-
بچوں کے ادب کی سرپرستی کے بغیر جذبہ حب الوطنی کو فروغ دینا ممکن نہیں
-
نئی نسل کی کردار سازی اور علم و عمل کے میدان میں سچا پاکستانی بنانے کے لیے صوبائی وقومی سطح پر ”وزارت اطفال کا قیام فوری عمل میں لایا جائے‘‘
-
پرائمری سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک بزم ادب کے پیریڈ کو ہفتہ وار یکسوئی سے یقینی بنایا جائے
-
کالجز کی طرح سکولوں میں بھی سکول میگزین کا اجراء کیا جائے
پاکستان میں بچوں کا ادب ہمیشہ سے بے اعتنائی کا شکار رہا ہے۔ سابقہ حکومتوں نے بچوں کے ادب اور ادیب کی سرپرستی کا ذمہ لیا جس میں نیشنل بک فائونڈیشن اور دعوة اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد میں شعبہ بچوں کا ادب نے فعال کردار ادا کیا لیکن گذشتہ چند سالوں میں بچوں کے ادب و ادیب کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا گیا اور بچوں کے ادب کا کوئی پرسانِ حال نہ رہا۔ ایسے میں پاکستان میں بچوں کے لیے لکھنے والوں اپنے طور پر اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کے ادیبوں کو ایک پلیٹ فارم ”کاروانِ ادب پاکستان‘‘ مہیا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی ملک گیر تحریک بن گئی جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے بچوں کے رسائل اور نوجوان اہلِ قلم اس تحریک کا حصہ بن گئے۔ کاروانِ ادب پاکستان جہاں پاکستان میں ادیبوں کی تربیت، بچوں کے لیے لکھی کتب کی پذیرائی و مذاکرات کا اہتمام کرتا ہے وہاں ہر سال کاروانِ ادب کانفرنس کا انعقاد بھی بروئے کار لاتا ہے جس میں سیکڑوں ادیب جمع ہو کر بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ امسال بھی دو روزہ کاروانِ ادب کانفرنس 2015ء کا اہتمام لاہور میں کیا گیا جس میں ملک بھر سے سیکڑوں بچوں کے ادیبوں و مدیران رسائل، دانشور وں اور مشاہیر کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور اس کانفرنس کو پاکستان میں بچوں کے ادب کی تاریخ ساز کانفرنس قرار دیا گیا۔
پہلے روز یعنی 22 مارچ 2015ء کی روشن دوپہر تھی، کاروانِ ادب کانفرنس کے میزبان ندیم اختر، اظہر عباس، کاشف بشیر کاشف اور وسیم کھوکھر ملک بھر سے آنے والے قلم کاروں کا استقبال کر رہے تھے۔ مغرب سے پہلے تک پاکستان بھر سے 100 سے زائد مہمانان آچکے تھے۔ نمازِ مغرب کے بعد استقبالیہ اور کانفرنس کے پہلے سیشن ”ایک شام، مدیرانِ رسائل کے نام‘‘ کا آغازہوا۔ کاروانِ ادب کانفرنس 2015ء کے کوارڈینیٹر اظہر عباس نے افتتاحی اجلاس میں شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے معزز مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور کانفرنس کی نظامت خواجہ مظہر صدیقی کو تفویظ کی۔
پہلا سیشن: ایک شام، مدیران رسائل کے نام
نقیب مجلس خواجہ مظہر صدیقی نے حاجی لطیف کھوکھر کو دعوت دی کہ وہ تلاوت قرآن حکیم سے کانفرنس کا باقاعدہ آغاز کریں۔ تلاوت کے بعد تقریب کے خاص مہمانوں جناب اختر عباس (معروف ادیب ودانشور)، جناب اشفاق احمد خاں (ایڈیٹر آفاق انسائیکلو پیڈیا لاہور)، جناب طارق حسین (ڈائریکٹر رابعہ بک ہائوس لاہور)، جناب ندیم اختر (بانی ممبرکاروانِ ادب پاکستان)، جناب محبوب الٰہی مخمور (چیف ایڈیٹر ماہنامہ انوکھی کہانیاں کراچی)، جناب سید فصیح اللہ حسینی (ایڈیٹر ماہنامہ ساتھی کراچی)، جناب علی حسن ساجد (ایڈیٹر ماہنامہ جنگل منگل کراچی)، جناب اشرف سہیل (چیف ایڈیٹر ماہنامہ پکھیرو لاہور)، جناب فرخ شہباز وڑائچ (ایڈیٹر ماہنامہ پیغام ڈائجسٹ لاہور)، جناب سعید سعیدی (ایڈیٹر ماہنامہ بزم منزل کراچی)، جناب آفتاب شاہ (ایڈیٹر ماہنامہ بزم قرآن لاہور)، جناب تصور عباس سہو (ایڈیٹر بچوں کا گلستان خانیوال)، جناب امان اللہ نیئر شوکت (چیف ایڈیٹر بچوں کا پرستان لاہور) اور جناب ڈاکٹر ضیغم مغیرہ (چیئرمین الفلاح سکالرشپ سکیم) کو سٹیج پر جلوہ افروز ہونے کی دعوت دی گئی۔
