حق مغفرت فرمائے۔ یوسفی صاحب کے متعلق کچھ کہنا یا لکھنا میرے لیے ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی سورج کے سامنے موم بتی جلانے کی کوشش کرے۔ یوسفی صاحب طنزومزاح کی قدآور ‘بین الاقوامی’ شخصیت ہیں، دنیا بھر میں جہاں جہاں اُردو پڑھنے والے موجود ہیں وہاں یوسفی کا تعارف بھی موجود ہے۔ کم از کم میں تو خود کو اس سے قاصر پاتا ہوں کہ ان کے متعلق لب کشائی کی جرأت ہی کرسکوں۔ مرحوم ضیاء الحق قاسمی کی ادارت میں طنزومزاح کا سہ ماہی ادبی رسالہ ”ظرافت‘‘ شائع ہوتا تھا، انہوں نے اپنے رسالے میں یوسفی صاحب کی وہ تحریر شامل اشاعت کی ہے جو انہوں نے ضمیر جعفری کی پہلی برسی کے موقع پرپڑھی تھی۔ یہ تحریر جنوری 2004ء میں شائع ہوئی۔ اس کا عنوان ہے ”ضمیر واحد متبسِم‘‘ اس مضمون میں انہوں نے جو کچھ سید صاحب کے لیئے لکھا ہے میں اُنہی کے وہی الفاظ یوسفی صاحب کے لیے لوٹا رہا ہوں۔ یعنی یوسفی کی زبان میں یوسفی کو خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس میں جہاں جہاں ضمیر جعفری کا نام آئے وہاں آپ یوسفی کے نام سے بدلتے جائیں۔ اس کا عنوان ہے:
”مزاحِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘
یوسفی نے اپنے مضمون کا آغاز غالب کے ایک مشہور مصرعے سے کیا ہے:
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
پھر حسب (اپنی) ضرورت اس مصرعے کو الٹ کر لکھتے ہیں کہ:
ایسا بھی کوئی ہے کہ برا جس کو سب کہیں؟
اور کہتے ہیں کہ ”ذہن میں ایسے ایسے اور اتنے سارے نام آئیں گے کہ انھیں لب پہ لاتے ہوئے اپنے معصوم بال بچوں کا خیال آ جائے گا۔ مطلب یہ کہ دوسروں کے بارے میں اچھی بری رائے معلوم کرنے کی خاطر دنیا جہاں سے ‘پنگا’ تھوڑا ہی لینا ہے؟ یہ تو ہوا غالب کے مصرعے کا الٹا سیدھا لیکن میں اپنے بائی پاس شدہ دل اور اپنی چاروں کتابوں پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں (جسے کسی اعتبار سے مختصر نہیں کہا جاسکتا) ایک ایسابھی خدا کا بندہ دیکھا ہے جسے اس کی زندگی میں اور اس کے رخصت ہونے کے بعد بھی کسی نے برا نہیں کہا۔ یہ فوزِ عظیم اور رتبہ بلند جسے ملا اسے سب کچھ مل گیا۔
سید ضمیر جعفری مرحوم و مغفور کو (آپ اسے یوسفی سے بدل دیں) سب نے اچھا اس لیے کہا کہ وہ واقعی اچھے تھے۔ انھوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کو برا نہیں کہا۔ کسی کے برے میں نہیں تھے اور ایسا کسی مصلحت، عافیت بینی یا صلح جوئی کی پالیسی کے تحت نہیں کیا بلکہ انھوں نے سب سے محبت کی، جو بے لاگ، بے غرض اور غیر مشروط تھی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ ڈنر یا محفل ختم ہو جانے کے بعد بھی اٹھنے کا نام نہیں لیتے۔ انھیں یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ اگر ہم چلے گئے تو عزیز ترین دوست ہماری غیبت شروع کر دیں گے۔ مگر اللہ کے ایسے بھی منتخب بندے ہیں جن کے نام اور کام کا غلغلہ ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اور زیادہ بلند ہوتا ہے۔ ضمیر جعفری (یعنی یوسفی) انہی نیک نام اور نایاب و عجوبۂ روزگار بندوں میں سے ایک تھے۔ (آگے لکھتے ہیں کہ) نصف صدی کی طویل مدت بالعموم ایک دوسرے سے بے زار ہونے کے لیے کافی ہوتی ہے اس لیے کہ اتنے عرصے میں سارے عیب و ہنر کُھل جاتے ہیں۔ امریکا میں ایک حالیہ سروے سے یہ دل چسپ انکشاف ہوا ہے کہ 50 فی صد جوڑوں کی طلاق، شادی کے تین سال کے اندر ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے۔ بقیہ 50 فی صد کی طلاق 40 سال بعد ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کے مزاج سے بہت اچھی طرح واقف ہو جاتے ہیں۔ (لکھتے ہیں کہ) میں نے انھیں کبھی کسی کی برائی، غیبت یا مذمت کرتے نہیں دیکھا۔ دوستانہ ملاقاتوں میں کبھی اپنے اشعار سناتے نہیں دیکھا (آپ اشعار کو مضامین سے بدل سکتے ہیں) اپنے کسی دکھ، تکلیف، پریشانی یا الجھن کا ذکر کر کے اوروں کو مغموم کرنا انھوں نے نہیں سیکھا تھا۔ ہمیشہ مسکراہٹیں اور خوشیاں ہی خوشیاں بانٹیں۔ اپنے دکھ درد میں کسی کو شریک نہیں کیا۔
(ضمیر جعفری سے اپنی ایک ملاقات کا احوال لکھتے ہیں کہ) ایک دن انھوں نے مجھے ہشکارا کہ ”آج کل کرنل (محمد خاں) صاحب اپنی کتاب ”بجنگ آمد‘‘ میں سے اپنے فیورٹ الفاظ چن چن کر نکال رہے ہیں۔ آج صبح سویرے سے اس میں جٹے ہوئے ہیں۔ آپ گھما پھرا کر پوچھیے گا۔‘‘
میں نے کرنل صاحب سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ”کسی کرم فرما نے مجھے مطلع کیا ہے کہ ”بجنگ آمد‘‘ میں، میں نے لفظ ”دھڑلے‘‘ 37 مرتبہ استعمال کیا ہے۔ انہیں کم کردیں۔ یوں صبح سے اب تک میں 25 ”دھڑلے‘‘ تو نکال چکا ہوں۔‘‘
(اس پر اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ) وہ واقعی اتنے ہی نظر آرہے تھے جتنا کہ کوئی بھی معقول اور صحت مند آدمی 25 دھڑلے خوردبین اور چمٹی کی مدد سے نکالنے کے بعد لازمی طور پر نڈھال ہو جائے۔ اسی طرح جب کرنل صاحب کا سفرنامہ ٔ برطانیہ ”بسلامت روی‘‘ شائع ہوا تو ضمیر بھائی نے مجھ سے کہا کہ ”اس کے ہر تیسرے صفحے پر ایک نئی حسینہ۔۔۔ ایمان، فارن ایکسچینج اور بڑھاپے کی آزمائش کے لیے جلوہ افروز ہوتی ہے۔ ان حسیناؤں کی مجموعی تعداد ”دھڑلوں‘‘ سے بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ برطانیہ کا نام آتے ہی ان کا وہی حال ہوتا ہے جو غالب کا کلکتے کے ذکر سے ہوتا تھا۔
ایک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے!
لندن تو ایک طرف رہا، اگر میں کوہاٹ یا ڈیرہ غازی خاں کے سفر کا بھی ذکر کر دوں تو سارا پری خانہ مجھ پر چھوڑ دیتے ہیں۔
وہ نازنیں بُتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے
خیر گزری کہ برطانیہ میں کل تین مہینے ٹھہرے، ورنہ لاکھوں گھر بگڑ جاتے۔ پھر کہنے لگے کہ کرنل صاحب آج کل نئے ایڈیشن کی تیاری کر رہے ہیں۔ آپ ان سے کہیے کہ آپ نے سفرنامے میں ‘میمیں’ بہت ڈال دی ہیں۔ خدارا۔۔۔! ان کی تعداد چار سے نہ بڑھنے دینا۔
مرزا غالب تو ڈھلتی جوانی میں کلکتہ گئے تھے جب کہ کرنل محمد خاں ریٹائرمنٹ کے بعد بڑھاپے کے گلابی جاڑے میں ‘میموں کی زیارت’ کرنے کے لیے نکلے۔ بڑی ہمت اور حوصلے والے تھے۔ ورنہ اس مرحلہ عمر میں بعضا بعضا تو ڈھنگ سے ہائے ہائے کرنے کے لائق بھی نہیں رہتا۔
سہ پہر کو کرنل صاحب سے ضمیر بھائی اور بریگیڈیر صدیق سالک کی موجودگی میں ملاقات ہوئی تو میں نے جی کڑا کر کے عرض کیا۔ ”کرنل صاحب! کتاب میں نازنینوں کی تعداد آپ کی ‘ذاتی ضرورت’ سے زیادہ ہے۔ آخر کو مقامی انگریزوں کا بھی ‘حق شفعہ’ بنتا ہے! نئے ایڈیشن میں تعداد کم از کم نصف کر دیجیے‘‘
بولے ”مجھے خود بھی احساس ہے مگر کیا کروں جس ‘میم’ کو بھی نکالتا ہوں۔۔۔ وہ روتی بہت ہے۔‘‘
