حکیم سعیدؒ اور سیاحت:
شہید حکیم محمد سعیدؒ۔۔۔ الحمدللہ حکیم، حاجی اور حافظ قرآن تھے، لیکن وہ تو معلم بھی تھے، وہ مصنف بھی تھے۔ ہاں حکیم سعیدؒ سیاح بھی تھے۔ لوگوں کو جان کر حیرت ہو گی کہ حکیم سعیدؒ نے جتنے سفر نامے لکھے، اتنے (اُردو ادب میں) پورے برِصغیر پاک وہند میں کسی نے نہیں لکھے۔ 26 جون 2016ء کو پاکستان کے مشہور انگریزی اخبار ”ڈان‘‘ میں A treasure trove نامی مضمون شائع ہوا، جس میں ضیاء اللہ کھوکھر نامی ایک شخص کی خدمات کے بارے میں لکھا گیا۔ ضیاء اللہ صاحب مختلف کتابوں، اخباروں اور رسالوں کو محفوظ کرتے ہیں۔ مضمون میں مصنف نے لکھا، میں حیران ہوا، جب میں نے جانا کہ سب سے زیادہ تعداد میں سفر نامے مرحوم حکیم سعیدؒ نے لکھے ہیں، یعنی چھپن (56)۔
مقصدِ سیاحت:
سب سے زیادہ دل چسپ بات یہ ہے کہ حکیم سعیدؒ دوسروں کی طرح سیاحت نہیں کرتے تھے۔ بقول حکیم سعیدؒ: ”ایسے بہت سے انسان ہیں کہ جو سفر کرتے ہیں، مگر ان کے سفر کا مقصد آرام و آسایش ہوتا ہے۔ سیر اور تفریح کر کے وہ جیسے گئے تھے، ویسے ہی واپس آ جاتے ہیں۔ نہ کوئی کتاب لکھتا ہے اور نہ سفر سے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ نہ اپنا علم بڑھتا ہے اور نہ دوسروں کا علم بڑھتا ہے۔‘‘ (حوالہ: سعیدؒ سیاح فن لینڈ میں، ص14)
اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ حکیم سعیدؒ کس غرض سے سیاحت کرتے تھے۔ صرف اور صرف علم کی روشنی پھیلانے کے لیے اور ملک و ملت کی بھلائی کے لیے!
کام، کام، کام اور صرف کام!
”یہ تھا حکیم سعیدؒ کا مقصدِ سیاحت، لیکن حکیم سعیدؒ کس طرح سیاحت کرتے تھے، وہ جاننا بھی ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح کا فرمان تھا: ”کام، کام، کام اور صرف کام!‘‘
اس اُصول کو حکیم سعیدؒ نے ہمیشہ سامنے رکھا۔ عام طور پر لوگ سیاحت کے دوران گھومتے پھرتے ہیں اور آرام کرتے ہیں، لیکن حکیم سعیدؒ سفر کے دوران بھی کام میں مشغول ہوتے۔
حکیم سعیدؒ ”ڈیوک ایڈ نبرا ایوارڈ‘‘ (The Duke of Edinburgh’s Award) کے فیلو رکن تھے۔ اس حوالے سے وہ ایک بار 1995ء میں لندن گئے۔ وہ کام میں کس قدر لذت محسوس کرتے تھے، وہ ان کی تحریر سے پتا چلتا ہے:
”نونہالو! رات نماز مغرب عشا ملا کر پڑھ کر فارغ ہوا تو سوا بارہ بج چکے تھے، میرے پاس سیارہ ڈائجسٹ ہے، اس کا ایک مضمون پڑھا۔ ساڑھے بارہ بجے سو گیا۔ آج صبح 4 بجے میں نے کام شروع کیا تھا۔ تمام دن مصروفیتوں میں گزرا۔ اب گویا کام کرتے ہوئے پورے بیس گھنٹے ہو چکے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں اب بھی تھکن محسوس نہیں کرتا ہوں۔ صبح ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے اٹھ گیا۔ نمازِ فجر کا یہی وقت ہے۔ میں کسی قیمت پر نمازِ فجر قضا نہیں کر سکتا۔ نمازِ فجر ادا کر کے غسل کیا اور اپنا سامان تیار کرنا شروع کیا۔ دس منٹ میں سامان تیار تھا۔ رات کو جو شیروانی دھوئی، وہ خشک ہو چکی تھی۔ اس کو تہ کر کے سوٹ کیس میں جما لیا۔ پورا سفر دو شیروانیوں میں پورا ہو گیا۔ ایک شیروانی پہن لی اور دوسری دھو کے ڈال دی‘‘ (حوالہ: سعیدؒ سیاح پھر لندن میں، ص84)
