آج چھٹی کا دن ہے۔ میں اپنے گھر کے ٹیرس پر ہیمنگوے کا ناول The Old man and The Sea پڑھ رہا ہوں۔ یہ ناول میں بیسیوں بار پڑھ چکا ہوں لیکن ہربار اس کے پڑھنے کا مزہ جداہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایک مچھیرا ہے جس کانام سین تیاگو (Santiago) ہے، جوکسی زمانے میں مچھلیاں پکڑنے میں مہارت رکھتا تھا لیکن اب وہ بوڑھا ہوگیا ہے۔ مچھلیاں اُس کے جال میں نہیں آتیں۔ اُس کے ساتھ کام کرنے والے مددگار لڑکے کواُس کے والدین نے مایوس ہو کر کسی اور کشتی پر کام دلوا دیا ہے۔ سین تیاگو ہمت نہیں ہارتا. ایک دن وہ مچھلی کی تلاش میں گہرے سمندوں میں بہت دور نکل جاتاہے، جہاں ایک بہت بڑی مچھلی اس کی ڈوری کے ساتھ لگا کانٹا نگل لیتی ہے لیکن بوڑھے کے بازئوں میں وہ طاقت نہیں رہی کہ وہ مچھلی کو اپنی طرف کھینچ سکے۔ مچھلی اور سین تیاگو کی جہدوجہد تین دنوں اور راتوں پر پھیل جاتی ہے۔ ایسے میں اسے اپنے ساتھ کام کرنے والے مددگار لڑکے کی یاد شدت سے آتی ہے. وہ اپنے بیس بال کے دنوں کو یاد کرتا ہے اوراسے افریقہ کے سنہری ساحلوں پرکھیلتے ہوئے شیروں کی یاد آتی ہے۔ وہ بیتے ہوئے دنوں کو پھر سے دہرانا چاہتا ہے۔
میں ناول کی کہانی سے لطف اندوز ہورہا ہوں. اچانک آسمان پربادلوں کی گھن گرج سنائی دیتی ہے اورساتھ ہی ہواکے جھکڑ چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ درختوں کی ٹہنیاں آندھی سے دہری ہونے لگتی ہیں اورپتے ہوامیں اڑنے لگے ہیں اور پھر تیز بارش شروع ہو جاتی ہے. مجھے ایسا کیوں لگتا ہے میں نے یہ منظرپہلے بھی دیکھا ہے۔ کب اور کہاں؟ شاید بہت پہلے اپنے گائوں میں۔ کیسے دن تھے وہ بھی۔ اب میں آنکھیں بند کرکے ان دنوں کا تصور کروں تو لگتا ہے کسی اور جنم کا قصہ ہے. اپنے گائوں کی تصویر ذہن میں لاتا ہوں تو منیرنیازی کی نظم کی ابتدائی سطریں یادآجاتی ہیں ؎
چھوٹا سا اک گائوں تھا جس میں
دیے تھے کم اور بہت اندھیرا
بہت شجر تھے تھوڑے گھر تھے
جن کو تھا دُوری نے گھیرا
بالکل ایسا ہی گائوں تھا میراجہاں گھرکم تھے اور دیے ان سے بھی کم لیکن آسمان کے افق بہت بڑے تھے یا شاید مجھے ایسا لگتا تھا کیوں کہ اس وقت میری عمر پانچ برس کی ہوگی۔ گائوں کے مکان زیادہ تر کچے تھے۔ گائوں میں اس وقت بجلی نہیں پہنچی تھی۔ سرِ شام ہم لالٹینوں کے شیشے صاف کرتے۔ لالٹینوں کا تیل چیک کرتے۔ کبھی کبھار لالٹین کا شیشہ لو تیز ہونے کی وجہ سے تڑخ جاتا۔
