قیمتی لمحات کی کہانی – مبشر علی زیدی

’’یہ جیو کے پروڈیوسر ہیں، آپ سے ملنے آئے ہیں۔‘‘ سروش صاحب نے کمرے کے دروازے سے میرا تعارف کروایا۔
یوسفی صاحب نے خالی خالی نگاہوں سے مجھے دیکھا۔
میں جھجکتا ہوا اس کمرے میں داخل ہوا جو پرانی کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ لیکن یوسفی صاحب کی سامنے ان کی اپنی نئی کتاب دھری تھی۔ وہ اس پر دستخط کررہے تھے۔
دستخط کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ چند لمحے۔
لیکن مجھے ایسا لگا کہ وہ بہت بنا سنوار کر، آہستہ آہستہ، بہت پیار سے قاری کا نام لکھنے کے بعد اس کے نیچے دستخط کرتے ہیں۔
کچھ دیر بعد کھلا کہ وہ اس لیے آرام آرام سے لکھ رہے ہیں کہ ان کا ہاتھ لرز رہا ہے۔
یوسفی صاحب کی عمر نوے سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔
سروش صاحب نے کہا تھا، ان کی طبعیت اچھی نہیں۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ ان کے پاس چند منٹ سے زیادہ نہیں بیٹھوں گا۔
میں ان قیمتی لمحات کو کمرے کا جائزہ لینے اور گفتگو کرنے میں خرچ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں انھیں قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔ انھیں بولتے ہوئے سننا چاہتا تھا۔ لیکن وہ خاموشی سے کتاب پر دستخط کرتے رہے۔ ایک صاحب ان کے پاس بیٹھے تھے۔ سفید بال، سفید داڑھی، چہرے میں کشش۔ میرا جی چاہا کہ ان سے بات کروں لیکن میں نے خود کو باز رکھا۔ ان کے پاس نئی کتاب کی کئی کاپیاں تھیں۔ وہ مختلف ناموں کی پرچیاں دیتے تھے اور یوسفی صاحب وہ نام لکھ کر دستخط کردیتے تھے۔
مجھے خیال آیا کہ ان کی کتابوں پر دستخط کرتے کرتے یوسفی صاحب کا سانس پھول جائے گا اور میری باری نہیں آئے گی۔ میں نے بے چینی سے پہلو بدلا تو وہ سمجھ گئے۔ انھوں نے مجھے اشارہ کیا۔ اب یوسفی صاحب میری طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے نحیف آواز میں سی پوچھا، ’’آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
’’بچھوؤں والے امروہا سے۔‘‘
میں نے یوسفی صاحب کے چہرے پر روشنی پھیلتے دیکھی۔ ان کی نئی کتاب ”شامِ شعرِ یاراں‘‘ کا ایک باب امروہے والوں کے بارے میں ہے۔ اس کا عنوان ہی ”آم، روہو اور بچھو‘‘ ہے۔
میری گود میں یوسفی صاحب کی پانچوں کتابیں تھیں۔

میں نے ”شامِ شعرِ یاراں‘‘ آگے بڑھائی۔ انھوں نے پہلے میرا نام لکھا۔ پھر اپنا نام لکھا۔ مجھ پر نشہ طاری ہوگیا۔ یوسفی صاحب نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے دوسری کتاب تھامی اور رسان سے پوچھا، ’’صرف دستخط کردوں؟‘‘
میں نے سر ہلایا۔ وہ لکھنے لگے تو میں نے بتایا کہ میں دستخط شدہ کتابیں جمع کرنے کا عادی مجرم ہوں اور میرے پاس ”آرٹ بک والڈ‘‘ کی دستخط شدہ کتاب بھی ہے۔
یوسفی صاحب بہت خوش ہوئے۔ دو دستخطوں کے بیچ کے وقفے میں دریافت کیا، ’’بک والڈ سے دستخط کہاں اور کیسے کروالیے؟‘‘
میں نے انھیں بتایا کہ میرے شیلف کے ایک خانے میں صرف مشتاق احمد یوسفی، آرٹ بک والڈ اور خوش ونت سنگھ کی کتابیں ہیں۔
وہ صاحب جو ان کے پاس بیٹھے تھے، پوچھنے لگے کہ میں کیا کرتا ہوں۔ کتاب کی تقریبِ رونمائی میں کیوں نہیں آیا۔ جیو نے تقریب کی کوریج کیسی کی۔
میں نے کہا، کل ملتان میں ضمنی انتخاب تھا لیکن پھر بھی جیو نے پرائم ٹائم بلیٹن میں اُردو کانفرنس اور یوسفی صاحب کی کتاب کے بارے میں رپورٹ نشر کی تھی۔
یوسفی صاحب میرے لیے اپنی پانچوں کتابوں پر دستخط کرچکے تو میں نے کہا، ’’آپ نے زندگی بھر دوسروں کا منہ میٹھا کیا ہے۔ میں آپ کے لیے شکر پارے لایا ہوں۔‘‘
”شکر پارے‘‘ میری کتاب کا نام ہے۔
’’میں ضرور پڑھوں گا۔‘‘ یوسفی صاحب نے وعدہ کیا اور میرے سامنے اسے کھول کر کئی ورق پلٹے۔
اب ان صاحب نے اپنا نام بتایا، ’’مجھے ارشد کہتے ہیں۔‘‘
’’ارے، آپ تو یوسفی صاحب کے بیٹے اور سروش صاحب کے بھائی ہیں۔ میں تو آپ کو اپنی طرح کوئی ملاقاتی سمجھ رہا تھا۔‘‘
میں نے اجازت چاہی۔ یوسفی صاحب نے الوداعی مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔
میں نے میٹھے میٹھے جملے لکھنے والا وہ لرزتا ہوا ہاتھ چوم لیا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
(جمعہ 17 اکتوبر 2014، شام ساڑھے پانچ بجے، بر مکان محترم مشتاق احمد یوسفی)

اپنا تبصرہ بھیجیں