کسی بھی ادارے کے سربراہ قابل اور کام کرنے والے ھوں تو کھنڈر کو بھی ادارہ بنا دیتے ہیں اور اُن کے اندر نئے خیالات اور ویژن مضبوط ہوں تو ادارے ”اپنی مثال آپ‘‘ کی منہ بولتی تصویر بن جاتے ہیں- نیشنل بُک فاؤنڈیشن کا چارج جب ڈاکٹر اِنعامُ الحق جاوید نے سنبھالا تو اِس ادارے کے نام پر کوئی خاطر خواہ کام نہ ھونے کے برابر تھا. 1972ء میں پارلیمنٹ میں ایک قرارداد کے نتیجہ میں یہ ادارہ دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ھوا جس کا مقصد سستی کُتب مہیا کرنا اور کتاب بینی کو فروغ دینا تھا. یہ ادارہ اِس مقصد پر بن تو گیا مگر اس کے نین نقش کوئی زیادہ واضح نہ ھو سکے. کئی لوگ سربراہ رہے اور اپنی بساط کے مطابق کام بھی کرتے رہے مگر ڈاکڑ انعامُ الحق جاوید کا چارج سنبھالنا تھا کہ اس میں اِنقلاب برپا ہوا-
ڈاکٹر انعام الحق جاوید مختلف اداروں میں خدمات سر انجام دے چکے تھے، جِن میں مُقتتدرہ قومی زبان، ادارہ ادبیات، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور الخیر یونیورسٹی شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ بطور مزاح نگار اور شاعر اُنہیں بے مثال کامیابیاں ملیں. ایک وقت تھا کہ بیرون ممالک میں کوئی بھی مزاحیہ مشاعرہ ھوتا تو انور مسعود، سید ضمیر جعفری، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، سرفراز شاھد اور خالد مسعود کو ضرور مدعو کیا جاتا، جس میں کمی ڈاکٹر انعام الحق جاوید کےحوالے سے اس ادارے کا سربراہ بننے کے بعد آئی. یہ قومی ذمہ داری تھی جس پر ذاتی شہرت کو زیرِ خاطر نہ لایا گیا- دیکھتے ہی دیکھتے نیشنل بُک فاؤنڈیشن کا نقشہ ہی بدل گیا. ادارے کے اندر میوزیم قائم ھوا، سستی کتابیں شائع ھونے لگیں، نئے آوٹ لٹس پاکستان کے ھر بڑے شہر میں کُھلنے لگے. یونیورسٹیوں کے اندر سستی کُتب کو میسر بنانے کے لیے معاہدے کئے جانے لگے. ائیر پورٹس اور ریلوے سٹیشنوں پر خاص طور پر آوٹ لٹ قائم کی گئیں اور اسلام آباد جیسے بے رونق شہر میں “کتاب میلہ‘‘ سجنے لگا. پورے ملک سے ادیب، شاعر، دانشور، صحافی اور عوام کا ایک جم غفیر اِس میلے کا رُخ کرنے لگے. کئی مُنتخب اور مُتحرک ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کو نیشنل بُک فاؤنڈیشن کا “سفیرِ کتاب‘‘ مقرر کیا جانے لگا. یہ ایک ایسی تکریم تھی جو کہیں کسی سوچ میں ابھی تک موجود نہیں تھی. درحقیقت اس سب کا مقصد لوگوں کو کتاب سے جوڑنا تھا اور کتاب سے محبت کی ترغیب دینا تھا-
کتاب میلے میں ہر سال پاکستان بھر سے ادیب اور شاعر شریک ھوتے ہیں اور جِسے “سفیرِ کتاب‘‘ مُنتخب کیا جاتا ہے، اس کے بڑے بڑے پوسٹرز پورے شہر کی شاہراہوں کے کھمبوں پر آویزاں کر دیے جاتے ہیں. یقین کریں یہ سب دیکھ کر ادب سے وابستگی پر فخر کا احساس ھونے لگتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ اگر کام کرنے والا دماغ ہو، محنت اور لگن ہو تو کسی بھی ادارے کو کہیں کا کہیں پہنچایا جا سکتا ہے. جس میوزیم کی میں نے اوپر بات کی اس میں کئی نامور ادیبوں کے مُجسمے بنائے گئے ہیں اور اُن کے نام سے گوشے مُختص کئے گئے ہیں جن میں قائدِ اعظم محمد علی جِناح، علامہ مُحمد اقبال، فیض احمد فیض، سعادت حسن مَنٹو اور احمد ندیم قاسمی شامل ہیں. یہ مجسمے ادارے کے سابقہ مینجنگ ڈائریکٹرمظہرالاسلام نے بنوائے مگر باقی کا پورا کام اب مکمل ہوا ہے.
