دنیا بھرمیں 9/اکتوبر کو ڈاک کا عالمی دن منایا جاتاہے. اس عالمی دن کے موقع پر تمام ممالک ڈاک ٹکٹ کا اجرا کرتے ہیں، جس کا مقصد لوگوں کو بتانا ہوتا ہے کہ کس طرح ’’ڈاک‘‘ ہماری روزمرہ زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ہمیں روابط کےلیے اس کی کتنی ضرورت پیش آتی ہے. مزید برآں ڈاک کے نظام کو بہتر بنانا، محکمہ ڈاک کی اہمیت اور اس کی کارکردگی کو اجاگر کرنابھی اس کے مقاصد میں شامل ہے۔
ڈاک کا نظام دنیا بھر کی معاشی ترقی و اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے اور عوام کو خطوط کے ذریعے آپس میں ملانے کے حوالہ سے موثر کردار ادا کرتا رہا ہے، جس کی افادیت کو برقرار رکھنے کے لیے دنیا میں پہلا پو سٹ کا عالمی دن 9 اکتو بر 1980ء کو منایا گیا۔
یوں توذرائع ابلاغ کی تاریخ بہت قدیم ہے، ہر زمانہ میں لوگ مختلف طریقوں سے معلومات اور اخباردوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے رہے. کبھی پرندوں کو استعمال کر کے، کبھی چمڑوں کو لوح و قرطاس بناکر، کبھی بآواز بلند لوگوں کو خبر دے کر، یہاں تک کہ صنعتی انقلاب کے بعد ذرائع ابلاغ میں زبردست تبدیلیاں واقع ہوئیں، اور پچھلی صدی کو ’’ذرائع ابلاغ کے انقلاب‘‘ کی صدی کہا گیا۔
خط و کتابت اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے:
حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ معارف القرآن میں سورہ علق کی آیت ’’الذی علم بالقلم‘‘ کی تفسیر کرتےہوئے لکھتےہیں: حضرت قتادہ نے فرمایا کہ قلم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اگر یہ تو ہوتا تو نہ کوئی دین قائم رہتا نہ دنیا کے کاروبار درست ہوتے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو ان چیزوں کا علم دیا جن کو وہ نہیں جانتے تھے اور ان کو جہل کی اندھیری سے نور علم کی طرف نکالا اور علم کتابت کی ترغیب دی کیوں کہ اس میں بے شمار اور بڑے منافع ہیں جن کا اللہ کے سوا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا۔ تمام علوم و حکم کی تدوین اور اولین و آخرین کی تاریخ اس کے حالات و مقامات اور اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتابیں سب قلم ہی کے ذریعہ لکھی گئیں اور رہتی دنیا تک باقی رہیں گی، اگر قلم نہ ہو تو دنیا و دین کے سارے ہی کام مختل ہو جائیں۔
علمائے سلف و خلف نے ہمیشہ تعلیم خط و کتابت کا بڑا اہتمام کیا ہے جس پر ان کی تصانیف کے عظیم الشان ذخائر آج تک شاید ہیں۔ افسوس ہے کہ ہمارے اس دور میں علماء و طلباء نے اس اہم ضرورت کو ایسا نظر انداز کیا ہے کہ سیکڑوں میں دوچار آدمی مشکل سے تحریر کتابت کے جاننے والے نکلتے ہیں. فالی اللہ المشتکی۔ (معارف القرآن)
ڈاک کا آغاز و ارتقاء:
ڈاک کا نظام ایک تاریخی اور قدیم نظام ہے اس نظام کی یہ خصوصیت بتلائی جاتی ہے کہ اس کا تاریخی حوالہ فرعون مصر کے ابتدائی دور سے ملتا ہے۔ بابلی دور میں تازہ دم اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے سرکاری اور نجی ڈاک ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچانے کا کام انجام دیا جاتاتھا۔ اس نظام میں خطوط اور دوسرے اجرام لکھی دستاویزات، عموماً لفافے میں بند، کارڈ، پارسل اور منی آرڈر کوایک شہر سے دوسرے شہر پہنچایا جاتا ہے۔ ڈاک نظام کے ذریعہ بھیجی چیزوں کو ڈاک کہا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ شہر شہر، گاؤں گاؤں میں ڈاک خانے کے ذریعے ڈاک بھیجنے کا معمول تھا؛ بل کہ آج سے دو دہائی قبل تک ڈاک کا نظام عروج پر تھا، لوگ شادی بیاہ، خوشی غمی یا کسی اور اہم تقریب میں شرکت کے لیے رشتے داروں اور دوستوں کو دعوت نامے بذریعہ ڈاک بھیجا کرتےتھے؛ مگر جب سے جدید ٹیکنالوجی، موبائیل، انٹرنیٹ اور نجی کمپنیاں کھلیں، ڈاک کی اہمیت ختم ہوگئی۔