جولائی 1995ء میں حکیم سعیدؒ کو شہزادہ حسن بن طلال نے اسلامک اکیڈمی اوف سائنس کی رکنیت دی۔ حکیم سعیدؒ اسلامک اکیڈمی اوف سائنس کے دفتر تشریف لے گئے۔ شہزادہ حسن بن طلال نے آنے میں دیر کر دی تو حکیم سعیدؒ نے انتظار کرنے کے بجائے، اس فارغ وقت کا کس طرح استعمال کیا ،ان کی زبانی جانتے ہیں:
”میں نے اپنے دوست انجینئرمنیب زوبی صاحب کی میز سے کاغذات اٹھائے اور ”وارداتِ طبیب‘‘ (کتاب) کے لیے نوٹ تیار کرنے بیٹھ گیا۔ دفتر کی دو سیکرٹری خواتین میرے پاس آ گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ میں بور ہو رہا ہوں گا۔ ان کو کیا معلوم کہ میں اس فرصت سے پورا فائدہ اٹھا رہا ہوں۔‘‘ (حوالہ: سعیدؒ سیاح پھر عمان میں ،ص32)
غرض یہ کہ حکیم سعیدؒ گھومنے پھرنے کے غرض سے سیاحت نہیں کرتے تھے۔ وہ دورانِ سفر بھی مطالعہ، کام اور عبادت میں مشغول ہوتے تھے۔
سیاحت اور قناعت:
1994ء میں ایک بار حکیم سعیدؒ قطر تشریف لے گئے۔ ان کو ڈاکٹر زینت سے ملنا تھا۔ ڈالٹر زینت نے ان کے لیے ہوٹل شیراٹن میں بکنگ کرا لی۔ حکیم سعیدؒ نے ڈاکٹر زینت سے کہا: ”بی بی! یہ ہوٹل تو مجھے باہر سے کاٹ رہاہے۔ اندر جائوں گا تو یہ مجھے نگل لے گا۔ مجھے بڑے ہوٹل سخت ناپسند ہیں‘‘ (حوالہ: سعیدؒ سیاح قطر میں، ص 96)
لیکن ڈاکٹر زینت نہ مانیں۔ اس کے ردِ عمل میں حکیم سعیدؒ نے اپنے نو نہالوں سے فرمایا: ”نونہالو! بڑی ذہنی تکلیف ہوئی، فضول خرچی ہوئی۔ مسلمانوں کا پیسا اس لیے نہیں کہ اسے اس طرح کے آرام پر خرچ کیا جائے۔ مسلمانوں کو اپنا ایک ایک پیسا احتیاط سے خرچ کرنا چاہیے۔ (حوالہ: سعیدؒ سیاح قطر میں، ص 101)
یعنی وہ سیاحت کے دوران سادگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کو سادگی سے عشق تھا، اس لیے سفر کے دوران بھی قناعت سے کام لیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ بھی اپنی کتاب، قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ ”فضول خرچ انسان شیطان کا بھائی ہے۔‘‘ (سورۃ الاسراء (17)، آیت: 27)
سفر کو محفوظ کرنا:
اور ہاں، وہ ہر سفر کو قلم بند بھی کرتے۔ اس طرح وہ اپنے مشاہدے کو خود تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ دوسروں کو بھی علم بانٹتے تھے۔ ان کے سفر نامے پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے حکیم سعیدؒ ہمارے سامنے بیٹھے ہمیں اپنے سفر کی داستان سنا رہے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے سفر کو محفوظ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت کے بعد بھی وہ ہمیں اپنے سفر ناموں کے ذریعے الگ الگ ممالک کی سیر کراتے نظر آتے ہیں۔