یہاں “رائٹرز وال‘‘ بھی بنائی گئی ہیں جن پر کئی اینٹیں ہیں اور ہر اینٹ پر ھر پہچان رکھنے والا شاعر، ادیب سنہری قلم سے دستخط کر سکتا ہے. یہ قلم اِنتظامیہ کی طرف سے مہیا کیا جاتا ہے. یہ ایک قدر دانی ہے جو دلوں میں جوت جگا دیتی ہے کہ ”کتاب سے محبت کرو، ادب سے محبت کرو‘‘- اِس ادارے کو ادارہ بنانے میں جناب عرفان صدیقی اور محترم عطا الّحق قاسمی کا بھی ذھن شامل ہے، البتہ عرفان صدیقی چوں کہ اس ادارے کے براہِ راست وزیر ہیں، اُن کی ادارے کے لیے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی طرف سے کی گئی کوششوں کی منظوری قابلِ ستائش بات ہے. بلا شبہ ان کی دلچسپی کی وجہ نے بھی ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو کُھل کر بہترین کام کرنے کا موقع فراھم کیا ہے۔
نیشنل بُک فاؤنڈیشن گزشتہ سال سے ”ادارہ ٹیکسٹ بک بورڈ‘‘ کی کتابیں بھی شائع کر رہا ہے اور اس کوشش کا ہزاروں طلباء کو براہِ راست فائدہ حاصل ھو رھا ہے جو کہ ”سستی کتاب‘‘ کی شکل میں ہے- نیشنل بُک فاؤنڈیشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ ادارہ تقریباََ ہر روز ایک نئی کتاب شائع کرتا ہے جو کہ بہت بڑی بات ہے- خام کاغذ کے حُصول کے لیے باقاعدہ اِشتہارات کے ذریعے ٹینڈر کیا جاتا ہے اور سب سے کم اور بہتر کوالٹی کے کاغذ کو پاس کیا جاتا ہے. اس عمل کے شفاف ھونے کی وجہ سے ادارے کو گزشتہ تین سالوں میں کئی کروڑ کی بچت ہوئی ہے. چَھپائی کا کام بھی کسی ایک پبلشر کے بجائے کئی پبلشرز کو تقسیم کر کے دیا جاتا ہے تاکہ کسی کی اجارہ داری قائم نہ ھو سکے اور ریٹ کم سے کم میں یہ کام لیا جا سکے-
میرے لیے بھی یہ اعزاز اور فخر کی بات ہے کہ میں بھی گزشتہ دو سال سے نیشنل بُک فاؤنڈیشن کا “بُک ایمبیسڈر‘‘ ھوں- پاکستان میرا آنا جانا اپنے ماربل کےکاروبار کی وجہ سے لگا رہتا ہے اور اس طرح ادبی اداروں میں آمدورفت کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، یوں اپنی ادیب برادری سے مُلاقاتیں بھی چلتی رہتی ہیں. گزشتہ ایک سال پہلے تک میں نے پاکستان میں بے حد مشاعرے پڑہے یہاں تک کہ ہفتے میں اگر سات دن ہیں تو چار دن مشاعروں پر خرچ ہو جاتے. یہ سلسلہ تب تھما جب تھوڑا رُک کر غور کیا اور سمجھ آئی کہ اصل کہانی مشاعرے نہیں تخلیق ہے اور پھر خدا نے بے حد عزت سے نوازا. میں مشاعروں کی کسی دوڑ میں نہیں مگر میرے لیے یہ بات باعثِ احترام ہے کہ معتبر علمی و ادبی حلقوں میں میری بات کو سنجیدہ لیا جاتا ہے-
اس بار سفر اسلام آباد کا تھا. گزشتہ ہفتے ھمارے محترم راجہ اَخمت حیات کی صاحب زادی کی شادی تھی. اُن کا دعوت نامہ آیا جو مجھے بھی اپنے چھوٹے بھائیوں، بیٹوں کی طرح سمجھتے ہیں تو مُجھ پر فرض تھا کہ میں شریک ھوتا. شادی اسلام آباد میں تھی، مجھے خیال آیا اگر ڈاکٹر انعامُ الحق جاوید صاحب اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا وقت دیں تو کیوں نا کے ساتھ ایک کپ چائے پی جائے. آخر NBF کے ھم بھی ”بُک ایمبسڈر‘‘ ہیں. ڈاکٹر صاحب کو کال کرنے کی دیر تھی، دوسری طرف ھر لفظ محبت تھا. فوری حکم ملا کہ میرے آفس پہنچو. وہ دن ہفتہ کا تھا. میں فوراََ چل پڑا. رستے میں