میرے ذہن میں آنے والا پہلا خیال یہ تھا کہ یہ کتابیں چوری ہو جانی ہیں۔ یہ سن 2005ء کی بات ہے، میرے لینگوئج سکول کے راستے پر ایک دن ایک لکڑی کی الماری رکھی ہوئی تھی اور اس میں پانچ سات کتب پڑی ہوئی تھیں۔ الماری پر چسپاں ایک کاغذ پر لکھا تھا کہ: ”آپ اپنی مرضی کی کتاب لے جا سکتے ہیں اور پڑھ کر دوبارہ ادھر ہی رکھ دیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی کتاب اضافی ہے تو وہ بھی آپ ادھر رکھ سکتے ہیں۔‘‘
میں نے دیکھتے ہی کہا یہاں چند روز بعد ایک کتاب نہیں رہنی۔ میرے ساتھ سانولی رنگت والی لاطینی امریکا کی طالبہ پریسیلا بھی سکول جا رہی تھی۔ اس نے بھی میری ہاں میں ہاں ملا دی، شاید ہم دونوں کا تعلق ایک جیسے ہی معاشرے سے تھا، جہاں لوگ لائبریری کی کتب میں سے صفحات تک پھاڑ کر گھر لے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہم دوستوں کے درمیان یہ فقرہ مشہور تھا کہ ”جو شخص کسی کو کوئی کتاب مستعار دیتا ہے تو وہ بے وقوف ہے اور جو واپس کر دیتا ہے وہ اس سے بڑا بے وقوف ہے۔‘‘
پھر وقت کے ساتھ ساتھ میرا خیال بالکل غلط ثابت ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں چار کتابوں کی تعداد چھ ہوئی، چھ سے بارہ، بارہ سے چوبیس اور ایک دن یہ الماری مکمل بھر چکی تھی۔ چند روز پہلے کئی برس بعد میرا دوبارہ اسی پرانے راستے سے گزر ہوا تو وہ لکڑی کی الماری لوہے کے فریم میں تبدیل ہو چکی تھی اور وہاں کھڑا ایک لڑکا اپنے لیے کوئی کتاب ڈھونڈ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میرے دل میں پھر ایک مرتبہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ ایسا پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ وہاں ہم لوگ ایسے ہی رویے کا مظاہرہ کیوں نہیں کر سکتے؟
جس مقام پر یہ الماری رکھی ہوئی ہے، اس کے ساتھ ہی جاگنگ ٹریک ہے۔ لوگ واک کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں تو کوئی کتاب اسی الماری سے اٹھاتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔
بون (جرمنی) میں اس وقت ایسی ہی پندرہ الماریاں قائم ہو چکی ہیں اور ہر کوئی ان سے بلامعاوضہ کتب لے سکتا ہے۔ اب تو جرمنی بھر میں یہ روایت زور پکڑتی جا رہی ہے۔ موبائل فون کے انقلاب کے بعد بے کار ہونے والے ٹیلی فون بوتھز کو بھی نجی تنظیموں کی مدد سے ایسی کتب الماریوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
میں نے چند برس پہلے یہ قصہ اپنے علاقے کے مشہور پنجابی شاعر سلطان کھاروی صاحب اور اپنے استاد امتیاز منصور صاحب کو سنایا۔ وہ بھی اس بات پر حیران ہوئے۔ پاکستان میں کھاروی صاحب جب بھی مجھ سے ملتے ہیں تو یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ ”وہاں ابھی تک وہ کتابوں والی الماری ہے؟‘‘ اور میں ہاں میں سر ہلا دیتا ہوں۔
(ہم سب)
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