25 اکتوبر، آج ضیاء الحق قاسمی کی برسی ہے۔ اس موقع پر خصوصی تحریر اپنی کتاب ”حسب توفیق‘‘ میں سے…
پانچویں عالمی مشاعرہ طنز ومزاح کی تیاریاں جاری تھیں۔ انہی تیاریوں کے سلسلے میں ضیاء ا لحق قاسمی سے ان کے دولت کدے ’’ایوانِ ظرافت‘‘ میں ملاقات ہوئی۔ برسبیل تذکرہ اپنی کتاب کا ذکر کردیا کہ تیار ہے (2006ء) جون کے مہینے میں چھپ کر مارکیٹ میں آجائے گی۔
پوچھا ’’کیا نام تجویز کیا ہے؟‘‘
عرض کی ’’جوتوں سے علاج ‘‘
بولے ’’ نام مناسب نہیں ہے! نام بدل لیں‘‘
میں نے کہا ’’دراصل میں نے معاشرے میں کچھ اس قسم کی غلطیاں نوٹ کی ہیں جنہیں عام طور پر غلطی نہیں سمجھا جاتا اور جب میں کسی تعلیم یافتہ شخص کو وہ غلطی دہراتے دیکھتا یا سنتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے سوچتا ہوں کہ کم از کم اس شخص کو یہ غلطی نہیں کرنا چاہیئے تھی۔ ایسی ہی چندزبان زد عوام غلطیوں کو موضوع بنا کر میں نے ایک کتاب ترتیب دے دی ہے‘‘
’’مثلاً ؟کوئی ایک آدھ بتائیں؟‘‘
’’مثلاً یہ کہ کسی جگہ پولیس کے سپاہی زیادہ تعداد میں تعینات کردئے جائیں تو اخبارات لکھتے ہیں کہ ’’پولیس کی بھاری نفری لگادی گئی‘‘
اور بات یہ ہے کہ اس خوبصورت سے لفظ کو استعمال کرنے والے نہیں جانتے کہ ’’نفری‘‘ کوئی لفظ نہیں ہے۔ نفر کہتے ہیں فرد کو اسے نفری کہہ کر جمع بنانا غلط ہے۔
ظلم ہونے پر کہا جاتا ہے کہ فلاں نے بربریت کی انتہا کردی یا ظلم و بربریت کا بازار گرم ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ در اصل یہ کج فہمی ہے کیوں کہ بربر قوم مسلمان قوم تھی اور انہوں نے اسلام کی تبلیغ کی راہ میں آنے والے عناصر کو زیر کیا تھا لہٰذا بربریت کو منفی انداز میں پیش کرنا اوریہ ثابت کرنا کہ بربروں نے ظلم کیا تھا، انتہائی لاعلمی ہے۔
اسی طرح بھرم دینا، بھرم مارنا، بھرم دکھانا یا بھرم بازی کرنا جیسے جملے عام سننے کو ملتے ہیں۔ یہ جملے خوبصورت تو بہت ہیں لیکن تعلیم یافتہ شخص کے لب سے عجیب سے لگتے ہیں البتہ عام بازاری شخص یہ جملہ کہے تو وہ بے قصورقرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ علم نہیں رکھتا۔ اسے احساس نہیں ہے کہ ’’بھرم‘‘ کے معنی عزت و آبرو کے ہوتے ہیں اور عزت نہ تو کسی کو ماری جاسکتی ہے نہ ہی کسی سے ’’عزت بازی‘‘ ہو سکتی ہے‘‘
پہلے تو ہنسے پھر بولے ’’دیکھوجی! بات یہ ہے کہ آپ کسی کو جوتا مارنا بھی چاہیں تو اسے یہ نہ بتائیں کہ یہ جوتا ہے۔ بس بات کردیں وہ خود سمجھ جائے گا کہ آپ کا مقصد کیا ہے‘‘
میں نے کہا ’’دراصل اس کتاب کے مضامین کچھ اس طرح کے ہیں کہ اس نام کے سوا کوئی دوسرا نام جچے گا نہیں۔ یا کم از کم مجھے ہضم نہیں ہوتا۔ بہرحال کتاب چھپنے سے پہلے میں آپ کے ملاحظے سے گزاردوں گا‘‘
بولے ’’ہاں دکھا دینا اس کا کوئی عمدہ سا نام تجویز کردیں گے‘‘
میں نے کہا ’’میں اسی مشاعرے میں ہی ساتھ لیتا آؤں گا‘‘
’’نہیں۔۔ نہیں!‘‘ وہ جلدی سے بولے ’’مشاعرے میں تو پتا بھی نہیں چلے گا کہ کون سی چیز کہاں گئی؟ مشاعروں کا سلسلہ تو ایک ہفتے چلے گا آپ یہ سلسلہ ختم ہونے کے ایک ہفتے بعد مجھے دیں، جب تک دور سے آئے ہوئے مہمان بھی رخصت ہوجائیں گے‘‘
مشاعرے میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مصروفیات پوچھیں تو بتایا کہ ایک ناول لکھ رہا ہوں ’’ہڑتال‘‘ کے نام سے!‘‘
وہ مسکرائے، بولے ’’اچھا نام منتخب کیا ہے‘‘
میں نے ذکر کردیا کہ ’’ایک طنزیہ کتاب بالکل تیار ہے لیکن قاسمی صاحب نے نام پر اعتراض کرکے مجھے مخمصے میں ڈال دیا ہے؟‘‘
پوچھا ’’کیا نام ہے؟‘‘
بتایا ’’جوتوں سے علاج‘‘
بولے ’’واہ! نام تو یہ بھی اچھا ہے۔۔۔ کیا ہے اس کتاب میں؟‘‘