خیال آیا کہ آج تو چُھٹی ھوتی ہے تو ڈاکڑ صاحب کی عزت اور دل میں بڑھ گئی کہ نہ صرف ڈاکڑ صاحب شلوار قمیض میں گھر سے تشریف لائے بلکہ ایک دو عملے کے افراد کو بھی دفتر بُلوا لیا. خاص طور پر میرے لیے میوزیم کُھلوایا، میرے ساتھ نوجوان شاعر اور اینکر وقاص عزیز بھی تھا جو آج کل بے رونق اسلام آباد کو با رونق کر رھا ہے اور میری ہی دعوت پر شادی میں شریک ھوا اور وھاں سے ڈاکڑ صاحب کے ساتھ ملاقات میں بھی ساتھ ھو لیا- ھر وقت کا آوٹ سپوکن جہاں نہیں بولنا ھوتا وھاں بھی ضرور بولتا ہے مگر نئی نسل کے مُشاعروں کا آغاز وقاص عزیز کا ایک اھم کام ہے جو جاری رھنا چاہیے- ھم جب ڈاکٹر اِنعام الحق جاوید کے پاس پہنچے تو ڈاکڑ صاحب کو مُنتظر پایا. میٹھی طبعیت اور دھیما پن ڈاکٹر اِنعام الحق جاوید کا خاصہ ہے. ھمارے ھمراہ خوبصورت شاعر اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اھم اِنتظامی افسر اصغر عابد کو ھمراہ بھیجا کہ میوزیم اور کُتب خانہ دکھا کر لائیں.
جس طرح انہوں نے بریفِنگ دی اور ایک ایک چیز دکھائی، اِس ادارے پر رشک آنے لگا. شاہ جہاں کے دور سے بھی پہلے کے نایاب قرانِ مجید کے نُسخے تک یہاں موجود ہیں اور تاریخی زبانوں کے رسم الخط اس عجائب خانہ کے دروازے پر درج ہیں۔ نظامی گنجوی کا گوشہ بھی خوبصورتی سے بنایا گیا ہے. اس کے علاوہ غالب، شاہ عبدالطیف بھٹائی، پیر وارث شاہ اور شکسپیئر کے گوشے بھی بے حد توجہ کا مرکز ہیں-
پہلی بار اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں کے نایاب لڑیچر کی جھلک اس میوزیم میں دکھائی دی- ایک Book Tree بھی بنایا گیا ہے جس کی ھر پتی، کتاب ہے اور ھر کتاب کے اوپر کچھ نہ کچھ حاصلِ کتاب درج ہے- “وال آف رائِٹرز‘‘ کی ایک اینٹ پر مجھے بھی دستخط کرنے کے لیے سُنہری قلم دیا گیا، اُس دن دستخط کرتے وقت اپنے شاعر اور ادیب ھونے پر بہت تکریم محسوس ھوئی اور یہی وہ آئیڈیاز ہیں جو کسی قاری کو، دیکھنے والے کو کتاب سے مزید جُڑنے پر آمادہ کرتے ھیں. وھاں ایک Visitors’ Book بھی رکھی گئی ہے جس پر اِس ادارے اور ڈاکڑ انعام الحق جاوید کے لیے میں نے یہ الفاظ تحریر کیے:
”آج پہلی بار نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے میوزیم کو دیکھنے کا موقع ملا تو دل سے ڈاکٹر اِنعامُ الحق جاوید کے لیے دُعا نکلی کہ ھمارے ملک میں ایسے بھی گوھرِ نایاب موجود ہیں جو ھمارے کل کی گواھی ہیں اور ھمارے حال اور مُستقبل کا سرمایہ ہیں. میں آج نیشنل بُک فاؤنڈیشن میں اتنا نایاب لِٹریچر اور خوبصورت ادبی گیلریاں دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس کر رھا ھوں۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید صاحب آپ کا دل سے شکریہ‘‘
محبت کی بات تھی سو میں نے محبت سے کر دی- مجھے پورا یقین ہے کہ اگر آنے والے چند سالوں میں ڈاکٹر اِنعام الحق جاوید کو کام کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا جائے تو پورے پاکستان میں ”کتاب کلچر‘‘ خوشبو کی طرح پھیل جائے گا۔ آپ بھی کتاب سے محبت کریں اور ایک بار نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد کا وزٹ ضرور کریں-
(دنیا پاکستان)