دیوسائی میں ایک رات – ذیشان رشید

محمد احسن سے میرا تعارف فیس بک کے ذریعے ہوا۔ جہاں گردی ہم دونوں کے مابین رابطے کی وجہ بنی۔ اچھی تصاویر کے ساتھ ساتھ اپنے سفر کی تفصیلی روداد لکھنے کی وجہ سے محمد احسن کو پڑھنا ”مجبوری‘‘ بن گیا البتہ شروع میں ایک دقت پیش آئی کہ احسن کی ہر تحریر میں روایتی سنجیدگی کو زچ کر دینے والی شرارت بھرے فقروں کی ناقابل ہضم مقدار بہت زیادہ ہوتی تھی۔
سفر جاری رہا۔۔۔
جب بھی فیس بک کھولتا، موصوف اپنی غزال شب اور داستان جذب وشوق کے ساتھ سامنے موجود ہوتے۔۔۔
سفر پھر جاری رہا۔۔۔
کبھی اندھیرے میں اور کبھی اُجالے میں۔۔۔
سفر اندھیرے سے اُجالے کی طرف ہو تو تھکاوٹ کا احساس منزل پا لینے کی تسکین میں تبدیل ہو جاتا ہے۔۔۔
مخالف سمت بہاؤ اپنے نتائج اور انجام کے اعتبار سے غیر حتمی، غیر یقینی ہوتا ہے۔۔۔
گنگا چوٹی سے واپسی پہ پنج پیر راکس کی زیارت کا شوق چرایا۔۔۔
جانے سے پہلے علاقے کی معلومات اور جملہ دیگر احوال جاننے کے لیے فیس بک کھنگالنی شروع کی تو محمد احسن ایک بار پھر اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت سامنے موجود ہوئے۔۔۔
احسن کی وال پہ ایک تصویر شائع ہوئی جس میں رات کے وقت مسجد کے اندرونی ہال میں صف بچھائی جا رہی تھی اور سونے کا انتظام کیا جا رہا تھا۔۔۔
اگرچہ یہ ایک عام سی تصویر تھی لیکن مسجد سے ایک عجیب کشش بھرا پیغام بڑے زور دار انداز سے اپنی جانب بلاتا ہوا محسوس ہوا اور میں نے راکس یاترا کی نیت باندھ لی۔۔۔
راکس یاترا کے دوران اس مسجد کے صحن میں محمد احسن آلتی پالتی مارے بیٹھا ہوا نظر آیا۔۔۔
او بائی، آپ سے صرف معلومات درکار تھیں، آپ تو ہمنوا بن رہے ہیں۔۔۔
وہ مسکرایا اور اپنے تہرائی کرنے والے لہجے میں آنکھیں مٹکا مٹکا کے گویا ہوا،
“صئی اے”…
دنوئی رج، ایسڑن رج، ویسٹرن رج، علامہ اقبال ہٹ اور نشست گاہ شمس تبریز پہ بھی میرا استقبال کرنے کو موجود تھا۔۔۔
حد ہے یار۔۔۔
ساتھ چلتے بھی نہیں، صاف چھپتے بھی نہیں۔۔۔
بے پناہ بارش سے قبل، تیز ترین ہوا نے ہمیں اس آخری کونے سے روانہ ہونے پہ مجبور کر دیا جہاں اگر قیام طول پکڑتا تو مجذوبیت غالب آ جانے کے کثیر امکانات تھے۔۔۔
گھر آیا تو احسن کی کتاب ”دیوسائی میں ایک رات‘‘ بذریعہ ڈاک وصول ہوئی۔۔۔

