جیپ رائے کورٹ پل سے چلی تو 2016ء کی وہ شام مجھے یاد آگئی جب گوجرانوالہ سے مسلسل 27 گھنٹے کا سفر کر کے میں یہاں پہنچا تھا اور بغیر آرام کیے، بغیر کچھ کھائے پیے، ہم نے فیری میڈوز کی جانب اپنے سفر کا آغاز کر لیا تھا۔
جیپ ٹریک تین جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا۔ ہمیں تین گاڑیاں بدل کے فیری میڈوز تک پہنچنا پڑا۔ راستے میں کافی سفر اپنے سامان سمیت پیدل بھی طے کرنا پڑا۔
جیپ نے رات آٹھ بجے ہمیں تاتو اتارا تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ مزید چار گھنٹے کا ٹریک طے کر کے آگے جائیں یا یہیں رات گزارنے کی کوئی صورت سوچیں۔ کیوں کہ یہ سارا سفر بغیر کسی معقول منصوبہ بندی کے کیا گیا تھا اس لیےکسی کے پاس بھی آگے کا مؤثر لائحہ عمل نہیں تھا۔
بالآخر ہم نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور رات گئے جب ہمارا دوست نڈھال ہو کے گر گیا تو مجبوراً جنگل میں کیمپ لگا کر ہی رات گزارنا پڑی۔ ہمارے پاس نہ کھانا تھا نہ پانی، اور نہ ہی سردی سےبچنے کا کوئی معقول انتظام۔ اس کسمپرسی کی حالت میں بڑی بے بسی کے ساتھ جب اپنے سفری بیگ کو ٹٹولا تو ڈبل روٹی کے کچھ ٹکڑے اور دودھ کا ایک چھوٹا پیکٹ میسر آ گیا جو اس وقت غنیمت لگا۔ اللہ اللہ کر کے رات گزری اور صبح اٹھ کے فیری میڈوز کو بھاگتے دوڑتے ہاتھ لگا یا اور الٹے پاؤں واپس نکل گئے۔
آج دو برس بعد پھر سے وہی سفر درپیش تھا مگر اب کی بار منزل مزید آگے تھی۔
میں نانگا پربت بیس کیمپ جانا چاہتا تھا۔۔۔
نجانے کیوں، کب اور کیسے مجھے نانگا پربت سے عشق ہوگیا۔ نانگا پربت۔۔۔ شہنشاہ پربت۔۔۔
جس کی ہر ادا نرالی۔۔۔
جو دنیا کے باقی تمام پہاڑوں کی نسبت زیادہ پرکشش، زیادہ پر ہیبت۔۔۔
جس کی فتح کا خواب لیے نجانے کتنے سورما آج اس کے قدم میں بچھے گلیشئر کی منوں برفوں تلے دب چکے۔۔۔
جو نہ ہو تو پاکستان میں چاروں موسم بھی نہ ہوں۔۔۔
جس کا باقاعدہ کوئی Key Stone ہی نہیں۔۔۔
جس کی کنشوفر وال ابھی تک کوہ پیماؤں کو دعوت تسخیر دیتی ہے۔
نانگا پربت کے قریب جا کر اس کا دیدار کرنا، اس کو محسوس کرنا رفتہ رفتہ ایک خواب کی شکل اختیار کر گیا۔۔۔
آج اسی خواب کی تکمیل کے لیے میں پھر سے تاتو جانے والی جیپ میں سوار تھا۔
موسم خوشگوار تھا۔۔۔
کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد گرد اور تیز ہوا کر طوفان نے ہمیں آ لیا۔
گاڑی روکنی پڑی، راستہ پہلے کی نسبت بہتر حالت میں تھا مگر اس کی خوفناکی اب بھی جوں کی توں قائم تھی۔
جیپ اس پُرخطر راستے پر لہراتی، بل کھاتی بڑی خماری کے ساتھ اگے بڑھ رہی تھی۔ میں دائیں بائیں کے مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہوا ماضی کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔ وقت اپنی پوری رفتار کے ساتھ عربی گھوڑے کی مانند بگٹٹ بھاگتا چلا جا رہا تھا۔
اپنا بچپن یاد آیا جب نیا نیا سائیکل چلانا سیکھا تو وہ خوشی آج بھی انمول لگتی ہے۔ پھر ٹانگیں زمین تک آنے لگیں اور موٹر سائیکل چلانے کی اجازت مل گئی۔ ابا جی نے گاڑی خریدی تو میں للچائی ہوئی نظروں سے آتے جاتے اس جگہ کا طواف کرنے لگا جہاں گاڑی کی چابی رکھی جاتی تھی۔
