اس وقت جو کتاب میرے ہاتھ میں ہے، وہ ہے ”سو لفظوں کی کہانی‘‘ جی آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا. اس کتاب میں سو کہانیاں ہیں اور مجال ہے جو کوئی سو لفظوں سے ایک لفظ بھی زیادہ کی ہو. مبشر صاحب سے ملاقات رہی، اس کا حال پھر کبھی سہی، مگر آج ان کی کتاب کی بات ہو جائے۔
مبشرعلی زیدی صاحب کی اس کتاب سے پہلے بھی چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں. جناب کو کہانی سو لفظوں میں کہنے کی جو صلاحیت حاصل ہے وہ کسی کسی کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ میرے جیسا انسان تو لغت میں موجود سارے الفاظ بھی لکھ ڈالے تو ایسی کہانی نہ ترتیب دے پائے جیسی موصوف سو لفظوں میں لکھ دیتے ہیں۔
بقول وسعت اللہ خان صاحب کے (جنہوں نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھا ہے)، ابھی پڑھنے والے کی داڑھ بھی گیلی نہیں ہوتی اور کہانی ختم۔ یہ بھی بھلا کوئی انصاف ہوا؟
مبشر صاحب کی اس کتاب کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں سو لفظوں کی پوری سو کہانیاں ہیں۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں سو لفظوں کی کہانی لکھنے کے لئے کچھ ٹپس بھی دی گئی ہیں۔
اور مختصر ترین کہانیاں کب اور کیسے لکھی گئیں اس کے بارے میں بھی مفید معلومات فراہم کی گی ہیں۔ مبشر بھائی نے صحت، تعلیم، عقل، شعور، سیاست اور معاشرے کے تمام اہم موضوع پر کہانیاں لکھی ہیں، جو پڑھنے اور سمجھنے لائق ہیں۔
یہ کتاب چھوٹے بچوں سے لے کر ہمارے بزرگوں تک کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ یہ کتاب ہر عمر اور ہر مزاج کے لوگوں کے لیے ہیں۔
پہلے سوچا اس کتاب پر تبصرہ بھی سو الفاظ میں کروں، مگر پھر خیال آیا کہ میں کوئی مبشر علی زیدی ہوں جو اپنی بات سو لفظوں میں لوگوں کو سمجھا سکوں؟ ہرگز نہیں۔ یہ میدان صرف مبشرعلی زیدی کا ہے جس میں ان کا ثانی کوئی نہیں۔
اس کتاب کی قیمت 250 روپے ہے، جو اس میں موجود معلومات اور دلچسپ کہانیوں کے اعتبار سے بہت کم ہے۔
یہ کتاب 160 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب میں موجود 95 کہانیاں جنگ اخبار کی زینت بن چکی ہیں، جب کہ 5 کہانیاں ایسی ہیں جو کسی وجہ کے سے اخبار کے لیے نا قابل اشاعت ٹھہریں۔ مبشر علی زیدی اس دور کے مختصر کہانی لکھنے والے سب سے بہترین لکھاری ہیں۔ اللہ ان کے قلم کو یوں ہی رواں رکھے، آمین.
(قلم کار)