سبق:
سعیدؒ سیاح نے ہمیں سبق سکھایا کہ سفر گھومنے پھرنے کا نام نہیں، بلکہ سفر علم حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ سفرکے دوران آرام و آسایش کو ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ اصراف سے دُور بھاگنا چاہیے۔ کام، عبادت اور مطالعے کو اپنی عادت بنانا چاہیے اور ہاں، اپنے سفر کو قلم بند کر کے محفوظ کرنا چاہیے، تاکہ دوسروں کو بھی آپ کے سفر سے فائدہ پہنچے۔
(ہمدرد نونہال)
بچوں اور نوجوانوں کے لیے لکھے گئے شہیدِ پاکستان، حکیم محمد سعیدؒ کے سفرناموں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
1. درون روس ۔ دید شنید
2. ریگ رواں
3. سوئزرلینڈ میں میرے چند شب و روز
4. کوریا کہانی
5. ماہِ سعید
6. ماورالبحار
7. نقشِ سفر
8. ایک مسافر چار ملک
9. شب و روز مع تاثرات سفر دمشق،حلب و جدہ
10. ماہ روز- روزنامچہ سفرِ روس
11. قراقرم کی وادی
12. کولمبس کی راہ پر
13. دنیا کا سفر
14. جاپان کہانی
15. یہ ترکی ہے
16. دہلی میں تین دن
17. یہ جاپان ہے
18. تین دن بغداد میں
19. لندن اور کیمبرج
20. داستانِ حج
21. داستانِ لندن
22. داستانِ جرمنی
23. داستانِ امریکہ
24. فکر جوان
25. پرواز فکر
26. بالیدگی فکر
27. تین شہروں کا مسافر
28. سعید سیاح فن لینڈ میں
29. ڈیلفی سے سونے کی کان تک
30. سعید قاہرہ میں
31. سعید سیاح جرمنی میں
32. سعید سیاح شیراز میں
33. سعید سیاح ٹورنٹو میں
34. سعید سیاح ڈھاکا میں
35. سعید سیاح نیویارک اور واشنگٹن میں
36. سعید سیاح اُردن میں
37. سعید سیاح اسکندریہ میں
38. سعید سیاح سلطنت عمان میں
39. سعید سیاح سلطنت قطر میں
40. ارضِ قرآن میں حکیم محمد سعید سیاح کے شب و روز
41. ڈھاکہ میں سعید سیاح کے چار دن
42. سعید سیاح امریکہ میں
43. سعید سیاح جاپان میں
44. سعید سیاح پھر لندن میں
45. سعید سیاح عمان میں
46. سعید سیاح پھر عمان میں
47. درۂ خیبر
48. دہلی کی سیر
49. بحر اوقیانوس کے پار
50. سعید سیاح تونس میں
51. سعید سیاح ترکی میں
52. سعید سیاح سری لنکا میں
53. سعید سیاح چین میں
54. سعید سیاح تہران میں
55. سعید سیاح کویت میں
56. استنبول کا آخری سفر
57. دو مسافر، دوملک (مسعود احمد برکاتی)
مجھے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا حکیم صاحب جنیوا میں بطور سفیر بن کے گئے تھے کیوں کہ ایک صاحب جنھوں نے اگست 1988 میں جسٹس پیر محمد کرم شاہ کو ویلکم کیا تھا وہ سعید دہلوی تھے۔ میں کنفیوژ ہوں ۔ میرے پی ایچ ڈی کا مقالہ پیر صاحبپیر ئ