گائوں کے تصورسے میری بہت سی یادیں جڑی ہوئی ہیں. انہیں یادوں کے پردوں سے مجھے گائوں کی بارشوں کی چھما چھم سنائی دیتی ہے۔ بارش کی آمد کا سندیسہ کالی گھٹائیں لاتیں‘ گائوں کے افق تا افق پھیلے ہوئے وسیع آسماں پر سیاہ بادلوں کی چھائونی تن جاتی۔ بارش سے پہلے اکثرتیز ہوا کے جھکڑ چلنا شروع ہوجاتے۔ بیری اوردھریک کے درختوں کی ٹہنیاں ہواکے زورسے سرپٹخنے لگتیں۔ بیری کے درختوں سے پتے اور بیر ٹپ ٹپ گرنا شروع ہوتے۔ ہم بچے مختلف بیریوں کے درختوں کی طرف دوڑ لگاتے اور بیروں سے اپنی جیبیں بھرلیتے۔ گائوں میں بارشوں کی اپنی اہمیت تھی۔ کسانوں کی فصلوں کا دارومدار بارشوں پر تھا‘ ان کی آنکھیں آسمان پربادلوں کوتلاش کرتیں اورہاتھ دعائوں کے لیے بلند ہوتے لیکن جب فصلیں تیارہونے کے قریب ہوتیں توبارش کی آمد ان کی آنکھوں میں تشویش کے ڈیرے جمالیتی۔ مجھے یوں لگتا جس طرح کہانیوں میں جادوگر کی جان ایک طوطے میں ہوتی تھی اسی طرح میرے گائوں کے کسانوں کی جان بارشوں میں تھی۔ کالی گھٹائوں کودیکھتے ہی لوگ گھروں کی چھتوں پرچڑھ جاتے اور کچی چھتوں میں سوراخ بند کرنا شروع کرتے۔ گھر کی چھتوں سے ہم اردگرد آندھیوں کی زد میں آئے درختوں کو دیکھتے جن کی ٹہنیوں کے ساتھ کپڑوں کی لیریں لٹک رہی ہوتیں‘ تیز ہوا سے یہ لیریں بھی جھولتی جاتیں‘ گائوں کے درختوں میں کانٹوں کے ساتھ لٹکی ہوئی یہ لیریں ایک عام سا منظر تھا۔
پھردیکھتے ہی دیکھتے آسمان تاریک ہوجاتا اور زور کا مینہ برسنا شروع ہوجاتا۔ ایسے میں صحن میں بنے ہوئے لکڑیوں کے چولہے کو ڈھانپ دیا جاتا۔ اسی طرح صحن میں بنی تندوری کو بھی کسی چیز سے ڈھک دیتے۔ مرغیوں، بکریوں اور دوسرے جانوروں کو بارش سے محفوظ مقام پر پہنچا دیا جاتا. البتہ اکثر ایندھن میں استعمال ہونے والی لکڑیاں برش میں گیلی ہو جاتیں‘ ایسے میں بارش میں نہانا ہم بچوں کادل پسند مشغلہ ہوتا‘ گھروں کی چھتوں کے پرنالوں سے پانی زوروشور سے بہہ رہا ہوتا۔ مجھے یاد ہے ہمارے گھرکے پرنالے کے نیچے زمین پرایک چوڑا پتھررکھا ہوتا تاکہ پانی پتھرپرگرے اور زمین پر گڑھا نہ پڑے۔ یہ پتھر تیز اورمسلسل پانی پڑنے سے درمیان سے ٹوٹ گیا تھا۔ برسوں بعد جب میں نے شکیب جلالی کایہ شعر پڑھا تومجھے سمجھنے میں ذرا مشکل نہ ہوئی ؎
کیا کہوں دیدہء تر یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں پانی کی جہاں دھار گرے