پانچویں جماعت کے بعد شہر کے سب سے بڑے سکول میں داخل کروایا گیا تو سکول کے پرنسپل ابا جی کے کالج فیلو نکلے۔ انٹرویو میں مجھ سے سوال پوچھا گیا:
”ہوا میں اڑنے والے جہاز کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟‘‘
جواب عرض کیا: ”Aeroplane‘‘
حساب کے سوال کا جواب البتہ غلط دیا۔ حساب کتاب میں آج تک یہ کمزوری جوں کی توں ہے اور زبان دانی میں بھرم قائم ہے۔
کالج کا زمانہ یاد آیا جب پہلے دو سال محض اس لیے سفید شلوار قمیض پہن کر کالج جاتا رہا کہ کالج کے پراسپیکٹس میں لکھا تھا۔
سال سوئم میں لاہور داخلہ لے لیا اور اگلے سات برس تعلیم مکمل کرنے سے عملی زندگی کے آغاز تک کے مراحل اسی شہرِ بے مثال میں طے ہوئے۔
ابا جی کا ہم سے رخصت ہونا یاد آیا جب 10 مئی 2012ء کی صبح انھوں نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا اور اس لمحے کا درد آج بھی نہیں جاتا۔
اتنا سب کچھ بیت گیا اور اب جو پلٹ کے سوچتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پلک جھپکنے میں سب کچھ بیت گیا۔
اسی سوچ میں گم تھا کہ جیپ ایک زوردار جھٹکے سے رکی اور ”تاتو‘‘ آ گیا۔
تاتو وہ آخری گاؤں ہے جہاں تک جیپ جاتی ہے۔ اس گاؤں میں گرم پانی کا ایک چشمہ ہے جس کا درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہے کہ آپ اس پانی میں انڈہ یا آلو اُبال سکتے ہیں۔ یہاں سے تین گھنٹے کا پیدل ٹریک طے کرکے فیری میڈوز پہنچا جاتا ہے۔ اس راستے پہ اگرچہ اب خچر کی سواری کی سہولت بھی موجود ہے۔
فیری میڈوز کو آسٹریا کے ایک سیاح نے 1937ء میں دریافت کیا تھا۔ اس جگہ پہ آسمان کے ستارے اس قدر قریب دکھائی دیتے ہیں کہ سچ مچ یہ جگہ پریوں کا مسکن لگتی ہے۔
ٹریک شروع ہوا تو اب کی بار گزشتہ آمد کی نسبت قدرے آسانی محسوس ہوئی۔ مقامی لوگوں کے مطابق کسی وقت میں جیپ اوپر فیری میڈوز تک جاتی تھی لیکن پھر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ اس راستے کی مناسب دیکھ بھال نہ کر سکے اور یہ راستہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کے مسدود ہو گیا۔ پیدل آمدورفت البتہ جاری رہی سو راستے کا نشان قائم رہا۔
حکومت اس حوالے سے بے نیاز ہے۔
شام ہونے سے پہلے فیری میڈوز پہنچ کر ہم نے اپنے ہوٹل کی بکنگ کرنے والے دوست سے رابطہ کرنا چاہا اور ایک دو مرتبہ پوچھنے پر ہمیں ہماری مطلوبہ جگہ پہنچا دیا گیا۔
نیاز بھائی بہت خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ بڑی محبت سے ہمیں وصول کیا، ہمارے خیمے تک ہماری رہنمائی کی اور پھر ہمارے لیے کھانا تیار کروانے چلے گئے۔
لکڑیوں کے چولہے پہ کھانا پکنے میں وقت تو شاید زیادہ لگتا ہے لیکن کھانے میں جو لذت آتی ہے اس کا اندازہ سوئی گیس پہ پکنے والے کھانوں کے رسیا نہیں جان پاتے۔
یہاں لوگوں نے سارا نظام اپنی مدد آپ کے تحت سنبھالا ہوا ہے۔ علاقے کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اوپر سے آنے والے گلیشیائی چشمے پہ 5kv کی ایک موٹر لگائی گئی ہے جس سے اہل علاقہ اپنی بجلی کی بنیادی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں ”پیناڈول ایکسٹرا‘‘ ہر درد کی دوا ہے۔ کوئی باقاعدہ ڈسپنسری یا مرکز صحت یہاں موجود نہیں۔