جناب ڈاکٹر ضیغم مغیرہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کاروان ادب اسم بامسمیٰ ہے۔ آدم کو علم و حکمت کی وجہ سے ملائکہ پر فضیلت دی گئی۔ جناب نورمحمد جمالی (بلوچستان) نے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کاروان ادب کی کوششوں کو سراہااور بلوچستان کی نمائندگی دینے پر شکریہ ادا کیا۔ محترمہ رابعہ حسن (آزاد کشمیر) نے کہا کہ میرا تعارف قلم اور کتاب ہے۔انہوں نے مدیرانِ رسائل سے درخواست کی کہ نئے لکھنے والے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ محترمہ راحت عائشہ نے رسائل و جرائد کی افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے لکھنا انہی رسالوں کے مطالعہ سے آیا۔ نوجون صحافی جناب سید بدر سعید نے بچوں کے ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے کاروان ادب کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ لیہ سے ساہیوال اور ساہیوال کے بعد لاہور کو ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنانا جان جوکھوں کا کام ہے اور بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے یہ تحریک اپنی مثال آپ ہے۔ جناب علی حسن ساجد (کراچی) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب تک بچے ہیں تب تک بچوں کا ادب ہے. جناب فرخ شہباز وڑائچ (ماہنامہ پیغام) نے کہا کہ بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے نئے آئیڈیاز پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جناب طارق حسین (رابعہ پبلشرز) نے کہا کہ بچوں کا رشتہ کتاب اور قلم سے ہٹ کر جدید ذرائع ابلاغ کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ ان کو کتابوں کی طرف راغب ہونے کے لیے انداز میں جدت لانی ہو گی اور ہمہ پہلو ادب تخلیق کرنا ہو گا۔ جناب نوشاد عادل (کراچی) نے کانفرنس کی بچوں کے ادب کے حوالہ سے خدمات کو سراہا اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ جناب اشفاق احمد خاں (آفاق انسائیکلو پیڈیا) نے رسائل کے مدیران کی بچوں کے ادب کے حوالہ سے کاوشوں کو سراہا۔
دوسرا سیشن: بچوں کے ادیبوں کے مابین تقریب بہر ملاقات
کانفرنس کے پہلے دن کے دوسرے سیشن ”تقریب بہر ملاقات‘‘ کی صدارت معروف ناول نگار جناب امجد جاوید نے کی۔ جب کہ مہمانان گرامی میں معروف ناول نگار عبدالرشید عاصم، بچوں کے پسندیدہ ادیب عبدالرشید فاروقی، معروف ادیب اعجاز احمد اعجاز، بچوں کے معروف ادیب احمد عدنان طارق، کوارڈی نیٹر کانفرنس اظہر عباس، ایوارڈ یافتہ مصنف ڈاکٹر افضل حمید، چیئرمین پاکستان رائٹر پوائنٹ رانا راشد علی خان، بچوں کی معروف ادیبہ رابعہ حسن، بچوں کی مصنفہ راحت عائشہ، معروف کہانی نویس محمد ناصر زیدی، سابق مدیر شہباز جاوید نور اور حق نواز چشتی تھے۔ اس نشست میں مجلس میں شریک تمام احباب نے فرداََ فرداََ اپنا مختصر مگر جامع تعارف کروایا۔ اس سیشن سے خطا ب کرتے ہوئے کاروانِ ادب پاکستا ن کے بانی ممبر ندیم اختر نے کہا کہ کاروان ادب پاکستان کوئی باضابطہ ادارہ نہیں بلکہ یہ بچوں کے ادیبوں کی ایک ایسی تحریک ہے جو میں بچوں کے لیے لکھنے والے اور مدیران رسائل سمیت وہ تمام شخصیات اس کا حصہ ہیں جو ادب سے وابستہ ہیں۔
