’’بچے کی پیدائش کے بعد معزز بلوچ ماں نے خیمے کا در کھول کر دیکھا تو سامنے کا بلند و بالا پہاڑ اپنی جھولی میں رنگارنگ بادل لیے مبارک باد دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا بچے کا نام بادل رکھو۔
ماں نے کہا کہ بادل تو اُڑ جاتے ہیں۔ برس جائیں تو کچھ باقی نہیں رہتا۔ نہیں میں اپنے بچے کا نام بولان رکھوں گی۔‘‘
ہم اس وقت اسلام آباد کے پاک چائنا سینٹر میں ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کا نواں کتاب میلہ جاری ہے۔ پروگرام ہے: ’’پاکستانی زبانوں کا تصنیفی ادب- ماضی، حال، مستقبل‘‘۔ محمد ایوب بلوچ ہمیں بلوچی ادب کی صدیوں میں ساتھ لیے پھر رہے ہیں۔ پاکستان کتنا عظیم ہے۔ کتنا خوش قسمت کہ نئے نام پاکستان سے تو اس کی عمر 70 سال ہے۔ مگر یہ گلدستہ جن زبانوں، تہذیبوں، ثقافتوں کی شیرازہ بندی سے تیار ہوا ہے وہ صدیوں پرانی ہیں۔ پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، براہوی، کشمیری، سرائیکی، پوٹھو ہاری، ہندکو، شنیا، بلتی، کھوا، بروشسکی اور بہت سی۔ ایک سے ایک بڑھ کر دل نشیں، رومان سے مالامال۔ صدیوں سے شعر لکھے جارہے ہیں۔ افسانہ نویسی ہورہی ہے۔ اس نشست کی صدارت منیر بادینی کررہے ہیں، جو ریٹائرڈ بیورو کریٹ ہیں۔ چیف سیکریٹری کے بلند مرتبے تک پاکستان کے مختلف حصوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ خود بہت اعلیٰ پائے کے ناول نگار ہیں۔ بلوچی میں کمال کے ناول لکھے ہیں۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر قاسم بگھیو۔
اب تک ہم انہیں علاقائی زبانیں کہتے رہے مگر اب ہم نے اپنی تصحیح کرلی ہے۔ مطالبہ تو یہ ہے کہ انہیں بھی اپنے ماضی اور اہمیت کے حوالے سے قومی زبانیں بنایا جائے، لیکن اب ہم انہیں پاکستانی زبانیں کہنے تک تو آگئے ہیں۔ اُردو سرفہرست ہے، اس کے بعد یہ سب زبانیں۔ میں مختلف زبانوں کے ادیبوں، شاعروں کی زبانی کہانیاں، نظمیں، غزلیں سن رہا ہوں۔ مجھے فخر ہورہا ہے کہ میں ایسی زرخیز سرزمین سے تعلق رکھتا ہوں جو ادبی اور ثقافتی لحاظ سے اتنی مالا مال ہے۔ ساتھ ساتھ شرمندہ بھی ہوں کہ ہم نے ان زبانوں کا اعلیٰ ادب ایک دوسرے تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ سرفہرست تو ہم انگریزی ادب کو رکھتے ہیں۔ اس کے کہیں بعد اُردو اور یہ اس سرزمین میں سیکڑوں برسوں سے بولی اور لکھی جانے والی زبانوں کے ادب کو ان کے اعلیٰ معیار، تخیل کی بلند پرواز اور تازگیٔ فکر کے مطابق اہمیت نہیں دیتے۔ اپنی اپنی مادری زبان میں سب پاکستانی بہت ہی بلند پایہ ادب تخلیق کررہے ہیں جس میں وہ تلخ حقائق بھی ہیں جن کا انہیں سامنا ہے۔ لیکن یہ سب محسوسات انتہائی دل نشیں تخلیقی پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے۔ نعرے بازی نہیں ہے۔ یہ شاعری، یہ افسانوی ادب کسی طرح بھی روسی، یورپی، امریکی ادب سے کم نہیں ہے۔
مجھے یاد آتا ہے کہ امریکہ کے ایک ادبی انتخاب میں مولف نے لکھا تھا کہ امریکہ خوش قسمت ہے کہ اس کے قدیم باشندوں کے ادب میں ترک وطن کرکے آنے والے ہسپانوی، ایشیائی، عربی، ایرانی، چینی اہلِ قلم نے ہماری تہذیب کو مالا مال کیا۔ تمدن کو دوچند کیا، ہمارے ادب میں نئے رنگ بکھیرے۔
پاکستان بھی امریکہ کی طرح خوش بخت ہے کہ یہاں کتنی زبانیں تو پہلے سے ہی لوک بولیوں، لوک کہانیوں، گیتوں، شاعری اور افسانوں سے کتنی نسلوں کے دل گرما رہی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد برصغیر کے مختلف علاقوں سے آنے والے اپنے ساتھ متنوع روایات، اقدار، ادبی رجحانات لے کر آئے اور اس سرزمین کو مزید حسین اور امیر بنا دیا۔ بھول جائیں کچھ دیر کے لیے ان قوتوں کو جو علاقائی تعصبات پیدا کرکے پاکستانیوں کو ایک دوسرے سے دُور کرتی ہیں۔ ان میں سیاسی، غیر سیاسی، جمہوری، غیر جمہوری سب شامل ہیں۔ ذرا دل میں جھانک کر دیکھیں۔ جب مختلف تہذیبیں آپس میں ملتی ہیں تو ایک زیادہ رنگارنگ زیادہ طاقت ور تہذیب جنم لیتی ہے۔
