”پاکستان فیملی نیٹ ورک، ناروے‘‘ کے زیر اہتمام کاروان کے مدیر سید مجاہد علی کی کتاب ”میڈیا برسرِ پیکار‘‘ کی تعارفی تقریب منعقد کی گئی۔ اس موقع پر اوسلو اور اس کے گرد و نواح سے پاکستانی نژاد تارکین وطن کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
تفصیلات کے مطابق تقریب کے میزبان آفتاب وڑائچ نے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ فیملی نیٹ ورک اہم موضوعات پر مباحث کرواتا رہتا ہے۔ اسی لیے اس تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے تا کہ پاکستانی صحافت اور اس کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے بات چیت بھی ہو سکے اور ناروے میں مقیم صحافی سید مجاہد علی کی کاوش کو خراج تحسین بھی پیش کیا جائے۔
سب سے پہلے اُردو کے انعام یافتہ ناول ”جنگل میں منگل‘‘ کے مصنف اور تجربہ کار صحافی انیس احمد کا مقالہ فیملی نیٹ ورک کی صدر نیلوفر نے پڑھ کر سنایا۔ انیس احمد اس وقت ملک سے باہر تھے لیکن انہوں نے اپنا مضمون خاص طور سے اس تقریب کے لیئے بھجوایا تھا۔ اس مضمون میں انیس احمد نے کتاب کے موضوع، مصنف کے پس منظر اور خدمات کے علاوہ پاکستانی صحافت کو درپیش مشکلات اور عیوب کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ مصنف کی اس تجویز سے متفق ہیں کہ پاکستانی میڈیا میں مالکان کے ایڈیٹر بنے رہنے کے رجحان کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
سیاستدان اور نارویجئن زبان میں اسلام کے متعلق کتاب ”INN I DET UKJENTE‘‘ کی مصنفہ یاسمین مجاہد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ سید مجاہد علی کی اہلیہ ہیں۔ اس طرح انہوں نے صحافی کے طور پر مصنف کی جدوجہد اور اصول پرستی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سچ بیان کرنے اور خبر کی ترسیل مصنف کا مقصد حیات رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اوسلو سے ماہنامہ کاروان کا آغاز 80 کی دہائی میں منعقد ہونے والی ادبی سنگت کی نشستوں میں ہونے والے مباحث کا نتیجہ تھا۔ سب دوستوں نے مل کر اس جریدہ کو نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا اور سید مجاہد علی کو متفقہ طور پر اس کا مدیر بنایا گیا تھا۔ انہوں نے 16 برس تک فرض شناسی سے اس ذمہ داری کو نبھایا۔ 1997ء میں یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ماہانہ جریدہ قارئین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہے، ماہنامہ کاروان بند کر دیا گیا تھا۔ اس وقت ارادہ تھا کہ انٹرنیٹ پر کاروان کا آغاز کیا جائے گا تاہم اس خواب کی تکمیل میں پندرہ برس صرف ہوئے اور 2012ء سے karwan.no باقاعدہ انٹرنیٹ روزنامہ کے طور پر سامنے آیا۔
این آر کے NRK کے سینئر صحافی عطا انصاری نے اپنی عالمانہ گفتگو میں عالمی سطح پر صحافت کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا اور بتایا کہ مغرب میں صحافیوں نے صحافیانہ مواد کے حوالے سے خود مختاری حاصل کرنے کے لیے خود ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ صحافیوں کے لیے ضابطہ اخلاق بنایا گیا ہے اور صحافیوں کا قائم کردہ ادارہ ہی غلط یا بری خبر یا ناجائز تبصروں کے بارے میں فیصلے کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سید مجاہد علی بجا طور پر پاکستانی صحافت میں اس قسم کی پیش رفت دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انہوں نے مصنف کی صحافیانہ خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ وہ ایک محنت کش اور دیانتدار صحافی ہیں، اس لیے ان کی پیش کردہ تجاویز اور آراء بیش قیمت ہیں۔
ویژن فورم ناروے کے صدر اور سیاسی کارکن ارشد بٹ نے اپنے تحریری مقالہ میں پاکستانی صحافت کے کردار، انتہا پسندی کے فروغ اور ملک کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ مجاہد علی کے مضامین اس حوالے سے مسائل کی درست طور سے نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جس طرح مذہبی انتہا پسندی کو جنون کی حایثیت حاصل ہو گئی ہے اور جس طرح ملکی میڈیا کے بعض حلقے ان افسوسناک رویوں کی سرپرتی اور ترویج کرتے ہیں، وہ نہایت افسوسناک امر ہے۔
