قصّہ گوئی کا رواج زمانہ قدیم سے چلتا آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں تحقیق، جستجو، آگے بڑھنے، حاصل کرنے اور زمانہ کی معاشرتی و علمی اقدار سے واقفیت حاصل کرنے کی حِس پیداکی ہے۔ اس حِس کی بدولت ہی آج کا انسان مادیت اور معروضیت کے اس دور میں ذہنی سکون کے لیے کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے جو غم و آلام سے مردہ اجسام میں نئی زند گی رواں کرنے کاذریعہ بنے۔ زمانہ قدیم سے ہی انسان کو اپنے آس پاس کے حالات جاننے اور پھر اسے دوسروں تک منتقل کرنے کا شوق رہا ہے اور پھر اسی شوق میں قصّے کہانیاں بھی شامل ہو گئیں۔ انسان ان کہانیوں کو دلچسپی سے سن کر کبھی حیرت میں مبتلا ہوا، کبھی اس کہانی سے متعلق کسی کردار یا چیز کو کھوجا، کبھی عمل کیا۔ اسی اللہ نے انسان کی فطرت کے پیشِ نظر انبیاء اکرام پر الہامی کتب اور صحائف نازل کیے اور ان میں انسان کو ماضی، حال اور مستقبل کے متعلق واقعات کی صورت میں علم و آگہی سے نوازا۔
زمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانوں کے بڑھتے مسائل و مشکلات اور مصروفیات نے اظہارِ مسرت کے طریقوں میں بتدریج کمی کر دی۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے انسان نے قصّے کہانیوں، افسانہ، ڈرامہ اور طنزومزاح کے متعلق ہر عمر کے فرد کے لیے ایسی کتابیں لکھیں جو ان کے لیے آبِ حیات ثابت ہوں۔ بچوں کے لیے اس کمی کو دور کرتے ہوئے محبوب الٰہی مخمور صاحب نے ایسی کہانیاں کی بے شمار کتب مرتب کیں جو ان کی شخصیت پر مثبت اثر ڈالیں اور ان کی اخلاقی وجسمانی اور روحانی نشونما کر سکیں۔ محبوب الٰہی مخمور کا شمار پاکستان کے بلند پایہ مدیران میں ہوتا ہے۔ آپ نے صحافت اور اُردو میں ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ 1975 ء میں لکھنے کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اب تک آپ کی بے شمار تحاریر بچوں اور بڑوں کے میگزین و رسائل میں شائع ہو چکی ہیں۔ محبوب الٰہی مخمور نے اگست 1991ء میں بچوں کے خوبصورت رسالہ ”ماہنامہ انوکھی کہانیاں‘‘ کی اشاعت کا آغاز کراچی سے کیا۔ ماضی میں آپ پندرہ روزہ ریشم، کراچی اورہفت روزہ اسپورٹس راؤنڈ اپ، کراچی کے مدیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ آج کل آپ معیاری کتب شائع کرنے والے ادارے ”الٰہی پبلیکیشنز، کراچی‘‘ کے نگران اعلیٰ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے نونہالوں کے لکھاریوں کی ملک گیر تنظیم ”پاکستان چلڈرن رائٹرز گائیڈ‘‘ کے صدر کی حیثیت سے فرائض نبھا رہے ہیں۔محبوب الٰہی مخمور، نیشنل بک فاؤنڈیشن، دعوة اکیڈمی اسلام آباد اور یونیسیف پاکستان سے متعدد ایوارڈز، تعریفی اسناد اور انعام یافتہ مصنف ہیں۔ اب تک بچوں اور بڑوں کے لیے آپ کی بے شمار کتب شائع ہو چکی ہیں۔
آج کے ”کتاب نامہ” میں شامل بچوں کے لیے مرتب کی گئی پہلی کتاب ”پھول کہانیاں‘‘ کے نام سے شامل کی گئی ہے جس میں اُردوکے ممتاز ادیبوں کی کہانیاں مشہورِ زمانہ ”پھول اخبار‘‘ سے منتخب کی گئی ہیں۔
