آج کے ہر آن ہلچل مچاتے دور میں جہاں دنیا کو نت نئی ایجادات اور سہولیات سے فائدہ پہنچ رہا ہے اور انٹرنیٹ نے تو جیسے لوگوں کے وقت کو پر لگا دیے ہیں۔ ہر شخص وقت کی کمی کا رونا روتا ہواملتا ہے جب کہ انٹرنیٹ ہی کے ذریعے ہر چیز چند لمحوں میں آپ تک پہنچ بھی جاتی ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ نیٹ کے ذریعے اکثر پڑھی ہوئی اور دیکھی ہوئی چیزیں ذہن کے گوشوں میں بہت جلد مبہم ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ ان کتب کی جگہ نہ لے سکا جو سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال سے علم و ادب کے شائق افراد کی ذہنی تسکین اور علم و ادب کے فروغ کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ لیکن یہ بات اس نسل کے لیے تو ممکن ہے درست ہو تاہم آنے والا وقت یہ اشارے دے رہا ہے کہ جس طرح کتابوں اور رسائل سے ہاتھ سے لکھی ہوئی خطاطی مفقود ہوچکی ہے اسی طرح کہیں ایسا نہ ہو کہ کتابیں اور رسائل بھی اس الیکٹرونک دنیا سے دھیرے دھیرے غائب ہوکر انٹر نیٹ یا ڈیجٹل ہوجائیں… تاہم یہ گھبرانے کی بات نہیں ہے… جو قومیں اپنے تہذیب وتمدن سے محبت کرتی ہیں وہ اپنے ماضی کو بھی کبھی مرنے نہیں دیتیں اور حتی الامکان کوشش کرتی ہیں کہ ان کا ماضی بھی ان کے حال اور مستقبل کی طرح ان کے ساتھ ساتھ چلے یقیناً ہمیں بھی ایسا ہی سوچنا اور کرنا چاہیے کیوں کہ ہم بھی زندہ قوموں کی صف میں کھڑے رہنا چاہتے ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی روایات اور اپنے تہذیب و تمدن کو مرنے نہ دیں اسے زندہ رکھیں. ہماری بھی کتاب سے دوستی رسائل سے لگاﺅ ایک مضبوط روایت اور تہذیب ہے اور ہمیں بھی اسے زندہ رکھنا ہوگا، رکھنا چاہیے…
سوچ…!
اصل چیز کوئی شکل نہیں نہ ہی اشیاء کی فنا و بقاء ہے… اصل چیز تو ”سوچ‘‘ ہے اور سوچ ہی فکر کے سانچوں میں ڈھلتی ہے. یہ سوچ ہی ہے جو آج ہم یہاں اس محفل میں اس اجتماع میں موجود ہیں اور اس سوچ کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے… یہی سوچ ہمیں بچوں کے ادب سے جوڑتی ہے کیوں کہ ماضی سے زیادہ اہم مستقبل ہوتا ہے اور بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ جس طرح سارے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بڑے ہوکر عظیم انسانوں میں شامل ہوں اسی طرح ہماری قوم کے سارے بچے ہمارے اپنے بچے اور ہمارا مستقبل ہیں اور اپنے مستقبل کو ہم بھی اتنا ہی زرخیز اور لہلاتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جتنا کوئی بھی ذی ہوش، ذی وقار قوم یا فرد دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے ہم اپنا وقت اور اپنا بہت کچھ داﺅ پر لگا کر اپنے مستقبل کی آبیاری پر جٹے ہوئے ہیں… یہی ہمارا طرہ امتیاز اور یہی ہمارا وہ فخر ہے جو شاید دوسروں کو اس طرح سے حاصل نہیں ہے جیسا کہ ہمارا کردار ہے…