اکادمی ادبیات اپنے طور پر کوشش کرتی رہی ہے، ساری پاکستانی زبانوں کے ادب کو اُردو میں منتقل کرکے شائع کرتی رہی ہے۔ لیکن مجھے بک ٹرسٹ آف انڈیا کی کوشش برسوں پہلے بہت اچھی لگی تھی۔ وہ بھارت میں بولی جانے والی ساری زبانوں سے شاعری اور افسانوں کا انتخاب کرتے ہیں اور ہر زبان کے ادب کا باقی سب زبانوں میں ترجمہ شائع کرتے ہیں، صرف ایک قومی زبان میں نہیں۔ اس طرح ہر زبان بولنے والا اپنے ملک کی دوسری زبانوں کے ادب سے ہر سال آشنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ کوشش محدود بھی ہے اور یک طرفہ بھی۔
کتاب میلے لائق تحسین ہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید، نیشنل بک فائونڈیشن کے میلے کو بڑی محبت اور محنت سے سجاتے ہیں۔ ساری زبانوں کے بزرگ اور نوجوان تخلیق کار ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ الفت بڑھتی ہے۔ غلط فہمیاں دُور ہوتی ہیں۔
صدر مملکت جناب ممنون حسین بھی افتتاحی تقریب میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف سے ایک اچھا کام بھی کروا لیا گیا تھا۔ یہ یقیناً عرفان صدیقی کی کوششوں کا نتیجہ ہوگا۔ کیوں کہ وہ تحریر سے سرکار کی طرف گئے ہیں. ادب و ثقافت سے متعلقہ سارے ادارے ایک ڈویژن میں شامل کرلیے گئے جسے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کا نام دیا گیا۔ 50 کروڑ کا فنڈ بھی قائم کردیا گیا۔ صدر ممنون اُردو میں بہت شستہ خطاب کرتے ہیں۔ شین قاف حیران کن حد تک درست ہے۔ ہمارے حکمرانوں میں یہ روایت ناپید رہی ہے۔
چار دن کے میلے میں بزرگوں، خواتین، نوجوانوں، بچوں سب کے لیے پروگرام تھے۔ مگر مجھے تو پاکستانی زبانوں کے پروگرام نے اپنا اسیر کرلیا۔ بلوچی، پشتو، پنجابی، سندھی، شینا، سرائیکی اور پوٹھوہاری میں کتنی گہرائی ہے۔ تخیل کتنا بے کراں، درد اور کرب کتنا میٹھا، عدیل برکی نے بلھے شاہ، باہو، شاہ حسین بہت مختصر مختصر سنا کر محفل لوٹ لی۔ اقدس ہاشمی میاں محمد بخش کے کلام کے ذریعے دِلوں میں اُتر گئے۔ وقت کی کمی اس کیف پر اثر انداز ہوتی رہی۔
جس سرزمین کی فضائوں میں بلھے شاہ، سلطان باہو، خواجہ فرید، شاہ حسین، شاہ لطیف، سچل سرمست، رحمان بابا کی کافیاں، بولیاں، سُر گونج رہے ہوں، اس سے زیادہ طاقت ور تہذیب کس کی ہوسکتی ہے۔ ہمارا دفاع مضبوط ہے۔ ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑی توانائی ان صوفیائے کرام کا کلام ہے جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے۔ ہمیں زندہ رہنے کے قرینے سکھاتا ہے۔ اپنے خالق سے مخلوق کا رشتہ جوڑتا ہے۔ مذہب کا استحصال کرنے والوں سے خبردار کرتا ہے۔
بلوچستان کے بنجر پہاڑوں، بکھری ہوئی آبادیوں میں قدیم و جدید بلوچی شاعری انسانوں میں ملکی اور غیر ملکی حملہ آوروں کے مقابلے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ لاپتہ نوجوانوں کی جستجو کی ہمت دلاتی ہے۔ سندھ کے ریگزاروں، کچے علاقوں میں شاہ لطیف، سچل سرمست کا کلام اپنے حقوق کے حصول کے لیے ولولۂ تازہ دیتا ہے۔ پنجاب میں بلھے شاہ، باہو، خواجہ فرید، وارث شاہ، میاں محمد سچل کے بولی سر اٹھا کر جینے کی تحریک پیدا کرتے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں رحمان بابا، خوشحال خان خٹک انسانوں میں پہاڑوں جیسی سربلندی پیدا کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر، فاٹا، ہر علاقے میں صدیوں سے تخلیق پاتی شاعری، لوک کہانیاں زندگی سے محبت اُبھارتی ہیں۔
یہ ہے میرا اور آپ کا پاکستان، تصورات، تخیل، تشبیہات اور درد کی متاع سے بھرپور۔ بھول جائیں حکمرانوں کے پاکستان کو تو آپ سرور، کیف اور لطف سے سرشار ہوجائیں گے۔ مایوسیاں کبھی حملہ نہیں کریں گی۔ کاش ہمارا میڈیا ہفتے میں صرف ایک گھنٹہ ریٹنگ کی قربانی دے کر پاکستانی زبانوں کے ادب کے حوالے سے پروگرام نشر کردیا کرے۔ اُمید کے لازوال دیے روشن ہوسکتے ہیں۔
(جنگ)