پھول اخبار1909ء میں لاہور سے جاری ہوا اور1957ء تک پورے اڑتالیس برس باقاعدگی کے ساتھ ہر ہفتے شائع ہوتا رہا۔ اتنی لمبی عمر بچوں کے کسی اور اخبار نے شاید ہی پائی ہو۔ پھول نے اپنا معیار آخری دم تک قائم رکھا۔ پھول اخبار نے بچوں کے اخلاق کو سنوارا، ان میں ادب کا ذوق پیدا کیااور علم کی لگن دلوں میں پیدا کرتا رہا۔ دوسری طرف وطنِ عزیز کے ادیبوں کے ذہنوں کی تربیت کرتا اور انہیں آسان اور سلیس زبان لکھنا سکھاتا رہا۔ پھول شروع ہوا تو ممتاز علی صاحب اکیلے ہی اس کی نگرانی کرتے رہے لیکن کچھ عرصے بعد ان کے صاحب زادے سیّد امتیاز علی تاج جو مشہور ادیب اور ڈرامہ نگار ہیں، ان کا ہاتھ بٹانے لگے۔ پھول کے ایڈیٹرز میں بنتِ نذر الباقر (نذر سجاد حیدر)، سیّد وجاہت حسین جھنجھالوی، مولانا عبد المجید سالک، نثرجالندھری، ابو الاثر حفیظ جالندھری، پنڈت ہری چند اختر، حفیظ اختر ہوشیار پوری، احمد ندیم قاسمی، راجا مہدی علی خان اور غلام عباس شامل ہیں۔ غلام عباس کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ سب سے طویل مدّت تک اس کے ایڈیٹر رہے۔ ”پھول اخبار‘‘ کی اڑتالیس سال کی جلدیں ہیں جو بڑے سائز کے پچیس ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کے حوالہ سے محبوب الٰہی مخمور لکھتے ہیں کہ:
”طویل عرصے سے ایک ایسی کتاب کی کمی محسوس ہو رہی تھی جس میں اُردو کے مایہ ناز اور ممتاز ادیبوں کی بچوں کے لیے کہانیاں شامل ہوں اور خاص کر ان ادیبوں کی جنہوں نے اُردو ادب میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور جن کا نام ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ”پھول اخبار‘‘ کی وہ فائل مجھے دستیاب ہو گئی جس کے مدیراحمد ندیم قاسمی اور غلام عباس تھے۔ اس کا معیار، زبان و اسلوب دیکھ کر بلکہ پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔ سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ اُردو کے ممتاز ادیبوں بلکہ اُردو ادب کے ستونوں نے اس میں بچوں کے لیے خوبصورت ترین کہانیاں لکھی تھیں جن کو پڑھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا۔ پھر میں نے پھول کہانیاں کے عنوان سے ایک انتخاب ترتیب دیا اور اس میں کچھ ہی تحریروں کو جگہ دے سکا جبکہ ابھی پھول اخبا ر میں شائع شدہ کہانیوں کا ایک بڑا ذخیرہ باقی ہے۔ یہ اُردو ادب کا بے بہا خزانہ ہے جس سے ہم مزید کتب ترتیب دے سکتے ہیں۔‘‘
عزیز قارئین! ”پھول کہانیاں‘‘ میں شامل سب سے پہلی کہانی مشہور ناول نگار ”قرةالعین حیدر‘‘ کی ”اپریل فول‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہاں ایک دلچسپ بات یہ کہ قرةالعین حیدرنے صرف گیارہ سال کی عمر سے کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا۔ قرةالعین حیدرصرف ناول نگاری کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے افسانوں اور بعض مشہور تصانیف کے ترجموں کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کے مشہور ناولوں میں ”آگ کا دریا‘‘، ”آخرِ شب کے ہم سفر‘‘، ”میرے بھی صنم خانے‘‘، ”چاندنی بیگم‘‘ اور” کارِ جہاں دراز‘‘ شامل ہیں۔