پنڈی اور اسلام آباد کی صحبتوں کو بریگیڈیر صدیق سالک بھی ایک زمانے میں باقاعدہ ‘بے قاعدگی سے’ رونق بخشتے تھے۔ پھر وہ جنرل ضیاء الحق کی تقریریں لکھنے پر مامور ہو گئے اور ہمیں۔۔۔ صبر آگیا۔۔۔ ایک دن ضمیر جعفری نے وضاحت کی کہ ”صدیق سالک، جنرل صاحب کی تقریروں میں مزاح اس طرح ڈالتا ہے جیسے کرنل محمد خاں نے اپنے سفرنامے میں میمیں ڈالی تھیں۔‘‘ ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جنرل صاحب بھی مزاح کے اثر اور رکاوٹ کے قائل ہوتے جا رہے ہیں۔
مزاحِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
ایک مرتبہ میرے پر اشتیاق بلاوے پر ضمیر بھائی کو آنے میں دیر ہو گئی۔ میں نے دبے الفاظ میں کربِ انتظار کی شکایت کی تو بولے:
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
معلوم ہوا کہ باعثِ تاخیر وہ اپنے سنِ پیدائش کو گردانتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ بس اتنی اطلاع دی کہ اب میں جوان نہیں رہا۔ میں نے کہا ”آپ انڈر اسٹیٹ منٹ (Understatement) سے کام لے رہے ہیں‘‘۔ بولے ”بڑھاپے میں یہ بھی مزہ دیتا ہے۔‘‘
یہ جملہ ضمیر جعفری نے کہا تھا لیکن آپ سمجھیں کہ یہ جملہ مشتاق احمد یوسفی خود اپنے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ یعنی خود کو بوڑھا نہیں کہہ رہے لیکن اس کا اعتراف کررہے ہیں کہ ”میں اب جوان نہیں رہا‘‘
اب اسی جملے پر کچھ اپنی بات ہوجائے۔ ہمارا ایک سلسلہ اور بھی ہے جس میں ہم قرآن مجید کو اُردو میں خود سمجھنے کی مشق کرواتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک بار میں درس دے رہا تھا۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ کیا عدل اور انصاف میں بھی فرق ہوتا ہے؟
میں نے جواب دیا کہ جی ہاں! فرق ہوتا ہے۔ پھر اس فرق کی وضاحت کرتے ہوئے مثال دی کہ فرض کیا آپ کے پاس ایک سو کلو گندم یا کچھ اور سامان ہے جسے آپ دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتے ہیں. آپ کے سامنے دو مزدور ہیں، ایک کی عمر پینسٹھ سال اور دوسرے کی عمر پینتیس سال ہے۔ آپ اگر انصاف سے کام لیتے ہیں تو پچاس پچاس کلو کے دو بوجھ بنا دیں، ایک بوجھ ایک اٹھا لے گا اور ایک بوجھ دوسرا اٹھا کر لے جائے گا۔
اب اگر آپ ایک بوجھ پینسٹھ کلو کا اور دوسرا پینتیس کلو کا بنا لیتے ہیں اور 65 کلو، 65 سالہ مزدور کو دے دیں اور 35 کلو، 35 سالہ مزدور کو دے دیں تو یہ کیا ہوا؟ وہ بولے ”یہ عدل ہوا؟‘‘
میں نے کہا یہ عدل نہیں ہوا یہ ناانصافی ہوئی۔ عدل یہ ہے کہ 65 سالہ مزدور کو 35 کلو کا وزن دے دیں کہ وہ بوڑھا ہے اور 35 سالہ مزدور کو 65 کلووزن اسے دیں کہ وہ جوان ہے وہ آسانی سے اٹھا سکتا ہے۔
اب آئیے اس جانب کہ میں نے یہ مثال کیوں دی۔۔۔ کہتے ہیں کہ مزاح لکھنا بہت مشکل کام ہے! کیوں مشکل کام ہے؟ اور ہنسنا سب سے آسان کام ہے، شیر خوار بچہ بھی ہنس سکتا ہے، مسکرا سکتا ہے۔ کتنا آسان کام ہے۔۔۔ ہے ناں! اور ہم کیا کرتے ہیں، آسان کام تو ہم نے خود لے لیا ہے یعنی ہنسنے کا اور سب سے مشکل کام یعنی مزاح کی تخلیق نوے سالہ مشتاق احمد یوسفی کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ یہ ناانصافی ہے کہ نہیں… نوجوانو! شرم کرو اب یوسفی نہیں رہے! اب خود قلم سنبھالو اور لکھنا شروع کردو، ٹوٹی پھوٹی تحریر لکھتے رہو خود ہی نکھار آتا جائے گا۔۔۔
بہت شکریہ یوسفی پر اس خاکسار کی تحریر شامل کرنے کا
م ص ایمن