تقریب کے آخر میں سید مجاہد علی نے گفتگو کرتے ہوئے فیملی نیٹ ورک کے علاوہ آفتاب وڑائچ، نثار بھگت، ارشد بٹ، عطا انصاری اور انیس احمد کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے پاکستان میں صحافت کی آزادی کی جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ منہاج برنا کی قیادت میں صحافیوں کی تنظیم PFUJ قائم ہوئی تھی اور سب صحافیوں نے مل کر آزادی رائے کے علاوہ صحافیوں کے حقوق و مراعات کے لیے کام کا آغاز کیا تھا۔ اس تنظیم کا حکومت سے پہلا ٹکراﺅ 70ء میں جنرل یحییٰ خان کی حکومت سے ہؤا تھا۔ مگر صحافی متحد رہے۔ تاہم اس وقت کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی نے متعدد صحافیوں کو نوکریوں سے نکال دیا تھا۔ ان صحافیوں کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بحال کیا گیا۔
سید مجاہد علی نے بتایا کہ 80 کی دہائی میں سابق آمر ضیاءالحق کے دور میں صحافت اور صحافیوں پر بہت کڑا وقت آیا، مگر پاکستان کے صحافیوں نے نہایت اولالعزمی سے حالات کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے سزائیں کاٹیں اور کوڑے کھائے مگر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا، تاہم حکومت نے صحافیوں میں نظریاتی بنیاد پر اختلافات پیدا کروائے۔ اس طرح ان کی تنظیم تقسیم ہو گئی۔ مگر اس شاندار جدوجہد نے آزادی صحافت کی شاندار روایت کو جنم دیا۔
مدیر کاروان کا کہنا تھا کہ ملک میں الیکٹرانک میڈیا کی آمد سے ڈرامائی تبدیلیاں آئی ہیں تاہم انہیں آزادی صحافت نہیں کہا جا سکتا۔ ملک میں صحافت کے فروغ کے لیے صحافیوں میں طبقاتی تقسیم ختم ہونا بے حد ضروری ہے۔ صحافت اخلاقی بنیاد پر کھڑا ہوا ایک اعلیٰ و ارفع پیشہ ہے، اس لیے اس پیشہ سے وابستہ افراد مالی مفاد پرستی کے لیے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کے حقوق کو سلب نہیں کر سکتے۔ جب تک یہ رجحان ختم نہیں ہو گا اور صحافت سے وابستہ تمام لوگوں کو مناسب معاوضہ اور پیشہ ورانہ حالات میسر نہیں آئیں گے، اس وقت تک ملک میں صحافی آزاد اور صحافت سربلند نہیں ہو سکتی۔
تقریب کے آخر میں نثار بھگت نے حاضرین اور مجاہد علی کا شکریہ ادا کیا اور شرکاء کو ضیافت کی دعوت دی گئی۔ اس طرح یہ بھرپور تقریب تمام شرکاء کی بھرپور شرکت کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔
(کاروان، ناروے)
زیرِنظر کتاب ”میڈیا برسرِ پیکار‘‘، سید مجاہد علی کے پچھلے دو برس میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ مصنف کے مطابق، جب تک صحافت کے شعبے میں گندی مچھلیوں کو تلاش اور یہ تعین نہ کر لیا جائے کہ ملک میں اس معزز شعبہ سے وابستہ ہونے کی بنیادی شرائط کیا ہیں، اس وقت تک اس شعبہ کی خود مختاری، دیانت داری، بے باکی اور آزادی مشکوک رہے گی۔ کمزوری کا انکار کرنے سے صحافت کا شعبہ پاک و صاف نہیں ہوجائے گا۔ اس کے لیے بہرطور سخت محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس کتاب میں مضامین کا جو انتخاب پیش کیا جا رہا ہے، وہ اس چیلنج کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ کسی بھی شعبہ کی طرح پاکستان میں شعبہ صحافت کی تطہیر بھی پلک جھپکتے ممکن نہیں لیکن یہ بے حد ضروری ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہم کہاں ٹھوکر کھا رہے ہیں اور ہماری منزل کیوں کر کھوٹی ہوئی۔ اس کے لیے محض فوج، آئی ایس آئی یا سیاسی قیادت کو الزام دینا کافی نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے خود اپنی ذات میں جھانکنا اور صورتِ حال کا جائزہ لینے کی کوشش کرنا بے حد ضروری ہے۔ زیرِ نظر مضامین اسی کاوش کا حصہ ہیں۔ یہ کسی طرح بھی ایک مکمل اور واضح تصویر پیش نہیں کرتے لیکن یہ جستہ جستہ ایک بڑی تصویر کو سمجھنے کے لیے نظر سے محو ہو جانے والے پہلوئوں کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں۔ ان میں کسی ایک واقعہ یا سانحہ کی روشنی میں صحافیوں اور میڈیا کے کردار پر بحث کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ مضامین کسی ایک خاص واقعہ کے پس منظر میں تحریر ہوئے ہیں لیکن ان میں بعض ایسے اصولی پہلوئوں کو سامنے لایا گیا ہے جو میڈیا کی خود مختاری کی بحث کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ تحریریں اس امید پر کتابی صورت میں سامنے لائی جا رہی ہیں تا کہ ملک کے اہل نظر ان پہلوؤں پر غور کر سکیں جو مصنف نے اپنے تجربہ کی روشنی میں سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ 136 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ’’جمہوری پبلیکیشنز، لاہور‘‘ نے شائع کیا ہے.