی طرف لانا ہے، اس کے ہاتھ میں کتاب تھمانی ہے، اُسے کتاب سے محبت سکھانی ہے. لفظ سکھاتے ہیں، تحریر تربیت کرتی ہے۔
ہارون الرشید نے اپنے ایک کالم میں ایک جملہ لکھا: ”درختوں کی ٹنڈ منڈ شاخیں اپنے ہاتھ اٹھائے خدا سے دعا مانگ رہی تھیں۔‘‘ میں نے سیکڑوں بار درختوں کی ٹنڈ منڈ شاخوں کو دیکھا ہوگا مگر اِس انداز میں میری آنکھوں نے اور میرے دماغ نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ سچی بات ہے اِس جملے نے جس قدر متاثر کیا اور جتنا یہ اثرانداز ہوا اُسے تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ یہاں امجد اسلام امجد کی ایک حمدیہ نظم کا حوالہ بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ جب عمرہ کے لیے گئی تو عربی آیات یاد نہیں تھیں۔ سب کچھ سر کے اوپر سے گزررہا تھا۔ دل خالی تھا۔ کوئی جذبہ اور رقت پیدا نہیں ہورہی تھی۔ تو ایسے وقت میں امجد اسلام امجد کی نظم آگے بڑھی اور میں حاضر ہوں۔ اے رب ملائک، جن و بشر میں حاضر ہوں۔ دماغ میں کوندے کی طرح لپکی اور میں روتی آسمان کو دیکھتی دیوانہ وار میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں کرتی اس طواف کی لائنوں میں شامل ہوگئی تھی۔ میرے وجدان نے جیسے کہا تھا۔ اس کی رحمت کی پھوار برسنے لگ گئی ہے تم پراور بھیگنے لگی ہو۔
یہ دلائل، یہ تاویلات، یہ باتیں سب بے معنی ہیں کہ لوگ مہنگے کپڑے خریدتے ہیں، ہوٹلنگ کرتے ہیں۔ ایک وقت میں دس دس ہزار ڈکار جاتے ہیں مگر کتاب خریدتے ہوئے انہیں موت پڑتی ہے۔یہ بات بھی نہیں، میرے خیال میں شاید کچھ باتیں وقت کے بدلتے تقاضوں میں آکر اپنے راستے بدل لیتی ہیں۔ ہمارے زمانوں میں کتاب سے محبت کی جاتی تھی۔ کتاب پڑھی جاتی تھی۔ لوگوں کے پاس پڑھنے کا وقت تھا۔ زندگی شاید اتنی تیزرفتار نہ تھی۔ سردیوں کی لمبی راتیں اور گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں تفریح کا اور کون سا ذریعہ تھا۔ لے دے کے ایک کتاب جو ساتھی تھی ان پہروں کی۔
مگرآج کا زمانہ تیزرفتار، جب گھرکے افراد جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ان کے پاس باتیں کرنے کا وقت نہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائلوں نے وقت چھین لیا ہے۔ تاہم اِن سب کو دوش دینا تو مناسب نہیں۔ زمانے نے تو آگے بڑھنا ہے۔ ضرورت تو اتنی ہے کہ ہم وہ سب کام کریں کہ جس سے بچوں کو کتاب سے رغبت ہو، محبت ہو۔ وہ اسے پکڑیں اور پڑھیں۔ اچھی تحریر صدقہ جاریہ ہے۔
مجھے یاد ہے ضیا شاہد کے کالموں کا جو سلسلہ جنگ جمعہ میگزین میں جاری تھا کہ اُن دنوں ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوتی تھی۔ میگزین کھلتے ہی ضیا شاہد کا کالم پڑھنے کو ملتا تھا۔ یہ میرے گھر میں ہر بڑے، ہر بچے کے لیے پڑھنا ضروری ہوتا تھا۔ میرے تینوں بچے اس پر دوپہر کے کھانے پر تبصرہ کرتے۔ اس کے ٹکڑے نکالتے اور اُن پربھرپور رائے زنی ہوتی۔
میرا مخلصانہ مشورہ اگر ضیا شاہد قبول کریں تو یہ نئی نسل کے لیے ان کا صدقہ جاریہ ہوگا۔
(خبریں)