دوسرے دن کاروانِ ادب پاکستان کی دوسرے روز پہلی نشست چلڈرن لائبریری کمپلکس، لاہور میں منعقد ہوئی۔ معروف ناول نگار، افسانہ نگار محترم جناب انتظار حسین (ستارہ امتیاز ) جب کہ مہمانانِ گرامی میں معروف دانشور و ادیب اختر عباس، معروف ڈرامہ نگار یونس جاوید (پرائیڈ آف پرفارمنس)، ایڈیٹر آفاق انسائیکلو پیڈیا اشفاق احمد خان، کوارڈی نیٹر آفاق محمد زمان، پراجیکٹ آفیسر دوآبہ فائونڈیشن محمد سمیر خان نیازی تھے۔ اس روز کی نظامت جاوید نور، صابر عطا ء، رابعہ حسن اور محمد وسیم کھوکھر نے کی۔
پہلا سیشن: بچوں کی تعمیرشخصیت میں اہل قلم کا کردار (مقالہ جات)
پہلے سیشن کے آغاز میں بانی کاروانِ ادب پاکستان کاشف بشیر کاشف نے کاروان ادب پاکستان اور کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کاروانِ ادب پاکستان کا آغاز تین سال قبل میرے سمیت ندیم اختر، عبداللہ نظامی، محمد وسیم کھوکھر نے سوشل میڈیا کے توسط سے پرانے وہ لکھنے والے جو کئی دہائیوں سے لکھنا چھوڑ چکے تھے انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاکرنے کے لیے کیا۔ الحمراء میں عطاء الحق قاسمی کی زیر صدارت جس کے مہمان خصوصی انسپکٹر جمشید سیریز کے خالق اشتیاق احمد تھے، احمد عدنان طارق کی کتاب ”بارش اور گلاب‘‘ کی تقریب رونمائی اور شیخوپورہ میں جس کے میزبان قاسم سرویا تھے مذاکرہ ”بچوں کے ادب میں مضافاتی ادیبوں کاکردار‘‘ کا انعقاد کیا. دوسرے سیشن میں بچوں کی تعمیر شخصیت میں اہل قلم کا کردار‘‘ کے موضوع پر اشرف سہیل، محبو ب الہی مخمور، ڈاکٹر طارق ریاض خاں (سائنسی بابو) اور ڈاکٹر افضل حمید نے مقالہ جات پیش کیے۔
اشرف سہیل (ماہنامہ پکھیرو) نے اس نشست میں شرکاء سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے ادب کی ابتداء بچپن میں بڑوں سے سنی گئی کہانیوں سے ہوئی۔ انہوں نے بچوں کے لیے لکھنے والے اہل قلم کا مفصل تعارف کروایا۔ جناب ڈاکٹر طارق ریاض خاں (سائنسی بابو) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شخص مر جاتا ہے لیکن شخصیت زندہ رہتی ہے۔ بیج خواہ کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو جب تک اس کو سازگار ماحول میسر نہ ہو گا اس وقت تک وہ ایک تناور درخت نہیں بن سکتا۔
جناب محبوب الٰہی مخمور (مدیر انوکھی کہانیاں) نے شرکاء سے خطاب کے دوران کہا کہ درسی کتب سے حاصل ہونے والی تعلیم صرف معاشی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔رسائل و جرائد کا مطالعہ بچے کو اخلاقی آسودگی مہیا کرتا ہے۔ جناب ڈاکٹر محمد افضل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لکھنے والے دستار اور معاش کے لیے لکھ رہے ہیں اس لیے ان کی تخلیقات میں اثر باقی نہیں رہا۔ جناب اشفاق احمد خاں نے شرکاء سے مخاطب ہو کر کہا کہ بچے ملک و قوم کے معمار اور اثاثہ ہیں۔ محمد زمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے آفاق رائٹرز فورم کا تعارف کروایا۔جناب سمیر خان نیازی نے ملک میں رونما ہونے والی آفات کے حوالے بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ اہل قلم اپنا کردار ادا کریں اور اپنی تحریروں میں آفات سے بچائو کے حوالے سے بھی تحریروں کا حصہ بنائیں۔ صدر محفل معروف ناول نگار، افسانہ نگار محترم جناب انتظار حسین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ادارے، انجمنیں اور افراد بچوں کی تربیت کے حوالے سے خاصے متفکر ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لکھاریوں کو رائے دی کہ بچوں کا ادب تخلیق کرتے وقت بچوں کی کیفیت کو خود پر طاری کر لیا کریں۔
