ہر سال کی طر ح 5 فروری کا سب کو انتظار تھا کیوں کہ 5 فروری جہاں یومِ کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے وہیں اس دن کی ایک اور اہمیت ہے۔ وہ ہے جناب محمود شام صاحب کی سالگرہ کا دن۔ بچوں کے وہ ادیب جو ”ٹوٹ بٹوٹ‘‘ میں کہانیاں لکھا کرتے تھے، جن کی حوصلہ افزائی محمود شام نے اُس دور میں کی جب بڑے ادیبوں کا راج تھا اور اپنے رسالے ”ٹوٹ بٹوٹ‘‘ میں ان ادیبوں کو نمایاں جگہ دی، انہیں ایوارڈز اور انعامات سے نوازا۔ ان ادیبوں کی 1980ء سے 1994ء تک بے پناہ حوصلہ افزائی کی اور ”ٹوٹ بٹوٹ‘‘ میں لکھنے والے ان ادیبوں کو جب کبھی کسی مشورے، کسی مدد اور کسی بھی طرح کی رہنمائی کی ضرورت ہوئی تو مجھ سمیت ہر ایک کی انہوں نے ہر ممکن مدد فرمائی۔ ان ہی باتوں، یادوں اور محبتوں کے رنگ لیے ٹوٹ بٹوٹ کے وہ ادیب محمود شام کی سالگرہ کا ہر سال انتظار کرتے ہیں اور بڑے ہی خلوص ومحبت کے جذبے کے ساتھ اس دن کو مناتے ہیں۔
اس روایت کا آغاز ٹوٹ بٹوٹ کے ادیب اور آج کی بلدیہ عظمیٰ کے میڈیا ڈائریکٹر علی حسن ساجد نے کیا. پہلے پانچ ادیب تھے پھر دس اور اب تقریباً 30 ادیب اس تقریب میں شرکت کرتے ہیں۔ ان بچوں کے ادیبوں کے ساتھ ساتھ پروفیسرز اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی چند منتخب شخصیات بھی پیش پیش ہوتی اور ہر سال یہ سالگرہ محمود شام کے گھر پر منعقد ہوتی ہے۔
اس سال محمود شام صاحب نے سالگرہ کا اہتمام کراچی میں سپرہائی وے پر ٹوٹ بٹوٹ فارم ہاوس میں کیا۔
دوپہر بارہ بجے سالگرہ میں شرکت کرنے والے ادیب نیپا چورنگی پر جمع ہونا شروع ہوئے۔ سب سے پہلے ضیاء الحسن ضیاان کے بعد فیصل ملک سیلم آئے۔ پھر محبوب الٰہی مخمور اور نوشاد عادل، جدون ادیب، الطاف پاریکھ، محمد جمال صدیقی، سید رفیع الزماں، پرویز شہزور بلگرامی، آفتاب عالم قریشی، شاہد علی سحر، نشید آفاقی، حنیف سحر، عدیل رزاق، ڈاکٹر ظفر احمد خان، مصطفی ہاشمی، فرخ اظہار اور نصرا حمد خان شامل ہوئے۔ کچھ دیر بعد کوسٹر اور دوگاڑیوں پر مبنی قافلہ سپرہائی وے روانہ ہوا۔ تقریباً 22 ادیب اس قافلے میں شامل تھے۔
فام ہاوس پر بیگم محمود شام اور سلیم محمود نے خوش آمدید کہا۔ کچھ دیر بعد محمود شام صاحب بھی پہنچ گئے۔ علی حسن ساجد، میئر کراچی کے پروگرام میں شرکت کی وجہ سے بیس منٹ کے بعد آئے. دیگر شرکاء میں ڈاکٹر جعفر احمد، ممتاز مصور سلیم احمد، ممتازصحافی خان ظفر افغانی، ڈاکٹر انور شاہین و دیگر احباب شامل تھے۔
سب سے پہلے مہمانوں کی سنگتروں سے تواضع کی گئی۔ حنیف سحر نے تمام ادیبوں کی جانب سے گلدستہ پیش کیا۔ اس بار دو کیک شام صاحب کو پیش کیے گئے. ایک حنیف سحر کی جانب سے اور دوسرا شاہد علی سحر اور محبوب الٰہی مخمور کی طرف سے۔
