ایک انٹرویو سے ”دل پہ دستک‘‘ تک کا سفرنامہ – بینش خان

آج میں جس کتاب کا ذکر کرنا چاہتی ہوں اس کتاب اور اس کتاب پر ملنے والے آٹو گراف اور مصنف کے تجربے نے مجھے حیران کردیا۔
یہ 21 اپریل 2018ء کی پُرکشش صبح تھی، جس دن میں پیشہ ورانہ طور پر پہلی مرتبہ کسی خاص شخصیت کا انٹرویو کرنے جارہی تھی۔ میرے ساتھ میری رفقائے کار، شائستہ کنول اور صبا غفور بھی تھیں۔ ہم لوگ اُس پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوئے جس نے ہمیں آج اس قابل بنایا تھا کہ ہم کسی اہم شخصیت کا انٹرویو کرسکیں۔ (یہ پلیٹ فارم ہے:‌ ”قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن‘‘۔ میں اس فاؤنڈیشن اور استاد محترم قاسم علی شاہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ہمیں ایسے مواقع فراہم کیے۔ یہاں پر میں علی عباس صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ہماری اس مہارت سے راہنمائی کی اور ہمیں معلومات فراہم کیں کہ ہم نامور شخصیات سے ملنے کے قابل ہوئے۔)
یہاں سے ہم اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوئے اور ”پرفیکشن ہاؤس‘‘ جا پہنچے. ہمیں خوش گوار حیرت اُس وقت ہوئی جب اُسی شخصیت نے دروازہ کھول کر ہمیں خوش آمدید کہا، کہ جن سے ملاقات کرنے ہم آج یہاں موجود تھے۔
جی ہاں۔۔۔ یہ ”پرفیکشن ہاؤس‘‘ محترم اختر عباس صاحب کا ہی ہے۔ اختر عباس صاحب کے روایتی اور اپنائیت بھر ے انداز سے بالکل بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہم کسی بڑے ادیب، ٹرینر اور لائف کوچ کے گھر آئے ہیں۔ بہت ہی خلوص سے انہوں نے ہمیں اپنے دفتر میں بٹھایا۔ حال احوال کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اختر صاحب کی باتیں زندگی کے حقائق کو اس طرح بیان کرتیں ہیں کہ ہر حقیقیت مشاہدے کا منہ بولتا ثبوت محسوس ہوتی ہے۔ ابھی باتوں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ چائے کا اہتمام ہوا۔ اختر عباس صاحب سے ان کی زندگی کے تجربات اور مصروفیات پر بات چیت چلتی رہی۔ ہمیں اختر صاحب کے تجربات، ٹرینر اور رائٹر بننے کے سفر بارے جاننے کا موقع ملا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اختر عباس صاحب بچوں کے مقبول ترین ”پھول میگزین‘‘ اور ”اُردو ڈائجسٹ‘‘ کے مدیر رہ چکے ہیں۔ آپ مختلف موضوعات پر 31 کتابیں لکھ چکے ہیں۔ مختلف میڈیا ہاؤسز کے سٹاف کو ٹرینینگ دیتے ہیں۔ بات چیت کے دوران کھانے کا اہتمام بھی ہوا۔ آپ کی بیگم کے ہاتھ کا بنا ہوا روایتی اور لذیذ کھانا کھاتے ہوئے بھی باتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ محترم اختر عباس کی بیگم سے ملاقات بھی ہوئی جو بہت ہی سلجھی ہوئی خاتون ہیں۔ ہم نے ان کے اس پُر تکلف اہتمام کا شکریہ ادا کیا۔ دفتر میں اختر عباس صاحب کے پیارے سے بِلے اور بِلی سے بھی ملاقات ہوئی کہ جن سے اختر عباس صاحب کو بہت اُنسیت ہے۔
اخترعباس صاحب کی لکھی کتابوں کو دیکھنے کے لیے ہماری دلچسپی بڑھتی جارہی تھی۔ آخر کار ہم نے اختر عباس صاحب سے اُن کی کتابیں دیکھنے کی فرمائش کی۔ جیسے ہی انہوں نے کتب کے درشن کرائے، ہم اُن کی کتابوں پر ایسے جھپٹے جیسے برسوں کا پیاسا پانی دیکھ کر مچلتا ہے۔ ہم تینوں نے اپنی اپنی پسند کی کتابیں اُٹھا لیں۔ میں نے اپنے لیے دوکتابیں پسند کیں: ”6 عادتیں، جو آپ کو قابلِ فخر بنائیں‘‘ اور ”وننگ لائن پر کون پہنچاتا ہے؟‘‘۔ لیکن میرے دل میں ایک کسسک تھی کہ اختر صاحب سے کہوں کہ وہ ہمارے لیے خود سے بھی کوئی کتاب تجویز کریں۔ وہ ابھی اور کتابیں نکال ہی رہے تھے کہ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا: ”بینش بیٹا! آ پ نے کون سی کتابیں لی؟‘‘ تو میں نے اپنی پسند کی کتابیں انہیں بتائی۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے یہ کتاب کیوں نہیں لی: ”دل پہ دستک‘‘
میں نے جواب دیا: سر میں سوچ ہی رہی تھی کہ آ پ سے کہوں کہ آپ ہمیں، ہمارے لیے کوئی کتاب تجویز کریں۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا: اِسی لیے یہ کتاب آپ کو تجویز کی ہے۔ میں کتاب کے نام سے بہت حیران ہوئی کہ اس کتاب میں ایسی کیا پڑھنے والی کام کی بات ہوگی؟۔ میں نے اختر صاحب سے درخواست کی مجھے اسی کتاب پر آٹوگراف دے دیں۔ جب کہ میں اس سے پہلے اپنی ڈائری پر آٹو گراف لے چکی تھی۔ اب اس کتاب پر ملنے والے آٹو گراف نے مجھے نہ صرف اور زیادہ چونکا دیا بلکہ میری آنکھیں بھی نم ہوگئیں، جنہیں میں نے چھپانے کی پوری کوشش کی اور اختر صاحب سے بس اتنا ہی پوچھ پائی کہ سر آپ کو کیسے پتہ چلا؟