جنگل کے بیچوں بیچ کاٹیج اور خیمہ میں رات گزارنے کی سہولت موجود ہے۔
نیاز بھائی نے اطلاع دی کہ کھانا تیار ہے۔ دن بھر کی مشقت نے بھوک کو چمکا دیا تھا۔ ہاتھ نوالے کی طرف بڑھا اور پھر ہم یہ بھول گئے کہ کھانا بھوک دیکھ کے کھانا چائیے، گھڑی دیکھ کے نہیں۔
کھانا بہت مزیدار تھا۔ ہم نے کھانا بنانے والوں کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور کھانے کے بعد ”بون فائر‘‘ میں شرکت کرنے کے لیے بڑھ گئے۔
مجھے نہیں معلوم کہ بون فائر کی موجودہ شکل کب رائج ہوئی البتہ جنگل میں بیٹھ کے آگ کے الاؤ کے گرد اپنا عکس دیکھنا ایک بہت ہی پر لطف تجربہ ہے۔ آگ نے ماحول کی سردی کو کچھ کم کیا اور ہم اس خوشگوار کیفیت کے ساتھ اپنے خیمے کی طرف گئے کہ کل محبوب کا دیدار ہو گا۔
اگلی صبح کا آغاز ہم نے ہلکی ورزش سے کیا کیوں کہ آج ہم کو مسلسل 12 گھنٹے پہاڑوں میں پیدل چلنا تھا۔
فیری میڈوز سے نکلنے کے بعد ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پہ پہلا پڑاؤ بیال کیمپ ہے۔ یہ جگہ بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ ایک چشمہ اس خوبصورتی سے جنگل کے درمیان بہتا چلا جاتا ہے کہ مسافرِشوق کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ چشمے کے پانی کی کھنکھناہٹ سنے یا محبوب کی ملاقات کا قصد جاری رکھے۔
بیال کیمپ سے ملنے والی چائے کی ہم نے بے پناہ تعریف کی۔ ذائقے میں فرق کو گائے کے دودھ سے بنی ہوئی چائے سمجھتے رہے۔ وہ تو بعد میں ہوٹل کے سادہ لوح مالک نے بتلایا کہ یہ ”نیڈو‘‘ کی چائے ہے۔ میری ہنسی رکنے میں نہیں آ رہی تھی۔ نیڈو کی چائے کا ذائقہ اب شاید بہت دیر تک یاد رہے۔
چائے پی کر ہم آگے بڑھے تو راستے نے کچھ کٹھنائی اختیار کی۔ قدرے بڑی چٹانیں مسافرِشوق کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہار نہ ماننے والوں کے لیے البتہ ”ویو پوائنٹ‘‘ کے بعد ایک دم منظر تبدیل ہو جاتا ہے اور چھوٹے چھوٹے پتھروں سے اَٹا ہوا، سانپ کی لکیر جیسا راستہ گلیشئر کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
نانگا پربت کا گلیشئر بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ببر شیر کی طرح اپنے لحیم شحیم جثے کے ساتھ ہر موڑ پر موجود دکھائی دیتا ہے۔ اس جگہ گلیشئر سے آتے دو تیز رفتار نالے ایک الگ آزمائش ہیں۔ مقامی لوگوں نے یہاں بھی لکڑیوں کے تنے استعمال کرکے چھوٹے چھوٹے پُل بنا دیے ہیں۔ یہاں سے کچھ مزید آگے جائیں تو ایک بہت خوبصورت چراہگاہ آپ کو خوش آمدید کہنے کو موجود ہے جس میں کھِلے رنگ برنگے پھول مسافرِشوق کو دیوسائی کی یاد دلاتےہیں۔ یہاں سے ایک آخری چھوٹی سی دکھائی دینے والی پہاڑی کے اُس پار آپ کے خوابوں کی جنت موجود ہے۔
میں بہت تھک چکا تھا۔ وزن اٹھا کر چلنے کی وجہ سے کندھوں میں خاصی تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن شوق کی راہ بڑی خود دار ہوتی ہے۔۔۔
نہ رکنے دیتی ہے، نہ جھُکنے دیتی ہے۔۔۔
میں آہستہ آہستہ اس کی جانب بلند ہوتا گیا۔۔۔