محبوب الٰہی مخمور کی مرتب کردہ اس کتاب میں شام لدوسری کہانی ”چوہے چوہیاکا بیاہ‘‘ کے عنوان سے اُردو زبان کے معروف مصنف اور ڈراما نگار، افسانہ نگار سیّد امتیاز علی تاج کی تحریر کردہ ہے۔ آپ کے والد سید ممتاز علی ایک بلند پایہ مصنف تھے اور آپ کی والدہ بھی مضمون نگار تھیں۔ سیّد امتیاز علی تاج کو بچپن ہی سے علم و ادب اور ڈراما سے دلچسپی تھی۔ ابھی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک ادبی رسالہ ”کہکشاں‘‘ نکالنا شروع کردیا۔ آپ نے ڈراما کے فن میں اتنی ترقی کی کہ بائیس برس کی عمر میں ڈراما ”انار کلی‘‘ لکھا جو اُردو ڈراما کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نے بچوں کے لیے کئی کتابیں لکھیں۔
کتاب میں شامل اگلی کہانی، مشہورِ زمانہ ادیبہ ثریّا حمید علی کی ”راج کمار کنال‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس کتاب میں مشہورومعروف افسانہ نگار اور پھول اخبار کے طویل عرصے رہنے والے ایڈیٹر غلام عباس کی چار کہانیاں ”عرب بچّے‘‘، ”کنول کی شہزادی‘‘، ”بے چارہ سپاہی‘‘ اور ”ایک ٹانگ کا بادشاہ‘‘ کے نام سے شاملِ اشاعت ہیں۔ لکھنے لکھانے کا شوق آپ کی فطرت میں داخل تھا۔ اپنی باقاعدہ ادبی زندگی کے آغاز میں آپ غیر ملکی افسانوں کے ترجمے کرتے رہے۔ علاوہ ازیں بچوں کے رسالوں ”پھول‘‘ اور”تہذیب ِنسواں‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران آل انڈیا ریڈیو سے منسلک رہے۔ اسی دور میں آپ نے کئی شاہکار افسانے بھی تخلیق کیے۔ تقسیم کے بعد پاکستان آگئے اور ریڈیو سے وابستہ رہے۔ بحیثیت افسانہ نگار غلام عباس کا نام ایک منفرد اور اعلیٰ مقام کا حامل ہے۔
”پھول کہانیاں‘‘ میں ”سائن بورڈ‘‘ کے نام سے ممتاز ناول نگار حجاب امتیاز علی کی خوب صورت تحریربھی شامل ہے۔ خواتین کی ناول نگاری میں حجاب امتیاز علی کا نام اہم اور نمایاں مقام کا حامل ہے۔ ان کے ناول ایک نئے موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ حجاب امتیاز علی کی کہانیوں میں سارا ڈرامہ امراء اور روساء کی نیم تاریک غلام گردشوں، وسیع دالانوں کی دوپہروں، خواب گاہوں اور پاہوں اور پائیں باغ کی تاریک راتوں میں کھیلا جاتا ہے اور آخر میں جنم لیتی ہے رومانی غمناک کیفیت۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے ناولوں کی دنیا خاصی خود ساختہ اور طلسمی ہے۔ ان میں مسرت اور غم کی نوعیت بھی اتفاقی ہے اور رومانوی ہونے کے باجوود حجاب امتیاز علی کے ناول تحریک ِنسواں کا حصہ ہیں۔ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ حجاب امتیاز علی کے افسانوں میں نفسیات، تاریخ، کلاسیکی اور بین الاقوامی ادب، سائنس، مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ اور علم نجوم اپنی چھت دکھاتے ہیں اور وہ تخلیقی ادب کو کسی جغرافیہ کا پابند نہیں دیکھنا چاہتیں۔