کیوں کہ آٹو گراف کے اس جملے کو پڑھ کر میری جو کیفیت تھی، وہ بیان کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے جواب دیا: میں نے آپ کے بارے میں جو لکھا ہے، بالکل صحیح لکھا ہے۔ جب آپ اس کتاب کو پڑھو گی تو سمجھ آجائے گی‘‘۔ اس وقت ان کے لہجے میں جو بُزرگی اور شفقت تھی وہ واضح کر رہی تھی جیسے وہ واقعی سمجھ کر اورتجربے کی بنیاد پر لکھتے ہیں۔ میری زندگی کا یہ لمحہ بے حد یادگار ہے اور رہے گا۔ اختر عباس صاحب کے ان الفاظ کی میں بے حد شکر گزار ہوں. شاید میں اس قابل نہیں مگر انہیں کیسے اور کیا نظر آیا، یہ اللہ ہی بہترجا نتا ہے۔ میں چاہتے ہوئے بھی بیان نہیں کرنا چاہتی۔ چلتے چلتے انہوں نے مجھے ایک اور کتاب تجویز کی ”کیسے بننا ہے چمکتے ستارے‘‘۔ جس کو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بینش آ پ کا تعلق بچوں کو پڑھانے کے شعبہ سے ہے تو آپ کے لیے یہ کتاب بھی بہت مفید ہے۔ میں نے فوراً اس کتاب کے چند صفحے اُلٹ پلٹ کر دیکھے، چند لمحات میں اس کتاب سے چند باتیں پڑھیں اور کوئی لمحہ ضائع کیے بنا کتاب لے لی۔
ہم سب نے اختر عباس صاحب کا شکریہ ادا کیا اور واپس اُسی پلیٹ فارم کی طرف لوٹ آئے جس پلیٹ فارم نے ہمیں اس انٹرویو کاموقع دیا تھا۔
میں نے کتاب ”دل پہ دستک‘‘ کو پڑھنا شروع کیا۔ جیسے جیسے پڑھتی گئی بہت سی باتوں نے دل پر حیران کن اثر کیا۔ 31 کتابوں کے یہ مصنف اور افسانہ نگار میری نظر میں ایک چلتے پھرتے اُس قلم کی مانند ہیں جو اپنی نظر کے تجربے سے دیکھتے ہوئے، اپنے دل کی بوندوں سے احساسات کو اپنی تحریروں میں قید کر لیتے ہیں۔ ان کی اس کتاب سے ایک بے حد خوبصورت اقتباس نذرِ قارئین:
”سوچتا ہوں کہ کاش کچھ ایسا ہی بے ضرر اور معصو م کام اپنے ہاتھوں بھی ہوجائے کہ کل خود رہیں نہ رہیں اس کا ثواب تو ملتا رہے اور پھر 20، 22 سال بعد کوئی لکھنے والا لکھے کہ ہاں بارش تو ہو رہی ہے مگر میں چھتر ی لیے مسجد جارہا ہوں کیوں کہ اطاعت کا تو اپنا ہی مزہ ہے. یہ زندگی کا حُسن بڑھاتی ہے، واقعی بہت آگے لے جاتی ہے۔ مگر یہی ہم سے ہوتا نہیں‘‘
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اخترعباس صاحب کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور وہ اِسی طرح اس ملک کے نوجوانوں کی راہ نمائی کرتے رہیں، آمین۔


بینش خان تعلیم کے پیشے سے بطور ماہر مضمون آئی ٹی، وابستہ ہیں. آپ ایک قابل ٹرینر ہونے کے ساتھ ساتھ گرافکس ڈیزائنر بھی ہیں. علاوہ ازیں آپ اشاراتی زبان (Sign Language) کی مترجم اور بلاگ رائٹر بھی ہیں. بنیادی طور پر بینش خان کا تعلق لاھور سے ہے.

3 تبصرے “ایک انٹرویو سے ”دل پہ دستک‘‘ تک کا سفرنامہ – بینش خان

  1. Assalam o alaikum .ye article mje boht acha laga..q k es article me beenish khan ne apny us experience ka zikr kia hai.jo aik interview se Dil ki dastk tk ka safr hai..me b us din beenish k sath ti..hmry lye ye aik new experience tha..aur hmy sr akhtr abbas se boht kuch seekhny ko mila.meri yhi khawish hai k beenish aisay hi apny experiences ko share key
    Saba ghafoor

  2. وعلیکم السلام صبا غفور صاحبہ
    تحریر کی پسندیدگی کا بے حد شکریہ، امید ہے آپ بھی جلد اپنی نگارشات سے ’’کتاب نامہ‘‘ کو نوازیں گی۔

  3. AKHTER ABBAS KAY BARAY MAN MAZMON KA MUTALLAH KEYA WAQI AKHTER ABBAS KA BA KAMAL SHAKSEYAT HAN OR UN KA ANDAZ BHE BHOT KHUB HAY. AKHTER ABBAS KAY BARAY MAN ITNA UMDA MAZMOON SHAYAH KARNAY KA SUKRIYA. KITAABNAM A URDU ADAB KI ACHEE KIDMAT KAR RAHA HAY.

    MEHBOOB ELAHI MAKHMOOR EDITOR MONTHLY ANOKHI KAHANIYAN KARACHI

تبصرے بند ہیں