ہمارے گھر کی قریبی مسجد کے صحن میں ایک گڑھا تھا جہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا اور پھر وہیں سے لوگ برتنوں میں پانی بھر کر لے جاتے۔ دن کی بارشوں کا تجربہ ان بارشوں سے مختلف ہوتا جو رات کو ہوتیں۔ ہم رات کو صحن میں سو رہے ہوتے تو بارش ہمیں گہری نیند سے جگا دیتی۔ ہم بچوں کو والد صاحب اٹھا کر کمر ے میں لے جاتے۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا جہاں چار چارپائیاں بچھی ہوتیں۔ صحن کی چارپائیوں کو دیواروں کے ساتھ کھڑا کر دیا جاتا۔ کچھ ہی دیر میں چھت دو تین جگہوں سے ٹپکنا شروع کر دیتی۔ ٹپکنے والی جگہوں کے عین نیچے فرش پر برتن رکھ دیئے جاتے۔ برتن بھر جانے کے بعد انہیں خالی کر کے وہیں رکھ دیا جاتا۔
بعض اوقات تیز بارش کے ہمراہ اولے پڑنا شروع ہو جاتے اور ہمارے صحن میں جیسے سفید چادر بچھ جاتی۔ ہم ننگے پائوں ان اولوں پرچلتے اپنی مٹھیوں میں اولے اکٹھے کرتے۔ ٹھنڈے یخ اولوں سے ہماری ہتھیلیاں سرخ ہو جاتیں لیکن اُدھڑے بٹنوں والے گریبانوں، ننگے پائوں اور سرخ ہتھیلیوں کے باوجود ہمیں سردی محسوس نہ ہوتی۔ کوئی غیر مرئی طاقت تھی‘ کوئی ناقابلِ بیان جذبہ تھا جس نے ہمیں اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔
کبھی کبھی بارش شروع ہوتی تو کئی دن جاری رہتی۔ کئی دن جاری رہنے والی بارش کو ہم ”جھڑی‘‘ کہتے۔ ہمارے گائوں کے بزرگوں کا کہنا تھا کہ جمعرات کی جھڑی کم ازکم سات دن تک چلتی ہے۔ بارشوں میں مختلف گھروں میں برسات کی مناسبت سے حلوہ بنایا جاتا۔ پکوڑے بنتے اور ”مِسی‘‘ روٹی پکائی جاتی جو اس زمانے میں گائوں کا پیزا ہوتا۔ بارش دن کی ہو یا رات کی، بارش رُکنے کے بعد کے منظر مختلف ہوتے۔ تیزبارش کے بعد گائوں کی گلیوں میں پانی کھڑا ہوجاتا۔ چلنے کے لیے مناسب فاصلوں پر پتھر رکھ دیئے جاتے جن پرقدم رکھ کر چلنا ہوتا۔ ہم بچوں کو پتھروں کے درمیان فاصلہ زیادہ لگتا۔ ہماری کوشش ہوتی کہ دیواروں کے ساتھ ساتھ چلیں کیوں کہ وہاں پانی کم ہوتا۔
بارشوں کے بعد کھلے آسمان پرسات رنگوں کی قوسِ قزح پھیل جاتی۔ گائوں میں ہم قوسِ قزح کو بڑھیا کی پینگ (جھولا) کہتے تھے۔ ہم قوسِ قزح کے ان رنگوں کوپکڑنے کے لیے کھیتوں سے ہوتے دور جنگل کی طرف ننگے پائوں بھاگتے۔ دورسے جو قوسِ قزح جھکی ہوئی نظرآتی، جوں جوں اس کی طرف بھاگتے وہ اوپر اٹھتی چلی جاتی۔ ہمارے قدموں کی رفتار اور تیز ہو جاتی۔ ہمارے سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتے لیکن ہماری آنکھوں کے آئینوں میں قوسِ قزح کے رنگ ماند نہ پڑتے۔ بالکل The Old Man and the Sea کے بوڑھے مچھیرے سین تیاگو کی طرح، جس کا جذبہ کسی افتاد سے ہار نہیں مانتا اور جس کے خواب اس کی کشتی کے پتوار بن جاتے ہیں۔
(دنیا)