اس کتاب میں شوکت علی تھانوی کی بچوں کے لیے لکھی گئی کہانی ”مرغی اور بلّی‘‘ شامل ہے۔ شوکت تھانوی ایک صحافی، ناول نگار، ڈراما نگار، افسانہ نگار، مزاح نگار، ادیب اورشاعر تھے۔ انھوں نے ادب کی ہر صنف میں نام کمایا مگر ان کی اصل شہرت مزاح نگاری اور خاص طور پر روز نامہ جنگ میں لکھے گئے ان کے مزاحیہ کالم ہیں۔ آپ کا نام محمد عمرتھا لیکن شوکت تخلص کرتے تھے اور شوکت تھانوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ ہندوستان کے کئی مشہور اخباروں سے وابستہ رہے۔ ان میں ہمدم، ہمت، ہفت روزہ سپرپنچ زیادہ مشہور ہیں۔ اسی ہفتہ وار اخبار نے انہیں مزاح نگار کی حیثیت سے متعارف کرایا ان کے مضامین سودیشی ریل، سودیشی ڈاک وغیرہ اب تک دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی آ گئے اور مختلف اخبارات سے وابستہ رہے۔ ریڈیو پاکستان سے ان کا مستقل فیچر ”قاضی جی‘‘ بہت مقبول ہوا۔ شوکت تھانوی شاعر بھی تھے، ان کا مجموعہ کلام ”گہرستان‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
مخبوب الہٰی مخمور کی مرتب کردہ اس کتاب میں خواجہ حسن نظامی کا بچوں کے لیے خصوصی تحفہ ”نانی بڑھیا مر گئی‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ خواجہ حسن نظامی کے بزرگ شروع سے ہی تصوف کے راستے پر چلتے رہے چنانچہ خواجہ صاحب کی پرورش اور تربیت بھی اسی مذہبی اور صوفیانہ ماحول میں ہوئی۔ آپ نے کبھی کسی درس گاہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ اپنے طور پر پڑھتے رہے اور عربی، فارسی اور اُردو میں خاصی دسترس حاصل کر لی۔ فرصت کے اوقات لکھنے لکھانے کا کام کرتے۔ رفتہ رفتہ ان کے مضامین رسالوں اور اخباروں میں چھپنے لگے۔ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ ”رعیت‘‘ سے ہوا۔ اخبار ”منادی‘‘ میں ان کا روزنامہ شائع ہوتا رہا۔ خواجہ حسن نظامی نے خود بھی میرٹھ سے ایک اخبار ”توحید‘‘ نکالا۔ خواجہ صاحب اچھے اور منفرد انشاپرداز تھے سیاسی لیڈر بھی تھے اور بے باک مقرر اور خطیب بھی۔ پیری مریدی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بے شمار لوگ حلقہ مریدی میں داخل ہوئے۔ خواجہ حسن نظامی کی تصانیف چالیس کے لگ بھگ ہیں۔
کتاب ”پھول کہانیاں‘‘ میں شائع شدہ دیگر کہانیوں میں سیّد ابو طاہر دائودکی کہانی ”بجلی کا شکار”، دولت خانم بنتِ حاجی عبداللہ ہارون کی خوبصورت کہانی ”چاند ،سورج، ہوا‘‘ اور راجندر سنگھ بیدی کی ”ننھا کانت‘‘ شامل ہیں ۔اڑتالیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 130 روپے ہے اور اس کتاب کو ”ادبیات،لاہور‘‘ نے شائع کیا ہے۔