جب ڈاک نے ترقی کی توخط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ صرف خط ہی نہیں تھے بلکہ اس وقت کی تاریخ لکھ رہے تھے۔ خطوط کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اہم شخصیت کے خطوط پر کتابیں شائع ہوئی، جن میں انشائے داغ، غالب کے خطوط، خطوطِ آزاد، مشاہیر کے خطوط، جوش ملیح آبادی کے خطوط، علامہ اقبال کےجاوید اقبال کےنام خطوط وغیرہ شامل ہیں۔ یہ نہ صرف خطوط کا درجہ رکھتے ہیں بلکہ یہ تاریخ کو بھی قلم بند بھی کرتے ہیں۔
خط انسان کی زندگی کا وہ آئینہ ہے جس میں اس کی شخصیت کے تمام پہلو مختلف انداز میں سامنے آجاتے ہیں۔ مکتوب سے نہ صرف مکتوب نگار کی شخصیت اور ان کی ظاہری و باطنی کیفیت کا علم ہوتا ہے بلکہ ان کے زمانے کی زبان، روز مرہ کے الفاظ اور رائج محاوروں کے بارے میں جانکاری ملتی ہے۔ خط دو لوگوں کے بیچ رابطے اور تبادلہ خیال کا قدیم اور قابل اعتبار وسیلہ مانا جاتا رہا ہے، اورادیب کے خطوط تاریخ ادب کو مرتب کرنے میں بھی معاون ہوتا ہے حالاں کہ خط کے ذریعے ذاتی طور پرمکتوب نگار بے تکلفی سے اپنے دلی جذبات و احساسات کا اظہار کرتا ہے لیکن جب کوئی ادیب اپنے کسی شاگرد یا احباب کو خط لکھتا ہے تو اس میں ذاتی زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ ادب، ثقافت اور تہذیب کے بہت سے مسائل اور اس کے حل کی جانب صاف اشارہ ملتا ہے۔ چوں کہ مکتوب نگار، مکتوب الیہ تک اپنے دلی جذبات واحساسات پہنچانا چاہتا ہے اس لیے خود پر کسی طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں کرتابلکہ نہایت بے باکی سے اپنے اور زمانے سے متعلق نکات کو بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی کا ماننا ہے:ٖ
انسان کے اخلاق اورجذبات کا انکشاف جیسا کہ اس کے بے تکلف خط و کتابت سے ہو سکتا ہے ایسا کسی اور چیز سے نہیں ہوتا. اسی واسطے مکتوب کو نصف ملاقات قرار دیا گیا ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ جب اس کا وجود عنصری خاک میں پنہا ہو گیا اور اس سے ملنے کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہا اب اس کی ملاقات محض اس کے خط و کتابت پر منحصر ہے اور بس۔ پس کسی مصنف کی وفات کے بعد اس کے مکتوبات کا فراہم کرنا در حقیقت اس کی سوانح عمری کا ایک مہتم بالشان حصہ قلم بند کر دینا ہے۔ (بحوالہ مطالعہ داغ، ڈاکٹر سید محمد علی زیدی، ص 270)
غرض یہی خط تقریباََ ہردور میں پیغام رسانی کا اہم ترین ذریعہ تھا، لیکن دنیا جیسے جیسے ترقی کے زینے طے کرتی گئی فاصلے سمٹتے چلے گئے۔ خط کی جگہ پہلے تار نے لی پھر ٹیلی گرام اور فیکس کا دور آیا، لیکن موبائل فون کی آمد کے بعد ڈاک کا نظام بھی اپنی افادیت کھوبیٹھا اور رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی۔ ان سب کے باوجود خط وکتابت کی اہمیت و افادیت آج بھی مسلم ہے، وہ گاؤں اور دیہات جہاں ابھی تک بجلی نہیں پہنچی وہ آج بھی ان ڈاک خانوں کے ذریعے اپنوں سے رابطے کاانحصار کرتے ہیں۔ آج بھی ڈاک خانے کا ملازم ڈاکیا پیدل یا سائیکل پر گھر گھر ڈاک پہنچاتا ہوا ملتا ہے۔
“یونیورسل پوسٹل یو نین‘‘ ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں ڈاک کے ذریعے بھیجے جانے والے کل خطوط کی تعداد کا 5 سے 11 فیصد حصہ عام لوگوں کی جانب سے کیا جاتا ہے، جب کہ 80 فیصد ڈاک حکومتی عہدیداروں کی جانب سے بھیجے گئے خطوط اور کاغذات پر مشتمل ہوتی ہے۔
(مضامین ڈاٹ کام)