اب میں اصل موضوع کی جانب آتا ہوں کہ بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں ادیبوں و رسائل کا کیا کردار ہے… آج کا بچہ درسی کتب کو ڈگری حاصل کرنے کے لیے اور آئندہ زندگی میں بہتر نوکری حاصل کرنے کے لیے پڑھتا ہے۔ اس کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں ڈاکٹر یا انجینیئر بنے یا کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچے۔ بچے کی یہ تعلیم صرف اور صرف معاشی معاملات کے لیے ہوتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ اس معاشی دوڑ میں ہم نے علمی، اخلاقی اور اسلامی اقدار کے دامن کو تو نہیں چھوڑ دیا… اور کہیں ہمارے بچے انسان بننے کے بجائے مشین تو نہیں بن رہے… دنیا کا کوئی بھی علم ہو کوئی بھی ترقی ہو، وہ اگر انسان سے اس کی انسانیت چھین لے تو سمجھ لیں کہ وہ ترقی نہیں تنزلی ہے اور کسی بھی انسان کا اپنی شناخت کو چھوڑ دینا کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جاسکتا ہو۔ یہ ایک المیہ ہے اور المیے نظر انداز کردینے کے لیے نہیں بلکہ سوچ و فکر کو پھر سے جھنجوڑ دینے کے لیے رونما ہوتے ہیں. جس علم کا مقصد صرف اور صرف معاشی آسودگی کے لیے تیاری کرناہے وہ علم سماج کو ایسا فائدہ نہیں پہنچا سکتا جس سے معاشرہ قابل تعریف کہلاسکتا ہو. درحقیقت ہم نے اپنے بچوں کو ایسی علمی ادبی اور اسلامی کتب کی جانب راغب کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے جن سے بے مثال سماج کی تصویر ابھرتی ہو اور نہ ہی ہم اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ ہمارے بچے کا ہی کمال ہے جو وہ خود ہی مختلف رسائل اور بچوں وبڑوں کے ادیبوں کی تحریروں سے اخلاقی اقدار اور سماجی امور کو سمجھتا اور سیکھتا ہے کیوں کہ ایسی باتیں جو بچے کو درسی کتب سے حاصل نہیں ہوتی ہیں وہ ان رسائل اور ادبی کتب سے حاصل ہوجاتی ہیں۔ یعنی جو کام بچے کے بڑوں اور والدین کا تھا اسے بچوں کے لیے نکلنے والے رسائل اور کتابیں کررہے ہیں. ان میں چھپنے والی کہانیوں سے اور ادیبوں کی تحریروں سے بچے کو ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں وہ کچھ معلوم ہوتا جو اس کا حق ہے۔ ان تحریروں کے ذریعے اس کی شخصیت کی تعمیر اس طرح ہوتی ہے کہ ان کہانیوں میں موجود اچھی باتیں غیر محسوس طور پر اس کی شخصیت پر اثر انداز ہو کر اسے معاشرے کا ایک کارآمد شہری بناتی ہیں اور وہ بزرگوں کے احترام، اساتذہ کی عزت،بچوں سے شفقت اور والدین و عزیز رشتہ داروںکے ساتھ خود بخود رواداری سے پیش آنا سیکھ جاتا ہے۔ اور یہ عظیم کام کرتے ہیں ہمارے ادیب اور لکھنے والے…اسے درسی کتب سہولت سے یہ نہیں سکھاتیں کہ جانوروں پر رحم کرو، بزرگوں کا احترام کرو، اقدار کی پاسداری کرو۔ چنانچہ یہ تما م باتیں بچہ اُردو ادب (بچوں و بڑوں کا) اور ادبی کتب سے حاصل کرلیتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ادیب کی لکھی ہوئی کوئی تحریر بچے کے نازک ذہن میں موجود کسی ایسی الجھن کا حل بتا دیتی ہے جس سے اسے اپنی منزل کا پتا دکھائی دینے لگتا ہے. ایک جملے میں کہوں تو یہ کہانی ہی ہے جو بچے کی ساری زندگی کے لیے ایک قسم کے رہنما کا کردار ادا کرتی رہتی ہے۔ بہت سے ایسے بھی ادیب ہیں جن کے ناول ان کی سوانح حیات اور ان کی حقیقی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں ان میں زندگی کے تجربات کا ایسا نچوڑ موجود ہوتا ہے جنھیں پڑھ کر اور جان کر بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ کیوں کہ بچوں کو اپنی آنے والی زندگی میں جو کچھ دیکھنا اورمسائل سے نمٹنا ہے ادیب ان کی کوئی نہ کوئی جھلک اپنی تحریر میں ضررو دکھادیتا ہے جس سے بچوں کو اپنی زندگی میں درپیش مسائل اورالجھنوں سے نبرد آزما ہونے میں مدد ملتی ہے.