پھر مہمانوں کا تعارف ہوا اور اس کے بعد شام صاحب نے کیک کاٹ کر سالگرہ کی تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا۔ شام صاحب کی سالگرہ میں جہاں شام صاحب کے چہرے پر خوشی کے رنگ تھے۔وہیں ان کی بیگم، صاحبزادے سلیم محمود اور پوتا پوتیوں کے ساتھ آج کے ایڈیٹر، ڈرامہ نگار، صحافی اور دیگر شعبوں میں نام پیدا کرنے والے شام صاحب کے شاگردوں پر چہروں پر بھی مسرت کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔
شام صاحب کے چہرے پر حسب روایت وہی مسکراہٹ، شفقت اور اپنائیت تھی جو آج سے 35 سال قبل بھی ہوتی تھی اور وہ ان بچوں کے ادیبوں کو اُسی محبت بھرے انداز میں دیکھ رہے تھے جیسے وہ وہی آٹھویں اور دسویں جماعت کے طالب علم ہیں اور جن کی آب یاری انہوں نے کی تھی بلکہ کی ہے۔ کیک کے تقسیم کے بعد مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ”ٹوٹ بٹوٹ‘‘ رسالے سے لے آج تک کے سفر کے بارے میں بچوں کے ادیبوں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اب باری آئی کھانے کی۔ بہترین قسم کی بریانی اور کولڈ ڈرنک کا اہتمام تھا۔ اس کے بعد چائے کا دور ہوا۔ ساتھ ساتھ سنگترے بھی چلتے رہے۔ گفتگو بھی ہوتی رہی۔ تصاویر بھی بنتی رہیں۔ سیلفیاں بھی خوب بنیں۔ سب نے دل کھول کر لطف اٹھایا۔ جہاں شام صاحب کی سالگرہ منعقد ہوئی وہیں سب ادیب دوست مل بیٹھے اور خوب انجوائے کیا۔
اس موقع پر ہر ایک شاداں تھا، ہر ایک مسکرارہا تھا. شام صاحب کی فیملی کے ساتھ بچوں کے ادیب بھی خوش تھے کہ ہم نے اپنے استاد محترم کی سالگرہ منائی۔ میری اور دیگر تمام احباب کی یہ دعا ہے کہ تادیر یہ سلسلہ چلتا رہے۔ شام صاحب کا سایہ ہمارے سروں پر رہے۔ یہی وہ شخصیت ہیں جن کی بدولت بچوں کے ادب نے فروغ پایا. جن کی رہنمائی میں مجھ جیسے کئی لوگ اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئے۔ تمام دوست واحباب اورشام صاحب اوران کی فیملی ہمیشہ خوش وخرم رہے۔ بس ہماری یہی دعا ہے۔
سالگرہ کی جھلکیاں:
٭ سب سے پہلے ضیاء الحسن ضیا نیپا چورنگی پہنچے۔ ان کے بعد الطاف پاریکھ اور جدون ادیب آئے۔
٭ الطاف پاریکھ نے نیلا کرتا، سفید شلوار اور لال کوٹ پہناہوا تھا۔
٭ محمد جمال صدیقی اور آفتاب عالم قریشی بڑی تیاری کے ساتھ آئے۔
٭ اس بار علی حسن ساجد میئر کراچی کے پروگرام کی وجہ سے تھوڑا سا لیٹ آئے۔
٭ شام صاحب کی سالگرہ کا کیک اور گلدستے کا انتظام حنیف سحر نے کیا۔
٭ جب کہ دوسرا کیک شاہد علی سحر اور محبوب الٰہی مخمور لائے تھے ۔
٭ اس بار سالگرہ ”ٹوٹ بٹوٹ‘‘ فارم ہاوس پر ہوئی۔
٭ گلشن سے ایک کوسٹر اور دو گاڑیوں میں ادیبوں کا قافلہ روانہ ہوا۔
