کوٹ پرانا پہنو، کتاب نئی خریدو – مستنصر حسین تارڑ

کتاب کی تصنیف وجدان سے ہوتی اور اس کی تشہیر دھیان سے…
کتاب بھی ایک نوعیت کی تخلیقی پروڈکٹ ہوتی ہے، جس کی مناسب مارکیٹنگ نہ کی جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ ایک کلاسیک ہونے کے باوجود زمانے کی گرد میں دفن ہوجائے۔ اگر وہ کسی بک شیلف یا لائبریری میں موجود ہی نہ رہے تو آنے والے زمانوں کا محقق کیسے اُس تک رسائی حاصل کرسکے گا۔

ہر کوئی ناول ”دی لیپرڈ‘‘ کے اطالوی کاؤنٹ کی مانند خوش قسمت نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی پوتا خاندانی گھر کے تہ خانے میں ایک مسودہ دریافت کرکے اسے شائع کروا دے اور وہ ایک کلاسیک ناول کے طور پر پر شہرت پا جائے۔ ہالی وڈ میں اس پر ایک ایسی فلم بنائی جائے جس میں برٹ لنکاسٹر (Burt Lancaster)، کاؤنٹ کا مرکزی کردار ادا کرے۔

ہم نہ تو کوئی اطالوی کاؤنٹ ہیں اور نہ ہی ایسے محل نما گھروں میں مقیم ہیں جن کے تہ خانے ہمارے بھید چھپائے رکھیں اور نہ ہی ہم اپنے پوتوں سے امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے مسودے چھپواتے پھریں، اس لیے ہمیں تو اپنی کتابوں کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے تشہیر کا سہارا لینا ہوگا۔ مجھے یاد ہے کہ آج سے تقریباً پینتیس برس پیشتر، جب میں ریگل چوک کے قریب واقع ایک کتابوں کی دکان میں کم و بیش ہر شام کچھ وقت گزارا کرتا تھا تو اکثر لوگ کسی خاص کتاب کو خریدنے کی نیت سے آتے تھے اور اگر وہ کتاب اس لمحے دستیاب نہ ہوتی تھی تو ادائیگی کرکے کتب فروش سے درخواست کرتے تھے کہ وہ اگلے چند روز میں اسے مہیا کردے۔ چند برس بعد صورت حال بدل گئی، یعنی اگر پسند کی کتاب موجود نہیں تو وہ کوئی اور کتاب خرید لیتے تھے کہ اب ان کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ وہ ایک کتاب کے لیے دوبارہ آنے کا تردد کرسکیں۔ یعنی اب کتاب کو دکان پر موجود ہونا چاہیے۔ تشہیر کا ایک ذریعہ اخباروں کے ادبی صفحات تھے لیکن اس صفحے کا معیار بس ویسا ہی ہوتا تھا جیسا کہ اُس کے انچارج کا ہوا کرتا تھا۔ اگرچہ ان میں معدودے چند تخلیقی ادیب ہوا کرتے تھے لیکن بیشتر حضرات کے لیے ادبی صفحہ ان کی ذاتی تشہیر اور منفعت کا ایک ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ سمندر پار قیام پذیر نہایت ”عظیم شاعروں‘‘ اور ”ادیبوں‘‘ کے جو تفصیلی انٹرویو شائع کیے جاتے تھے، ان کے ریٹ طے شدہ تھے اور رنگین تصویر شائع کرنے پر ریٹ بڑھ جاتے تھے، چنانچہ ان صفحات میں بھی عام طور پر ادب کے کاٹھ کباڑ کو نمایاں کیا جاتا تھا۔ کتاب کی تشہیر کا ایک اور ذریعہ تعارفی تقریبات تھیں لیکن ان میں پڑھے جانے والے ”تنقیدی‘‘ مضامین میں مصنف پر داد و تحسین کےاتنے گھڑے انڈیلے جاتے تھے کہ وہ ان میں شرابور اپنے آپ کو ارسطو کے ہم پلہ سمجھ کر خود کو بانجھ کرلیتا تھا۔ کتاب کی تشہیر کا میرے نزدیک سب سے مؤثر تخلیقی ذریعہ کتاب ریویو (Book Review) ہے ۔ کسی زمانے میں صفدر میر یا محمد سلیم الرحمٰن کا لکھا ہوا کوئی ایک ریویو اس کتاب کو پورے پاکستان میں متعارف کروا دیتا تھا اور لوگ اسے پڑھنے کے لیے بے چین ہوجاتا تھے۔

