”سماہنی‘‘ سے میرا پہلا تعارف ایک بائیکر کی زبانی ہوا۔
سننے کو ملا کہ گجرات کے قریب (بھمبر، آزاد کشمیر) کوئی جگہ ہے جہاں پہاڑی علاقوں کی سی بل کھاتی سڑکیں ہیں، دلفریب نظارے ہیں اور بہت پرکشش جنگل ہے۔
سماہنی جانے کی آرزو دل میں بسائے ایسے دوستوں کی تلاش شروع ہوئی جو اس مہم میں میرا ساتھ دے سکیں۔ میں نے آواز لگائی اور آہستہ آہستہ قافلہ بنتا چلا گیا۔
سفر شروع ہوا۔ بھمبر، آزاد کشمیر تک کھڑکی سے باہر کے ماحول میں کوئی خاص فرق محسوس نہ ہوتا تھا۔ بھمبر سے آگے بڑھتے ہی سڑک اوپر کی طرف اٹھنا شروع ہوئی۔ سطح زمین پر پہاڑ نمودار ہوئے اور رات کی تاریکی میں پورا ماحول ایک نئے روپ میں ڈھل گیا۔
اپنے میزبان اشفاق صاحب کی برقی رہنمائی میں ان کی بتائی گئی جگہ تک پہنچے اور پھر گاڑی سے اتر کر ان کے گھر کی طرف بڑھنا شروع کیا جو کہ ایک خوبصورت مثالی دیہاتی گھر کے تمام خواص اپنے اندر جمع کیے ہوئے تھا۔ اشفاق بھائی خوش گوار طبیعت اور اعلیٰ اخلاق کے حامل نہایت حلیم اور بردبار انسان ہیں۔ سامان رکھ کر کچھ دیر آرام کیا تو اشفاق بھائی کی آواز سنائی دی کہ ابھی پہاڑ پر چلنا ہے جہاں باربی کیو، بون فائر اور مقامی گلوکاروں کی ایک محفل منعقد کی گئ ہے۔
رات کے اندھیرے میں پہاڑ نامی مخلوق اور بھی پراسرار ہو جاتی ہے۔ کبھی یہ کسی خوبصورت دوشیزہ کی مانند اپنا تعارف کرواتی ہے اور کبھی اس کا رعب اور دبدبہ دیدنی ہوتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں موبائل فون کی روشنی کی مدد سے چند ڈھلوانوں پر سے ہوتے ہوئے ہم پہاڑ کے اس حصے تک پہنچے جہاں کھانے اور بون فائر کا اہتمام تھا۔ کھانا بہت لذیز تھا اور جس محبت اور اپنائیت سے پیش کیا گیا تھا اس کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں۔ اشفاق بھائی کے ساتھ ساتھ ان کی پوری ٹیم نے اور خاص کر مظہر بھائی نے بڑی محنت سے اس ساری تقریب کے لوازمات نبھائے تھے۔
کھانے سے فارغ ہو کر الاؤ روشن کیا گیا۔ آگ اور پہاڑ میں بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کوئی پہاڑ میں چلتے چلتے آگ لینے جاتا ہے اور امام الوقت بنا دیا جاتا ہے۔
الاؤ کے روشن ہوتے ہی ایک مقامی گلوکار نے کچھ بول چھیڑے اور ہم سب کے نجی دکھ، ٹیس میں بدل گئے۔ کوئی رو دیا، کوئی جھوم اٹھا، کسی پہ وجد طاری ہو گیا۔۔۔
یہ سلسلہ تادیر چلتا رہا اور ہم سب اپنے اپنے وجود کی آگ تاپتے اس الاؤ کا حصہ بنتے رہے۔
اگلی صبح مجھے سورج کو زمین کی دہلیز پہ ملنے جانا تھا سو میں جلدی اٹھا اور سورج کی ملاقات کو روانہ ہوا۔ ٹھنڈک، روشنی اور خوشبو کے دائمی احساس کو خود میں جذب کرکے واپس لوٹا تو اشفاق بھائی کے گھر پہ بنا دیسی ناشتہ اپنے پرتکلف ہونے کا اعلان بار بار کر رہا تھا۔
ناشتے سے فارغ ہوئے تو پہاڑ کی بلندی سے بلاوا آ گیا۔
ہم چل نکلے۔۔۔
پرپیچ راستوں سے ہوتے ہوئے اس مقام تک پہنچے جہاں سے سرحد (لائن آف کنٹرول) کے اُس پار کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ میں اِس بلندی پہ کچھ دیر خاموش بیٹھا اُس پار (مقبوضہ کشمیر) کے لوگوں کی اذیت کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا رہا جو چاہ کے بھی اِس پار نہیں آ سکتے، اپنے پیاروں کو گلے نہیں لگا سکتے، دُکھ سُکھ نہیں بانٹ سکتے۔۔۔
پھر وہ کیسے جیتے ہوں گے، کیسے صبر آتا ہو گا ان کو۔۔۔؟
پس منظر میں کسی نے گیت لگا دیا۔۔۔
”پار چنا دے دسے کلی یار دی۔۔۔‘‘
آہ۔۔۔
یہ دُوریاں، یہ فاصلے۔۔۔
میں نے اپنا سر گھٹنوں میں چھپا لینا چاہا مگر۔۔۔
مجھے ابھی فرصت کہاں تھی۔۔۔
میں نے خود سے اپنے آنسو اُدھار کیے اور اپنے میزبان کی پکار پہ نیچے اُتر آیا۔۔۔
کیوں کہ بہت دیر تک کسی کی نظروں میں چُبھتے رہنا اچھا نہیں ہوتا۔۔۔
یا ڈٹ جانا چائیے
یا ہٹ جانا چائیے
اور مجھے اس وقت ہٹ جانے کا حکم تھا۔۔۔