محبت مہرباں ہے – راشد منصور راشدؔ

عورت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی، جس رشتے میں بھی ہو محترم ہے کیوں کہ اسلام نے عورت کو بہت مقام دیا ہے مگر باطل کے دلفریب پراپیگنڈے کی وجہ سے آج کی عورت اسلام کی عظیم روحانی اور اخلاقی اقدار سے دور ہوتی جا رہی ہے. کسی بھی معاشرے کو سنوارنے یا بگاڑنے میں عورت کا بہت ہاتھ ہوتا ہے اس لیے اسلام دشمن طاقتوں نے آزادی نسواں کی آڑ میں فحش فلموں، ڈراموں اور شو میڈیا میں عورت کو حد سے زیادہ تشہیر دے کر اپنا سارا زور مسلم خواتین کے معاشرتی اور سماجی رجحانات تبدیل کرنے پر لگا دیا ہے مگر باشعور خواتین نے شیطانی سازشوں سے دامن بچا کر خود کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کر کے عزت اور وقار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کا نام بھی روشن کیا ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد کے ماحول پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ جب عورت نے کچھ کرنے کی ٹھان لی تو تمام مصائب اور کھٹن حالات کا مقابلہ کر کے اپنی منزل پا لی۔ فی زمانہ خواتین نے دیگر شعبوں کی طرح ادب میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے. ”عروج رضا‘‘ کا نام بھی اُردو ادب کی معیاری خدمت کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہے۔

عروج رضا کا مجموعہ کلام ”محبت مہرباں ہے‘‘ مجھے برادرم ثاقب بٹ کی وساطت سے پڑھنے کا موقع ملا۔ بلاشبہ شاعری قدرت کی عطا ہوتی ہے اور انسان کے اندر اظہار کی صلاحیت موجود ہوتی ہے. عروج رضا نے لفظوں کو شعروں کی مالا میں اس طرح پرویا ہے کہ قاری ایک کے بعد ایک نمونہ کلام پڑھتا چلا جاتا ہے۔

عروج رضا بارے اُردو ادب کے درخشاں ستارے فرحت عباس شاہ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ”عروج کسی ماحول یا حادثے کی وجہ سے شاعرہ نہیں بنی بلکہ قدرت نے اسے پیدا ہی شاعرہ کیا ہے اور اس کے باہر کے ماحول کے بجائے اس کی ذات کے اندر کے ماحول نے اسے پالش کیا ہے‘‘
فرحت عباس شاہ جیسی بلند پایہ ادبی شخصیت کے تبصرہ کے بعد کچھ لکھنا میری دانست میں محض کاغذ کالا کرنے کے مترادف ہے کیوں کہ فرحت عباس شاہ کے تعریفی جملے عروج رضا کے لیے سند کی سی حیثیت رکھتے ہیں جب کہ میں طفلِ مکتب ہونے کے ناطے عروج رضا کے کلام پر کوئی تبصرہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا یوں سمجھیے کہ ان کی شاعری کو بطور تعارف پیش کرنے کی سعی کر رہا ہوں۔

عروج رضا کی شاعری پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے خیال کو بہت آسانی سے شاعری میں ڈھال لیتی ہیں. وہ جب بھی قلم اٹھائیں، شعر تخلیق کر سکتی ہیں. ان کی شاعری میں ایمان کی پختگی، عشق و محبت اور رشتوں کے پاکیزہ بندھن کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے. انہوں نے انتساب بھی پاک فوج کے افسران، جوانوں، شہداء اور غازیوں کے نام کیا ہے اور ان سے اپنی محبت کا اظہاراپنی نظم ”سُوریاں کے جانبازو‘‘ میں اس طرح کیا ہے:

راز دان تم ہی ہو، پاسبان تم ہی ہو
سُوریاں کے جانبازو، آسمان تم ہی ہو
تم پہ جان قربان ہو اے مجاہدو میرے
ذی وقار تم ہی ہو کامران تم ہی ہو

عروج وطن کے محافظوں کو ذات پات اور علاقائی فرق سے آزاد اور ایک مستحکم پاکستانی دیکھنا چاہتی ہیں، ملاحظہ ہو کہ:

اپنی پیاری دھرتی کے اے دلیر جانبازو
آبرو بھی تم ہی ہو، آن بان تم ہی ہو
سندھی ہو، بلوچ ہو، پٹھان ہو، پنجابی بھی
پاکستان تم ہی ہو، پاکستان تم ہی ہو

عروج کے ہاں مذہب اور خصوصاً تصوف سے لگاؤ جا بجا دکھائی دیتا ہے:
”اے میرے حسین خدا‘‘، ”دعا‘‘ اور ”محبت میرا خدا‘‘ میں انہوں نے عشق حقیقی کے موتی پروئے ہیں۔ وہ دنیاوی رشتوں کے تقدس اور درد سے بھی خوب آشنا ہیں۔ ان کی نظمیں”میری پیاری بیٹی‘‘ اور”ماں‘‘ معاشرے کی تلخ حقیقتوں کی عکاس ہیں۔ عروج کی شاعری پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے زندگی کی حقیقتوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، زندگی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے. جو دیکھا، سمجھا اور محسوس کیا وہ لکھ دیا۔

دل میں اک درد ہے اور درد میں تنہائی ہے
زندگی یہ مجھے کس موڑ پہ لے آئی ہے
بولنا چاہوں تو کچھ بول نہ پائوں میں عروج
اور مری جان خموشی میں بھی رسوائی ہے

عروج کی شاعری کا موضوع غمِ جاناں، غمِ دوراں اور غمِ ہستی ہے. ان کی شاعری گل و بلبل کا فسانہ نہیں بلکہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کی ترجمان ہے:

اس کے آنسو میرا دل
آپس میں جاتے ہیں مل
زخم ہیں دل کے اندر یوں
آنکھ میں جیسے کالا تل

عرج رضا کی شاعری میں زبان کی سادگی اور اظہار کی بے ساختگی جا بجا دکھائی دیتی ہے. ان کے اشعار میں جو بے ساختہ پن پایا جاتا ہے وہ ان کے جذبوں کی سچائی کا مظہر ہے اور عرج کی شاعری پڑھتے ہوئے قاری ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے لگتا ہے:

عجب ہے، وفا کا حساب چاہتا ہے
سوال پاس نہیں اور جواب چاہتا ہے
وہ پل جو اس نے گزارے تھے میرے ساتھ کبھی
وہ ان تمام کا اب احتساب چاہتا ہے
عروج میں نے سنا ہے سبھی رقیبوں سے
وہ شخص اب میرا خانہ خراب چاہتا ہے

عروج زمانے کی بے اعتنائیوں اور احساسِ تنہائی کا مداوا اس طرح کرتی ہیں:

خود سے الجھنا، خود سے لڑنا سیکھ لیا
ہر پل جینا، ہر پل مرنا سیکھ لیا
ہم جیسے سرکش لوگوں نے بھی آخر
اک اک شخص کی باتیں سننا سیکھ لیا

عروج رضا نے مشکل زمین اور بحروں میں طبع آزمائی کی ہے اور ایک ایک بحر میں مختلف غزلیں کہی ہیں:

روش روش ہے فگار دل کی کتاب لکھو
گلاب دیکھو، گلاب سوچو، گلاب لکھو
کہ جس نے راہ حیات میں کر دیا اکیلا
تم اب اسی مہرباں کے نام انتساب لکھو

شاعرہ کی غزلیات لفاظی اور مضمون آفرینی کے لحاظ سے اتنی خوبصورت اور پر اثر ہیں کہ پڑھنے والے کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں:

جانے یہ کیسی پیاس رکھتی ہوں
دل ہے وہ بھی اداس رکھتی ہوں
زندگی کے طویل رستے پر
تیرے آنے کی آس رکھتی ہوں
آگیا تو میں قید کر لوں گی
ایک زنجیر پاس رکھتی ہوں
اب میں یوں ماری جانے والی نہیں
اب میں ہوش و حواس رکھتی ہوں

عروج رضا کی غزلوں میں رنگِ تغزل تو نمایاں ہے ہی لیکن سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ انہوں نے ہائیکو کے انداز میں مختصر لفظوں میں جامع بات کہنے کا انوکھا انداز پیش کیا ہے۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں:
میری ہر خواہش چپ ہے
کسی معصوم
اور خاموش…راہبہ کی طرح
————————
بن موسم کے پھول کھلے ہیں
جب سے ہم تم دونوں ملے ہیں
اس کے خط کے لفظ ہیں جگنو
اور لفظوں پر پھول کھلے ہیں