میں نے ذاتی طور پر متعدد مرتبہ ”سنگ میل پبلیکیشنز‘‘ کے نیاز احمد (مرحوم) سے درخواست کی کہ وہ اپنے وسائل بروئے کار لا کر صرف اور صرف کتاب ریویوز پر مبنی ایک رسالہ شائع کریں لیکن وہ اپنی بے پنا مصروفیات کی بناء پر ایسا نہ کرسکے اور اب یہ مظہرالاسلام (اُس وقت کے مینجنگ ڈائریکٹر، نیشنل بُک فاؤنڈیشن) ہے، جس نے اللہ بھلا کرے ”کتاب رسالہ‘‘ یعنی بک ریویو شائع کرکے میری دیرینہ خواہش پوری کردی ہے۔

شاید ہی کوئی اور ادبی رسالہ ایسا شائع ہوا ہو جس کی تزئین و آرائش، چھپائی کسی بین الاقوامی ”ووگ‘‘ ایسے فیشن میگزین کی سطح کی ہو اور وہ ایسے بلند ادبی معیار کا حامل ہو کہ انسان حیرت میں ڈوب جائے۔ کتابوں کے ریویو لکھنے والے بھی کوئی معمولی لوگ نہیں، ادب اور تنقید کے نمائندہ نام ہیں… مثلاً سویا سانے، ڈاکٹر فاطمہ حسن، ڈاکٹر صفیہ عباد، رفیق سندیلوی، تبسم کاشمیری، مشیر انور، انور زاہدی، طاہرہ اقبال، منشا یاد، آصف فرخی، ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ، اصغر ندیم سید، امجد اسلام امجد، انتظار حسین، ڈاکٹر طیب منیر، مظہرالاسلام، فتح محمد ملک، عاصم بٹ، قاضی جاوید اور اعجاز رحیم وغیرہ۔ ایسے لوگوں کو بک ریویو لکھنے پر مائل کرلینا ہی ایک کارنامہ ہے۔ ”کتاب رسالہ‘‘ میں صرف اُردو کتابوں پر ہی ریویوز نہیں بلکہ پشتو، سندھی اور انگریزی میں شائع ہونے والی کتابوں پر تفصیلی تبصرے ہیں۔ ”قلم کار، کتاب اور ناشر۔ تکون کے تعلقات‘‘ کے عنوان سے محترم انتظار حسین نے سنگ میل پبلی کیشنز کے جناب نیاز احمد کا ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پڑھنے کے لائق ہے۔ سنگ میل لمحہء موجود میں پاکستان کے سب سے بڑے ادبی کتابوں کے ناشر ہیں اور انتظار صاحب نے انہیں اپنے ایک کالم میں پاکستان کا منشی نول کشور کہتا تھا۔ نیاز احمد کا کہنا ہے کہ کتابیں اب بھی فروخت ہوتی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ تخلیقی حوالے سے بلند سطح کی ہوں۔ ”اب دیکھیں ناں عبداللہ حسین نے دہائیوں پہلے ”اداس نسلیں‘‘ لکھا، وہ آج بھی چھپتا ہے اور فروخت ہوتاہے۔ انتظار حسین کی کتابوں کی فروخت میں پہلے ایڈیشن سے آج تک کمی نہیں آئی۔ ان کی کتابوں کی اشاعت اور فروخت کا جو تیس سال پہلے معیار تھا، وہ آج بھی برقرار ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کی کتابیں ہر قسم کے طبقے میں پڑھی جاتی ہیں۔ رضا علی عابدی کے سفرنامے بھی مقبول ہیں۔ اصل بات یہ ہے کی تحریر میں دلچسپی، معیار اور جان ہو تو وہ آج بھی بکتی ہے۔‘‘
انتظار حسین کا کہنا تھا کہ ”یہ بات درست ہے کہ لکھنے کے لیے مشاہدہ، مطالعہ، سوچ و فکر لازمی ہے۔ علمی کتابوں اور دلچسپ سفرنگاری کے لیے صعوبتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے جن کتابوں میں یہ سب کچھ ہے، وہ بِکتی بھی ہیں اور پڑھی بھی جاتی ہیں، مگر جن کتابوں میں یہ چیزیں کمزور ہوں، وہ پیچھے رہ جاتی ہیں، اس لیے ناشر بھی بِکنے والے مصنفین کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ چند بہت بِکنے والے ادیب اور سفرنگاروں کو مالی لحاظ سے زندگی کی آسودگی بڑی حد تک کتاب کی بدولت حاصل ہے۔ اگر کتاب برائے کتاب سمجھ کر نہیں لکھی جائے تو اس کے قبول عام ہونے میں کوئی زیادہ شبہ نہیں رہتا، مگر کتاب، صاحبِ کتاب بننے کے لیے لکھی گئی تو پھر وہ ایک سووینئر کی طرح ہی صاحبِ کتاب کے اپنے ذوق کی تسکین کی حد تک رہ جاتی ہے۔‘‘
میں اس انٹرویو کے سلسلے میں ایک اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ کتاب کی مقبولیت میں اس کی ترسیل اور مارکیٹنگ کا بہت عمل دخل ہے۔ اگر کتاب کو مناسب طور پرمشتہر نہیں کیا گیا اور اسے پاکستان بھر کے بک اسٹالز پر پہنچایا نہیں گیا تو چاہے وہ ایک بڑے ادیب کی تصنیف ہو، اس کی فروخت نہ صرف محدود ہو کر رہ جائے گی بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اچھی کتاب ہونے کے باوجود فلاپ ہوجائے۔ اداریہ میں مظہرالاسلام نے اپنے مخصوص اور منفرد نثری انداز میں لکھا ہے ”مجھے کتاب پڑھنے والے لوگ اچھے لگتے ہیں اور وہ تمام لوگ اچھے لگتے ہیں جن کے ہاتھ میں ہمیشہ کتاب ہوتی ہے۔ مجھے ہمشہ اس شخص نے متاثر کیا ہے جو تیز بارش سے کتاب کو بچانے کے لیے اسے اپنے کوٹ میں چھپا لیتا ہے اور اپنے کوٹ کو بارش میں بھیگنے دیتا ہے۔‘‘
میں کتاب ہوں، جسے تم پڑھ رہے ہو
میں تمہاری دوست رہوں گی، تمہارے ساتھ رہوں گی
تم سے اختلاف ہوگا، تمہیں ہنساؤں گی
یا کبھی گرمیوں کی دُھوپ بھری صبح میں
تمہاری آنکھوں میں آنسو بن جاؤں گی۔
(رابرٹ شیلڈز / ترجمہ: انور زاہدی)