آپ کی شخصیت کیسی ہے اس کا اندازہ آپ کے گفتگو اور لہجے کی ساخت و بناوٹ سے ہوتا ہے. آپ نے اچھے ادیبوں کی علمی و ادبی کتابیں پڑھی ہیں تو آپ کا طرز گفتگو اس کی غمازی کرے گا۔ بچے کا رحجان اگر شروع سے کتب کے مطالعے کی جانب ہو گا تو وہ بڑا ہو کر بھی اچھی اور بامقصد کتب کی تلاش جاری رکھے گا اور اسے جذباتی اور احساساتی سکون بھی مطالعہ کتب کے بعد ہی حاصل ہو گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو مطالعہ کتب کی جانب راغب کیا جائے اور انہیں علمی ادبی اور تاریخی کتابیں لے کر دی جائیں۔ اس سلسلے میں حکومتی سطح اور عام شہری سطح پر کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ فروغ مطالعہ اور کتب کی اشاعت ایک قومی فریضہ ہے اس فریضے کو انجام دینے کے لیے بچوں کے رسائل اور بچوں کے ادیب اپنی سی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ سارے بڑے اور سارے والدین اپنا یہ فرض فراموش کرچکے ہیں کہ بچے کو ایک کارمد شہری اور ملک وقوم کی خدمت کے جذبے سے کیسے معمور کیا جائے لیکن غور سے دیکھیں اور کتابوں کی اشاعت اور رسائل کی گرتی ہوئی سرکولیشن کا جائزہ لیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ والدین اور بچوں کے بزرگوں نے انھیں کتابوں سے دلچسپی کرانے میں کوئی متحرک کردار ادا نہیں کیا ہے جب کہ سب ہی جانتے اور مانتے ہیں کہ کتاب پڑھنے والا بچہ اس بچے سے زیادہ ذہین اور زیادہ سمجھدار ہوتا ہے جو کتاب نہیں پڑھتا. نفسیات اور سائنس بھی یہ ثابت کرچکی ہیں کہ کہانیاں پڑھنے والے بچوں کی ذہنی استعداد میں ان بچوں کی نسبت زیادہ تیزی اور ذکاوت کی فراوانی دکھائی دیتی ہے جو بچے کہانیاں نہیں پڑھتے. یہ کہانیاں ہی تو تھیں جن سے سائنس و ترقی کو راستا ملا. یہ کہانیوں میں اڑنے والا قالین ہی تھا جو آج ہوائی جہاز کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے. اگر زیادہ باریکی اور گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو آپ کو سائنس کی ساری ترقی ہمارے اسی ادبی خزینے کی مرہون منت نظر آئے گی جہاں جادوئی آئینہ ہمارے گھروں میں چلنے والے ٹیلی ویژن سے پہلے آیا. انسان کو آسمانوں کی سیر پہلے کہانیوں نے کرائی اس کے بعد سائنس نے اسے حقیقی بنانے میں اپنا کردار ادا کیا. یہ کہانی ہی تو ہے کہ جو ہمیں دور دیسوں میں بسنے والے لوگوں کا پتا بتایا کرتی تھی اور آج یہ بات ایسے ہے کہ ادھر انٹرنیٹ آن کیا ادھر ساری دنیا کے لوگوں کی زندگیاں آپ کے سامنے موجود ہوتی ہیں. تو یہ طے ہوا کہ کہانی ہی ترقی کی بنیاد ہے اور کہانی ہی انسانی سماج کی تعمیر میں جوہر قابل ہے. تو پھر ادیبوں کو بھی لکھتے ہوئے اس امر کا دھیان رکھنا ہوگا کہ جس طرح ہر زمانے میں کہانی ترقی اور سائنس کو راستا دکھاتی رہی ہے تو کیوں آج بھی ایسا نہیں ہوسکتا یقیناً یہ آج بھی ممکن اور قابل عمل ہے. تو پھر کہانیوں اور ان کے لکھنے والوں کے کردار کی تعریف انھیں سراہنے میں کنجوسی کیوں کی جائے؟ یہ ادیب ہی تو جن کی وجہ سے سماج میں آج کچھ توازن کا سا رحجان دیکھنے میں آتا ہے اور یہ کہنے کہ ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے تو مذہب کا عنوان بھی اعتدال اور توازن ہے ہم تو وہ لوگ ہیں جو زندگی کو ہر دور میں جینا سکھاتے رہے ہیں تو پھر والدین اور بڑوں کو وقتی روشنی کی چکا چوند سے اس عظیم مقصد کو نہیں بھولنا چاہیے جو ان کے بچے اور ہمارے مستقبل کے لیے ازبس ضروری ہے.
آخری بات میں یہ کہوں گا کہ اگر ہمیں اچھے شہری اور پاکستانی چاہیں تو ہمیں اپنے بچوں کی شخصیت کی تعمیر کی جانب توجہ دینی ہو گی اور ان کی شخصیت کی تعمیر ادب، رسائل اور اچھی کتب سے ہی بہترین انداز میں ممکن ہوسکتی ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان چلڈرن رائٹرز گائیڈ، الٰہی پبلی کیشنز اور ماہ نامہ انوکھی کہانیاں اپنے وسائل کے مطابق بچوں کی شخصیت کے حوالے سے کتب شائع کر رہی ہے اور اسی سلسلے کی کڑی ہماری دیگر کتب کے ساتھ موجود آپ بیتیوں کی کتاب کی اشاعت ہے جس کے ذریعے بچے اپنی شخصیت کی تعمیر کے حوالے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
آپ بیتیوں کی اس کتاب میں شہید حکیم محمد سعید سے لے کر رابعہ حسن تک کی آپ بیتیوں سے بچے اپنے لیے راہ عمل کا تعین کرنا سیکھ سکتے ہیں۔