آخری سرحد پہ پہنچ کر جو اوپر دیکھا تو وہ بانہیں پھیلائے سامنے موجود تھا۔۔۔
شہنشاہ پربت۔۔۔
نانگا پربت۔۔۔
پربتوں کا پربت۔۔۔
میں اس جگہ جا پہنچا جہاں میرے پیش رو اس راہِ شوق پہ چلتے ہوئے اپنا آپ گنوا بیٹھے تھے اور اب ان میں سے چند کے ناموں کی یادگاری تختیاں وہاں لگی ہوئی تھیں۔
ہرمن بوہل وہ پہلا کوہ پیما ہ تھا جس نے 3 جولائی 1953ء کو پہلی بار نانگا پربت سر کر کے اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر کر لیا۔۔۔
میں ایک پتھر کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کرلیں۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ مہم کے آخر میں جب اوپر موسم خراب ہوا تو بوہل کے ساتھیوں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ بوہل اپنے ارادے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے تنہا آگے جانے کا ارادہ عمل کی صورت ڈھال دیا۔۔۔
تنہا فیصلے کرنے والے بڑے دلیر لوگ ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے فیصلوں کی قیمت چکانے کوئی ان کے ساتھ نہیں آئے گا۔ یہ بوجھ انھیں تنہا اٹھانا پڑے گا۔ شاید اسی لیے وہ بے نیازی کے اعلیٰ ترین مقام پہ فائز ہو کر اپنے فیصلے کرتے ہیں۔
اس فیصلے کو آپ اپنے گھر میں بیٹھ کر نہیں سمجھ سکتے۔ پہاڑ میں جانا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ بہت مشقت بھرا کٹھن راستہ ہے۔ اپنا پورا طرزِ زندگی معطل کرنا پڑتا ہے۔ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔ بھوک، پیاس، تھکاوٹ سب نظر انداز کر کے صرف اپنی منزل کی جانب چلتے رہنا ہوتا ہے۔ اس تمام مجاہدے کو خود پہ بِتا کے سفر کے فیصلہ کن مرحلے میں خواہش سے دست بردار ہونا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
بوہل نے بھی سر دھڑ کی بازی لگا دی۔۔۔
جب وہ اوپر پہنچا ہو گا تو اسے پہلا خیال کیا آیا ہو گا؟
اس کے محسوسات کیا ہوں گے؟
اس نے اپنی کامیابی کس کے نام کی ہو گی؟
کِس کو خوشی سے چلا کے پکارا ہو گا؟
کس کا شکریہ ادا کیا ہو گا؟
میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا۔۔۔
پھر کہیں بادلوں کی اوٹ سے اچانک ”وہ‘‘ دکھائی دیا۔۔۔
میں کچھ دیر ”اُس‘‘ سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔
وہ میری خواہش کی لاج رکھتے ہوئے میرے قریب آیا اور میں نے اپنا وجود اس کے وشال کندھوں کو سونپ دیا۔
میں اپنا بوجھ اٹھائے جب تھک جاتا ہوں تو وہ مجھے سنبھال لیتا ہے۔ مجھے تھپکی دیتا ہے، مجھے حوصلہ دیتا ہے، میری مشکل آسان کرتا ہے۔
اس وقت ایک فیصلہ وہیں بیٹھے ہوئے کر ڈالا۔۔۔
اب تک جیسی عمر بِتائی بیت گئی
اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام
نہ جانے وہ وصل کا لمحہ تھا یا فراق کی گھڑی۔۔۔
تیز ہوا کاایک جھونکا میری جانب آیا اور اعلان کر گیا:
”ملاقات کا وقت ختم ہوا۔۔۔‘‘
میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا مگر محبوب کا حکم سر آنکھوں پہ۔۔۔
میں واپس پلٹا اوراس نے بھی گہرے بادلوں میں خود کو چھپا لیا۔
میں اس کے دیدار کی مٹھاس لیے واپس مڑا اور۔۔۔
جلدی میں
اسے
اللہ حافظ بھی نہ کہہ سکا۔۔۔!