نوٹ: تارڑ صاحب کا یہ مضمون ”ہفت روزہ اخبارِ جہاں، کراچی‘‘ کی اشاعت 22 تا 28 مارچ، 2010ء میں شائع ہوا تھا. اور اب مستنصر حسین تارڑ کے ایک فیس بُک پیج کی ناظمہ، محترمہ سمیرا انجم کی خصوصی دلچسپی کے باعث، آفتاب احمد اور محمد زبیر کے شکریہ کے ساتھ ”کتاب نامہ‘‘ میں شائع کیا جارہا ہے. (مدیر)

2 تبصرے “کوٹ پرانا پہنو، کتاب نئی خریدو – مستنصر حسین تارڑ

  1. بہت شکریہ ۔۔اور واقعی یہ کالم بہت ہی خوبصورت ہے ۔۔ کتاب اور کتاب سے متعلق ذکر ہمیشہ ہی اپنی طرف کشش رکھتا ۔۔ ۔۔

  2. کتابوں سے میری دوستی بچپن سے ہے اور مستنصر حسین تارڑ کی وجہ سے یہ دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔اللہ کرے دنیا اور آخرت کی ساری خوشیاں تارڑ صاحب کے حصے میں آئے ۔آمین(شکریہ جناب ثاقب بٹ صاحب)

Leave a Reply to سمیرا انجم Cancel reply