محبوب الٰہی مخمور کی مرتب کردہ دوسری کتاب ”پتھر کے آنسو‘‘ ہے جس میں معاشرتی، اصلاحی، سائنسی اور دلچسپ نئے دور کی نئی کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔ اس کتاب کا عنوان ”پتھر کے آنسو‘‘ دراصل روسی ادب سے ماخوذ کہانی سے لیا گیا ہے۔ اس کہانی کی تلخیص حماد الٰہی نے کی ہے۔ اس کتاب کی سب سے پہلی کہانی ”چھنگلی کی لاش‘‘ محبوب الٰہی مخمورکی ہی تحریر کردہ ہے۔ جب کہ دیگر کہانیوں میں الطاف حسین کی ”مٹی کا قرض‘‘، محمد سعید عباس کی کہانی ”مضبوط قدم‘‘ شاہد علی ساحر کی ”شریر پنکی‘‘،ساجد حسین ساجد کی کہانی”نئی راہ‘‘، فاخرہ شوکت کی کہانی ”دیا ضرور جلے گا‘‘، فار قلیط محمود کی ”گزارا تو ہوتا ہے‘‘ اور عبداللہ گوہر کی کہانی ”احساس‘‘ شامل ہیں۔ 80 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 130 روپے ہے اور اسے ”رابعہ بُک ہائوس،لاہور‘‘ نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔
”کتاب نامہ‘‘ میں ”علم وعرفان پبلشرز،لاہور‘‘ کی شائع کردہ مزید تین کتب ”رب چاہی‘‘، سائنس فکشن پر مبنی فکر انگیزکہانیاں ”ستاروں سے آگے‘‘ اور دل چسپ کہانیوں پر مشتمل کتاب ”بھوت‘‘ شامل ہیں۔ ان کتب کے مدیر بھی محبوب الٰہی محمود ہیں جنہوں نے نامور قلم کاروں کی خوبصورت کہانیوں کو ان تین کتب میں یک جا کر کے بچوں کے لیے بہترین کتب ترتیب دی ہیں۔ کتاب ”رب چاہی‘‘ کے بارے میں محبوب الٰہی مخمورلکھتے ہیں کہ:
”بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا ایسا ہے کہ جیسے پہاڑوں میں سے دودھ کی نہر نکالنا، کیوں کہ ان کہانیوں میں ان تمام باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے جس کے ذریعے بچوں کی کردارسازی ہوتی ہے۔ ان کہانیوں میں کوئی نہ کوئی پیغام اور اس کے ساتھ ساتھ دلچسپی کا عنصر بھی بے حد ضروری ہے۔ ”رب چاہی‘‘ میں ان تمام خوبیوں کو یک جا کیا گیا ہے اور ایسی کہانیاں جمع کی گئی ہیں جن کی مہک تادیر قائم رہے گی، یہ کہانیاں نہیں پھول ہیں اور بہت سے پھولوں کو اکٹھا کر کے گلدستے کی صورت دی گئی ہے۔‘‘ اس کتاب میں شامل کہانیاں اور ان کے مصنف یہ ہیں: ”رب چاہی‘‘ (عبدالرشید فاروقی)، ”عید کی خوشیاں‘‘ (محبوب الٰہی مخمور)، ”زندگی کے آنسو‘‘ ( مدثر عنایت )، ”پرانا گھر‘‘ (علی رضا)، ”چوّنی‘‘ (رابعہ حسن)، ”جاگو‘‘ (ڈاکٹر طارق ریاض)، ”ببلی، املی اور چغلی‘‘ (محمد عمر احمد خان)، ”اصل حقدار‘‘ (روبنس سیموئیل گل)، ”چیلنج‘‘ (راحت صلاح الدین) اورشاہد علی سحر کی کہانی ”معصوم خواہش‘‘۔ 96 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 200 روپے ہے۔
دلچسپ اوربہترین کہانیوں کے مجموعہ پر مشتمل کتاب ”بھوت‘‘ کے بارے میں محبوب الٰہی مخموررقم طراز ہیں:
”ماہانہ رسائل کی حیثیت اپنی جگہ مسلّم ہے، اس کی بڑی تعداد پڑھنے والوں کی ہے مگر کتاب کی بات کریں تو اس کی حیثیت رسائل سے بڑھ کر ہے۔ اسی سوچ نے مجھے اپنے حصار میں لے رکھا تھا اور میں اس کوشش میں تھا کہ وہ تمام کہانیاں، جو میں نے لکھی ہیں اور ماہنامہ انوکھی کہانیاں کے لیے دیگر ادیبوں نے لکھی ہیں، انہیں کتابی صورت میں شائع کیا جائے، جس کا نتیجہ ہماری یہ کتاب ہے۔ اس کتاب میں بچوں کے ادیبوں کی بہترین کہانیوں کا انتخاب کیا گیا ہے جن میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی سبق بھی پوشیدہ ہے۔‘‘