دیوسائی۔۔۔ جہاں پچھلے سے پچھلے برس گیا تھا تو ایک رشتہ قبولیت قائم کر آیا تھا۔۔۔
سفر جاری رہا۔۔۔
کتاب الماری میں پڑی رہی۔۔۔
حتیٰ کہ سفر سکردو کی خوشگواری گرمی کے موسم میں سیراب کر دینے والی پہلی بارش کی مانند نازل ہوئی۔۔۔
کتاب کو آغاز سے پڑھنے کی بجائے وسط میں سے کھولا تو استک نالا جاری ہو گیا۔۔۔
وہی استک جہاں 46 گھنٹے بِلا ارادہ لینڈ سلائیڈنگ کے بعد رکنا پڑا تھا اور جہاں وقت گزاری کےلیے استک گلیشئر کی جانب بھری دوپہر میں سفر شروع کیا تھا تو دل کا غبار کچے پھوڑے کی ٹیس بن کے رخساروں پہ جاری ہو گیا تھا اور ٹریک ادھورا چھوڑ کر واپس آنا پڑا تھا کہ پانچ مزید لوگوں کی ذمہ داری میرے کاندھوں پہ تھی۔
وہی استک کہ جس کے بپھرے پانیوں کو دریائے سندھ میں گرنے سے روکنے کے لیے میں اور سیفی دیوار بننے کا ارادہ لیے ان کے مقام ملاپ تک جا پہنچے تھے جس کے آگے صرف فنا کی سلطنت تھی۔۔۔
میری دکھتی رگ پہ یہ شخص بار بار کیوں ہاتھ رکھتا ہے؟
سکردو پہنچ کے ٹھہرا بھی اسی ہوٹل میں ہے جہاں مجھ پہ نصف شب میں واردات قلب و سوز بیت گئی تھی۔۔۔
امان اللہ کی گھر سے لائی ہوئی خوبانی نما شیرینی، کے ٹو موٹل سے دریائے سندھ کے کنارے تک اترنا۔۔۔
اور سب سے بڑھ کر 119، جس کو اگر 9 میں سے 2 منفی کر کے پڑھا جائے تو 7 بنتا ہے۔۔۔
وہی 7 جو ساری زندگی میرے ہر معاملے میں ملوث رہا۔۔۔
کتاب بند کی، احسن کو فون ملایا۔۔۔
وہ شاید سو رہا ہو گا۔۔۔
جانوں نہ میں تجھ سے میرا رشتہ ہے کیا۔۔۔
اے اجنبی اپنا مجھے تو لگا۔۔۔
احسن اپنے قبیلے کا فرد لگا۔۔۔
کچھ کچھ جھلک فرقہ ملامتیہ کے لوگوں جیسی۔۔۔
بسنتی چولا پہنے جو بھید کو مبالغہ بنائے رکھتے ہیں، نہ بیان ہوتے ہیں، نہ رہ پاتے ہیں۔۔۔
قطرہ قطرہ عیاں ہوتے ہیں اور پھر بھیڑمیں گم ہو جاتے ہیں۔۔۔
دھونی رماتے ہیں۔۔۔
وجد میں لاتے ہیں۔۔۔
مست بناتے ہیں۔۔۔
اور پھر ایک پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ کہیں ہجوم میں غائب ہو جاتے ہیں۔۔۔
پیچھے بس یہ صدا باقی رہتی ہے۔۔۔
جب یار کرے پرواہ میری
مجھے کیا پرواہ اس دنیا کی
جگ مجھ پہ لگائے پابندی
میں ہوں ہی نہیں اس دنیا کی۔۔۔
میں ہوں ہی نہیں اس دنیا کی۔۔۔

دیوسائی میں ایک رات – ذیشان رشید” ایک تبصرہ

  1. گجرانوالہ ایک ایسا شہر ہے جس سے مَیں نے بے انتہا جذب کی حد تک محبت کی ہے۔ برسوں سفروں میں رہ کر بالآخر شیردریائے پنجاب “چناب” نے مجھے جامِ محبت دینا شروع کیے۔ میری کتاب “چولستان میں ایک رات” بظاہر داستانِ صحرا ہے مگر اُس میں چناب کی بے انتہا موجیں اور لہریں موجود ہیں…. کبھی راتوں کے وقت چناب کنارے محوِ سفر رہتے ہوئے، کبھی لوک داستانوں کے ذریعے ہیر، صاحباں اور سوہنی چناب سے برآمد ہو کر طاری رہیں، کبھی رانجھا، مرزا اور مہینوال نے چناب کے زرخیز پانیوں کی پھوار مجھ پر نچھاور کی۔ میری کتاب میں سے جو ریت نکلتی ہے وہ چولستان کے علاوہ چناب کناروں کی ریت ہے۔ میرے قریب ترین احباب چنابی شہروں کے باسی ہیں۔

    ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ چناب تو گجرانوالہ سے کافی دور ہے۔ باطنی نگاہ سے دیکھیں گے تو معاملہ کچھ اور نظر آئے گا۔ چناب جیسے ہی پاکستان میں داخل ہوتا ہے، اپرچناب کینال کے ذریعے اپنی لہرِ عشق گجرانوالہ کی جانب بھیج دیتا ہے تب پورا شہر لبریز ہوتا ہے۔ چناب گجرانوالہ کی گُھٹی میں شامل ہے۔

    چولستان میں ایک رات کتاب کی تقریبِ رونمائی بھی گجرانوالہ میں ہوئی۔ میں گجرانوالہ کے لیے اسلام آباد سے آ رہا تھا تو چناب کنارے پانیوں میں اتر گیا۔ تقریبِ رونمائی میں میرے جسم پر چناب کی ریت موجود تھی اور میرے اردگرد گجرانوالہ کے وہ احباب تھے جن سے میں شدید محبت کرتا ہوں۔ ماضی بعید میں ایک فرد تھا جو میری پوری کائنات تھی، وہ مجھ سے بچھڑ گیا تھا، وہ آج گجرانوالہ میں آباد ہے۔ بہت داستانیں ہیں۔

    یہ میری چناب سے محبت ہے جو گجرانوالہ کے باسیوں کو مجھ سے محبت کرنے اور مجھے ان سے محبت کرنے پر اکساتی ہے۔

    یہ چناب سے محبت ہے جو ملتان، جھنگ، سیالکوٹ، وزیرآباد سے تمام چنابی شہروں کے لوگوں سے مجھے روحانی رابطے میں رکھتی ہے۔ چناب اگر جوش میں آ جائے تو اُس کی محبت بھی دریاؤں جیسی ہوتی ہے۔

    آپ میں چناب بول رہا ہے سر….
    آپ کا بہت شکریہ… 🍁💜🔥

تبصرے بند ہیں