٭ تمام راستے خو ب گپ شپ رہی۔
٭ فیصل ملک سلیم کی اس بار سالگرہ میں نئی آمد تھی۔
٭ ڈاکٹر ظفر احمد خان اور ان کے صاحبزادے نصراحمد خان نے بھی شرکت کی۔
٭ ادیبوں کی تصاویر اور وڈیو بنانے کی ذمہ داری نصراحمد خان کے ذمے رہی۔
٭ مصطفی ہاشمی، حنیف سحر، عدیل رزاق اور فرخ اظہار ایک کار میں تھے۔
٭ دوسری کار میں ضیاء الحسن ضیا، الطاف پاریکھ اور شہزور تھے۔
٭ نوشاد عادل اور محبوب الٰہی مخمور کیک کے ساتھ نیپا آئے۔
٭ پرویزبلگرامی سے نوشاد عادل لمبی گپ شپ کرتے رہے۔
٭ سالگرہ میں محمود شام صاحب، سلیم محمود، بیگم محمود شام اور ان کے پوتے اور پوتیوں نے شرکت کی۔
٭ مصطفی ہاشمی نے کیک کی تقسیم کے فرائض انجام دیے۔
٭ علی حسن ساجد اپنی کوسٹر اورفوٹو گرافر کے ساتھ آئے۔
٭ علی حسن ساجد اور حنیف سحر کے درمیان نوک جھوک جاری رہی۔
٭ سالگرہ کی تقریب میں ماہ نامہ ”انوکھی کہانیاں‘‘ کے شمارے مہمانوں کو تحفے میں دیے گئے۔
٭ اس تقریب میں کئی نامور شخصیات نے شرکت کی۔
٭ محمود شام صاحب سالگرہ کی تقریب میں بہت مسرور نظر آئے۔
٭ کیک، بریانی، کولڈ ڈرنکس، کینو اور چائے کا خاص انتظام تھا۔
٭ الطاف پاریکھ نے سیلفیاں اور تصاویر بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔
٭ الطاف پاریکھ کی گفتگو کی وجہ سے پوری محفل باغ و بہاررہی۔
٭ نشید آفاقی نے بڑی خوبصورتی سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
اس تقریب کی ہرادیب کےدل میں ایسی مسرت تھی گویا کہ یہ شام صاحب کی نہیں بلکہ میری سالگرہ ہے۔ میں نے کبھی اتنی پابندی سے اپنی یا اپنے بچوں کی سالگرہ بھی نہیں منائی۔ لیکن شام صاحب کی سالگرہ مجھے ہرسال یاد رہتی ھے۔ لیکن بھلا ہو اس عظیم انسان کا کہ یہ سلسلہ جس کا مرہون منت ہے،اوروہ ہے ہم سب کا پیارا دوست علی حسن ساجد، کہ جس کی مستقل مزاجی کی وجہ سے 6 یا 7 افراد پر مشتمل یہ قافلہ اب 25 ادیبوں تک جا پہنچا ہے۔اللہ پاک اس سلسلے کو قائم و دائم رکھے۔آمین
Kitaabnama nay Mahmood Shaam Sahab ki salgira ki tafselat apni web per shayah ki han Mr. Saqib Butt Urdu Adab khas kar Adbi Shakseyat kay hawalay say kafi kam kar rahay han or Ilmo Adab ki farogh kay lea bohat zayyada mahnat kar rahay han. Saqib Butt Urdu Adab or Kal or Aj kay Adibon or Adab ko mahfoz kar kay agli nasal kay lea shandar kam kar rahay han. Khas kar Nojawan Adabon or ki Kitabon ki bohat hosla afzai kartay han. Un kay l ea dil say Dua Nekalti hay. MEHBOOB ELAHI MAMHMOOR, EDITOR, MONTHLY ANOKHI KAHANIYAN, KARACHI..FACEBOOK PAGES: MEHBOOB ELAHI MAKHMOOR OR ANOKHI KAHANIYAN