اس کتاب کے نامور ادیب اور ان کی کہانیاں یہ ہیں: ”پائلٹ‘‘ (مصطفٰی ہاشمی)، ”زندہ جاوید‘‘ (محبوب الٰہی مخمور)، ”پرواز‘‘ (ڈاکٹرعامر یونس )، ”عجیب مہمان‘‘ (جاوید بسام)، ”کمرہ نمبر ٣،٢،١‘‘ (خرم لودھی)، ”فانوس‘‘ (سیّد نعمان خالد)، ”چالاک لڑکی‘‘ (محمد ذیشان خالد)، ”ماحول دوست‘‘ (زاہدہ حمید)، ”بھوت‘‘ (ضرغام محمود)، ”سکون سینٹر‘‘ (لیاقت علی)، ”خوشگوار تبدیلی‘‘ (محمد شعیب خان)، ”موت ہار مان گئی‘‘ (منیر احمد راشد)، ”پختہ یقین‘‘ (صالحہ صدیقی )، ”سونے کا صندوق‘‘ (محمد ادریس قریشی) اورعمران یوسف زئی کی کہانی ”جوجو‘‘۔ 96 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت بھی 200 روپے مقرر کی گئی ہے۔
ہماری آخری کتاب ”ستاروں سے آگے‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس کتاب میں سائنس فکشن پر مبنی تین ناولٹ شامل ہیں۔ بنیادی طور پر ناولٹ نثری صنفِ ادب ہے۔ ناولٹ، ”افسانے” اور” ناول‘‘ کی درمیانی کڑی ہے۔ زندگی کے حقیقی منظر کو بے اختیار اور بے لاگ مگر تخلیقی بیان دینا ”ناولٹ‘‘ کی ذمہ داری ہے۔ موجودہ دور کے صنعتی انقلاب نے افراد میں دلچسپی کا عنصر پیدا کیا اور اسی دلچسپی کے تحت ناولٹ وجود میں آیا۔ ناولٹ کے اس مجموعہ ”ستاروں سے آگے‘‘ میں شامل پہلا ناولٹ ”ستاروں سے آگے‘‘ کے نام سے ہی ہے جس کے مصنف محمد عادل منہاج ہیں۔ آپ کو سائنس فکشن، معاشرتی اور اسلامی کہانیاں لکھنے میں مہارت حاصل ہے۔ محمد عادل منہاج گزشتہ بیس سال سے بچوں کے ادب سے وابستہ ہیں۔ اس دوران بے شمار رسائل میں آپ کی کہانیاں اور ناول شائع ہو چکے ہیں۔ کتاب ”ستاروں سے آگے‘‘ میں شامل دوسرا ناولٹ ابنِ آس محمد کا ہے جس کا عنوان ”تنہائی کا سفر‘‘ ہے۔ ابنِ آس محمد کا شما ر بھی بچوں کے پسندیدہ ترین مقبول و معروف ایوارڈ یافتہ مصنفین میں ہوتا ہے۔ آپ 1982ء سے بچوں کے لیے لگ بھگ 6 ہزار کہانیاں لکھ چکے ہیں جن میں متعدد تراجم بھی شامل ہیں۔ آپ کا شمار پاکستان کے مقبول ڈرامہ نگاروں میں بھی ہوتا ہے۔ ابنِ آس محمد اب تک متعدد ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی تحریر کردہ کہانیوں کے 14 مجموعوں کو ”نیشنل بک فائونڈیشن،اسلام آباد‘‘ سے پہلے اور دوسرے انعامات مل چکے ہیں۔ اس کتاب میں تیسرا ناولٹ ہم سب سے ہر دل عزیز مصنف محبوب الٰہی مخمورکا ہے جس کا نام ”سوہنی دھرتی‘‘ ہے۔ ناولٹ کے مضموعہ ”ستاروں سے آگے‘‘ 80 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کتاب کی قیمت 200روپے ہے۔
2 تبصرے “محبوب الٰہی مخمورکی مرتب کردہ کتب – عائشہ اکرام”
تبصرے بند ہیں
kitaabnama kay zaray urdu adab ko mahfoz karnay ka ye qabil e shaqtaish ammal hay kitaabnama kay incharge mubarak bad kay laiq han es web ka ajjra ak bahtareen aqqdam hay mari taraf say dilli mubarakbad qobul ho. mehboob elahi makhmoor, editor, monthly anokhi kahaniyan, karachi
آپ کے قیمتی الفاظ کا بہت شکریہ محبوب الہی مخمور صاحب، آپ کی سرپرستی میں “کتاب نامہ” اپنا سفر جاری رکھے گا۔