کتاب کا رواج اس وقت سے ہے جب سے انسان نے اپنی بات، اپنے احساسات اور جذبات کو لفظوں میں مقید کر کے ضبط تحریر میں لانے کا آغاز کیا۔ قدیم دور میں جب کاغذ آج کی طرح ارزاں اور سہل الحصول نہیں تھا اور لکھے گئے مخطوطوں کی بہت اہمیت ہوا کرتی تھی، ان دنوں کتاب اس شکل میں نہیں تھی جیسے آج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں ایک تو کاغذ بنانے کا فن ہر قوم نہیں جانتی تھی دوسرے چوں کہ اسوقت آج جیسی مشینیں نہیں تھیں کہ جو ہر کام میں آسانی پیدا کریں لہٰذا کاغذ بنانا آسان نہیں تھا پھر یہ کہ کمیاب ہونے کی وجہ سے بھی کاغذ کی قدر بہت تھی خاص طور پہ اس پہ کچھ لکھا ہوا ہو تو اس کی اہمیت کے بارے میں تو کیا ہی کہیے۔
قدیم دور میں کتاب بہت اہمیت رکھتی تھی کیوں کہ یہ علم کے حصول کے ساتھ ساتھ تفریح کا بھی ذریعہ تھی تب تفریحی قصے کہانیوں میں بھی کوئی نہ کوئی سبق آمیز اور نصیحت کا پہلو ضرور شامل ہوتا تھا اس وقت کتابیں کم یاب تھی تو شاید اس وجہ سے لوگ کتاب کی قدر کرتے تھے۔
اس دور میں آج کے دور کی طرح نہ ٹی وی، ڈش، نیٹ، کمپیوٹر، موبائل اور سینما تھے نہ ہی آج جیسی پکنک، پارٹیز اور موجودہ دور جیسی مزید تفریحات لوگوں کو میسّر تھیں اور تو اور آج کی طرح نت نئے دن مثلاً نیا سال، مدرز ڈے، فادرز ڈے، ٹیچرز ڈے یا ویلنٹائن ڈے وغیرہ منانے کا رواج بھی لوگوں میں متعارف نہیں ہوا تھا اس وقت لوگ کتابیں حصول علم کے لیے بھی پڑھا کرتے تھے اور دل بہلانے یا وقت کاٹنے کے لیے بھی۔
آج سائنس کی ترقی نے انسان کے لیے ہر معاملے میں بہت سہولتیں فراہم کی ہیں اب کتابوں کی فراوانی ہے ہر موضوع پہ ہر طرح کی ہر قسم کی کتابیں بہت آسانی سے دستیاب ہیں اور تو اور نیٹ کی بدولت ہر وہ کتاب جو آپ پڑھنا چاہیں گھر بیٹھے چند منٹوں میں ڈھونڈ کے پڑھ سکتے ہیں اور چاہیں تو اپنے پاس محفوظ بھی کرلیں لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں اس قدر سہولیات کے باوجود آج کتابیں تو بے تحاشا ہیں لیکن پڑھنے والے نہیں ہیں کتابوں کے شائق بہت کم ہیں اب چوں کہ لوگوں کے پاس تفریح کے بے شمار ذرائع ہیں اور اس لیے وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو یہ بات اتنی درست نہیں ہے کہ تفریحات کی کشش کے باعث لوگ کتاب سے دور ہو رہے ہیں ترقی یافتہ ملکوں میں ہمارے یہاں کے مقابلے میں دل لبھانے والی تفریحات کے بے شمار ذرائع ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں کتاب پڑھنے کا ذوق و شوق یہاں کے لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کتاب پڑھنے والے کم ہو رہے ہیں؟
شاید اس کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہو کہ روز افزوں گرانی کے باعث جہاں اور اشیائے صرف و اشیائے، ضرورت میں اضافہ ہورہا ہے وہیں کتابوں کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھی ہیں اور بڑھ ہی رہی ہیں اور اب تو کتابیں اکثر لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوگئی ہیں کچھ اس میں ذوق و شوق کا بھی عمل دخل ہے کتاب پڑھنے کا شوقین اپنے بجٹ کے مطابق اگر پانچ کتابیں نہ خرید پائے تو کم سے کم دو تو ضرور ہی خریدے گا اگر ہمارے یہاں لائبریریوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہو تو ان لوگوں کے لیے بہت آسانی ہوگی جو کتاب پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن اتنی ا ستطاعت نہیں رکھتے کہ اپنی پسند کی کتب زیادہ تعداد میں خرید سکیں ایسے لوگوں کے لیے عوامی کتب خانے یعنی پبلک لائبریریز بہترین ذریعہ ہیں اپنے شوق کی تکمیل اور علم کے حصول کا۔
حکومت کو اس بارے میں سنجیدہ اقدامات کرنا چاہیئں اس کے علاوہ وہ لوگ جن کے پاس کتابوں کا ذخیرہ ہے وہ بھی اپنے طور پر چھوٹے پیمانے پر لائبریری بنا کے اہل ذوق کی تسکین کا سامان کرسکتے ہیں اور یہ تو ایک صدقہ جاریہ بھی ہوگا علم کو دوسروں تک پھیلایا جائے وہ بڑھے گا کم نہیں ہوگا ایک پڑھے لکھے مہذب معاشرے کی شناخت کتاب پڑھنے کی روایت سے ہے ہمیں اس شناخت کو پوری طرح اپنانا چاہیے اور اس کی بقا کے لیے ہر سطح پہ کوششیں کرنا چاہئیں۔
(ہم سب)