دوسرا سیشن: نوجوان اہل قلم کی اگلی منزل، ڈرامہ نگار ی
دوسرے سیشن کی صدارت معروف ڈرامہ نگار یونس جاوید جب کہ مہمان خاص گل نوخیر اختر ،اور مہمانان گرامی میں اختر عباس، منیر احمد راشد، علی حسن ساجد، امجد جاوید اور نوشاد عادل تھے۔ معروف کالم نگار گل نو خیز اختر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مضمون میں ایسی کیفیت پیدا کرنی چاہیے کہ پڑھنے والا بوریت محسوس نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ کاروانِ ادب نے بچوں کے ادب کی زوال پذیر صورتحال کو بہتر بنانے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے، اس کے مضبوط اور فعال کردار کے نتیجہ میں بچوں کے ادب کو نئی جان مل گئی ہے۔ مشہور ڈرامہ ”اندھیرا اُجالا‘‘ کے خالق جناب یونس جاوید نے کہا کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا ہمیشہ اہم مگر نازک مسئلہ رہا ہے کیوں کہ اس کے لیے جہاں بچوں کی نفسیات، رجحانات، معاشرت اور ماحول کا دقیق علم درکار ہے وہاں بچوں کے فہم و ادراک کی سطح پر اُتر کر تحریر کرنے اور سمجھانے کا فن بھی نہایت ضروری ہے۔
تیسرا سیشن: بچوں کے لیے لکھی گئی کتابوں کی تقریب رونمائی
اس سیشن کی صدارت محبوب الہی مخمور ایڈیٹر ماہنامہ انوکھی کہانیاں، جب کہ مہمانِ اعزاز اختر عباس اور مہمانان گرامی میں ندیم اختر، رابعہ حسن، احمد عدنان طارق، نوشاد عادل، طارق حسین، عبدالصمد مظفر، طاہر عمیر، محمد علی تھے۔ اس سیشن میں 15 کتابوں کی تقریب رونمائی کی گئی جس میں گائیڈ پبلی کیشنز کی جانب سے محبو ب الہی مخمور اور نوشاد عادل کی مرتبہ ”بچو ں کے ادیبوں کی آپ بیتیاں‘‘، رابعہ حسن کی کتاب ”پنتیس سال بعد‘‘، اختر عباس کی نئی کتاب ”ڈریگن کی واپسی‘‘ اور رابعہ بک ہائو س لاہور کی جانب سے شائع ہونے والی بارہ ادیبوں کی کتابیں جن میں سنہر ی کرن عبدالصمد مظفر، انعامی لائبریری اعظم طارق کوہستانی، نیاعزم نیا حوصلہ فصیح الدین حسینی، شرارت کی چالاکی ندیم اختر، مار نہیں پیار محمد علی، بیس روپے کا نوٹ سائرہ غفار، خواہش سے تکمیل تک افروز فاطمہ، تتلیاں اور ستارے علی عمران ممتاز، سچے رشتے حافظ نعیم سیال، احساس حیدر علی، صندوق کا راز رابعہ شاہین اور امید کے جگنو طاہر کی کتابیں شامل ہیں۔
اختر عباس نے سال 2015ء کے تین مہینوں میں اتنی ساری بچوں کی کتابوں کی اشاعت کو بچوں کے ادب کی کامیابی قرار دیا۔
کانفرنس کا اعلامیہ:
دو روزہ سالانہ کاروانِ ادب کانفرنس کے پانچ سیشنوں کے مقررین نے اجتماعی طور پر اپنے اپنے خطاب میں حکومت پر زور دیتے ہوئے مطالبہ پیش کیے کہ نئی نسل کے کردار سازی اور انہیں علم و عمل کے میدان میں محبت وطن پاکستان بنانے کے لیے صوبائی و قومی سطح پر ”وزراتِ اطفال‘‘ کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دینی، علمی ادبی، سیاسی و سماجی سطح پر کی جانے والی بین الاقوامی، قومی و صوبائی سطح پر منعقد کی جانے والی سرکاری کانفرنسز میں بچوں کے ادیبوں کو بھی مدعو کیا جائے۔ انہوں نے مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ سکول سطح سے لے کر یونیورسٹی سطح پر بچوں، نوجوانوں کے لیے بزم ادب کے پیریڈ کو بحال کیا جائے اور کالجز کی طرح سکول سطح پر بھی بچوں کے لیے سکول میگزین کا اجراء کیا جائے جس سے پرائمری سطح سے ہی میں لکھنے اورمطالعہ کا شوق پیدا ہوگا۔ قومی و صوبائی حکومتی بجٹ کے اندر بچوں کے ادب اور ادیبوں کے لیے بھی فنڈز مختص کیے جائیں اور اکادمی ادبیات کے طرز پر ڈویژنل سطح پر ادارے قائم کیے جائیں۔