ایک اور انداز ملاحظہ ہو کہ:
تیری آنکھیں
خشک نہیں پر
تیرے آنسو
میرے دل پر
اکثر گرتے رہتے ہیں

جدید شاعری میں آزاد نظم نے بہت سے لوگوں کو شاعر بنا دیا ہے. کئی شعراء اپنی کتاب کا پیٹ بھرنے کے لیے آزاد نظموں کا سہارا لیتے ہیں مگر عروج رضا کے مجموعہ کلام میں شامل آزاد نظموں میں بھی زندگی کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔
یوں توعروج رضا کا پورا مجموعہ کلام ہی پر اثر، سبق آموز اور متاثر کن ہے مگر کتاب کے بیک ٹائیٹل پر مسکراتی تصویر کے نیچے لکھا یہ شعر اپنے اندربہت معنٰی لیے ہوئے ہے:
گر کیجئے جو عشق تو پھر ٹوٹ کر عروج
تھوڑے بہت پہ اپنا گزارہ نہ کیجئے

محترم فرحت عباس شاہ نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ: ”مجھے اگر عروج کے بارے میں ایک مختصر فقرے میں سب سمیٹنا پڑ جائے تو میں یہی کہوں گا کہ ”محبت اس پر مہربان ہے‘‘۔
آخر میں دعا ہے کہ قدرت عروج رضا پر ہمیشہ مہربان رہے اور ان کی شاعری حقیقی معنوں میں انسانی جذبوں کی آئینہ دار ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور علم و عمل میں برکتیں عطا فرمائے(آمین)


عروج رضا منفرد لب و لہجہ کی شاعرہ ہیں۔ اب تک ان کے دو مجموعہ کلام ”ایک تیرا خیال ہے زندگی‘‘ (2000ء) اور”محبت مہرباں ہے‘‘ (2006ء) منظرعام پر آ چکے ہیں جب کہ تیسرا مجموعہ ”تُو ہی تُو‘‘ ابھی زیرِ تکمیل ہے۔ عروج رضا بنیادی طور پرمولانا رومی، فیض احمد فیض، جون ایلیا، احمد فراز، محسن نقوی اور فرحت عباس شاہ کی شاعری سے متاثر ہیں۔ عروج رضا نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کی ڈگری حاصل کی جب کہ جامعہ کراچی سے ایل ایل بی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جرمن نشریاتی ادارہ ”ڈوئچے ویلے‘‘ دی وائس آف جرمنی کی اکیڈمی سے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن میں ڈگری حاصل کی۔ شاعرہ کم عمری میں ہی ریڈیو کے ساتھ منسلک ہو گئیں. مختلف ایف ایم ریڈیو چینلز بالخصوص FM-101 (ریڈیو پاکستان)، FM-103 اورFM-97 وغیرہ سے بطور براڈکاسٹر، پروگرام منیجر اورسٹیشن منیجر کام کرتی رہی ہیں اور کئی بار ”بیسٹ آر جے‘‘ کا اعزاز بھی حاصل کر چکی ہیں. اس کے علاوہ ”ڈوئچے ویلے‘‘ دی وائس آف جرمنی ٹی وی اور ریڈیو سے بھی بطور براڈکاسٹر وابستہ رہی ہیں۔ مارشل آرٹس میں دلچسپی کی وجہ سے شوتوکان میں بلیک بیلٹ ہولڈر ہیں.
عروج رضا نے ماہنامہ نارتھ سٹار، اسلام آباد سے بطور ایڈیٹر اور میڈیا گروپ ”اے وی ٹی چینلز، اسلام آباد‘‘ کے شعبہ ریسرچ میں بھی خدمات سرانجام دی ہیں علاوہ ازیں آپ دیگر ٹیلیوژن چینلز سے بھی منسلک رہی ہیں. ”محبت مہرباں ہے‘‘ عروج رضا کی دوسری کتاب ہے جس پر راشد منصور راشد کا تحریر کردہ تبصرہ قارئین کی نذر کیا گیا۔ (مدیر)

اپنا تبصرہ بھیجیں