میں نے مختصر سا تعارف پیش کیا تو بولے ’’دکھا دینا، دیکھ کر پتا چلے گا‘‘
مشاعرے میں اطہر شاہ خان (جیدی) سے بھی اسی موضوع پر بات ہوئی۔ انہوں نے بھی اس نام کو بے حد سرا ہا۔
میں حد درجہ کنفیوز ہو گیا کہ طنز ومزاح کے میدان کے دوماہرین اس نام کو مناسب قرار دے رہے ہیں اور ایک کو اس نام پر اعتراض ہے۔ اب کیا کیا جائے؟ اسی حیص وبیص میں مہینوں گزر گئے۔ پھر ماہ رمضان آگیا۔ سوچا کہ ماہ رمضان کے بعد ہی اس کتاب پر مزید پیش رفت کی جائے۔
ارادہ تھا کہ عید کے بعد ان تینوں حضرات کو مسودے کی ایک ایک کاپی (ڈمی) دے دی جائے اوران کی رائے کو بھی اس کتاب میں شامل کیا جائے۔
عید کے تین دن انتہائی مصروفیت میں گزرے. تین دن تک ٹی وی سے دُور رہا۔ دو دن اخبارات کی چھٹی تھی۔ چوتھے دن اخبارات آئے تو یہ دیکھ کر بدن بے دم ہو گیا کہ
’’پریشان لوگوں کو رات رات بھر ظریفانہ جملوں سے محظوظ کرنے والا، اپنے محبت کرنے والوں سے عجیب سی ظرافت کھیل گیا۔ چاند رات کو ایسا سویا کہ۔۔۔ ابدی نیند سو گیا‘‘
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تین تین عیدیں منائی جا رہیں تھیں اور یہ مرد ظرافت اتنی ڈھیر ساری عیدیں برداشت نہ کرسکا اور شاید شادئ مرگ کا شکار ہو گیا۔
آہ! ضیاالحق قاسمی.
خود تو عید کے دن اپنے اہل خانہ کو سوگوار کیا ہی تھا لیکن مجھ ایسے کو عید کے چوتھے دن شاک کیا جب کہ ’’قل‘‘ بھی پڑھا جا چکا تھا۔
اب کون ہنسائے گا اس دکھی انسانیت کو رات رات بھر؟
کسے جانشین کیا ہے؟
کون کرے گا اتنے جتن؟
کون پالے گا اتنے بکھیڑے؟
کون جمع کرے گا اتنی خلقت کو؟
آہ! ضیاالحق قاسمی.
کون تجویز کرے گا ’’جوتوں سے علاج‘‘ کا مناسب سا نام؟
میں نے تو بہت مغز ماری کی۔ مجھے اس کے سوا کوئی دوسرا نام جچا نہیں۔
میں تو دل سے آمادہ تھا کہ اس کا نام تبدیل کردیا جائے اور آپ کے توسط سے ہوتا تو بہتر بلکہ میرے لیے اعزازبھی ہوتا کہ آپ نے میرا تجویز کردہ نام ”زیڈ ایچ کیو‘‘ (ضیاء الحق قاسمی) اور (ظرافت ہیڈ کوارٹر) کئی برس تک بلکہ ’’تاحیات‘‘ (یعنی آخر عمر تک) اپنائے رکھا۔
کیا میں یہ سمجھوں کہ آپ کو بھی اﷲ رب العزت نے اس کتاب کا نام تبدیل کرنے سے روکا ہو اور اس سے پہلے ہی اپنے پاس بلالیا ہو؟
میں اسے تائیدِ غیبی جانوں؟
کہ ﷲ کو بھی اس کتاب کا یہی نام منظور ہے اور اس کی تبدیلی منظور نہیں؟
میں آپ کی روح سے انتہائی معذرت چاہتا ہوں کہ میں اس کتاب کا نام از خود تبدیل نہ کرسکا اور اب آپ کی ذات سے وابستہ ہونے کے بعد تو یہ نام میرے لیے ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب تو اسے بدلنا۔۔۔ کم ازکم میرے لیے ممکن ہی نہیں رہا۔۔۔
آئی ایم سوری
میں تہہ دل سے دعا گو ہوں کہ اﷲ رب کائنات آپ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور آپ کے درجات بلند کرے کہ آپ نے دکھی انسانیت کو قہقہوں کی گود میں پناہ دی ہے۔ کئی اہل قلم کو منظرِ عام پر لائے۔ انہیں یکجا کیا۔
(نوٹ: یہ مضمون 10 جولائی، 2007ء تو تحریر کیا گیا تھا.)
واضح رہے کہ ضیاء الحق قاسمی نے اپنے نام کو مختصر کرنے کے لیے ’ض ح ق‘ کے اختصاری حروف اپنائے تھے۔ اس پر میں نے ایک مضمون لکھا تھا جو ظرافت میں نہ صرف شائع ہوا بلکہ مرحوم نے میری وضع کردہ اصطلاح Z H Q کو ظرافت کی ادارت میں شامل رکھا اور مزید یہ کہ ظرافت کے پتے کی جگہ بھی ’’ظرافت ہیڈ کوارٹر‘‘ لکھتے رہے تھے اور خود کو بھی تاحیات ’’زیڈ ایچ کیو‘‘ لکھتے رہے۔ دیگر یہ کہ قارئینِ ظرافت نے بھی اس تبدیلی کو سراہا۔
( مصنف)
بہت شکریہ جناب ثاقب محمود بٹ صاحب
ہمارے پاس مرحوم کی یادیں ہی ہیں ویسے تو اکثر بلکہ ہر مرحلے پر یاد آتے ہیں لیکن اکتوبر میں ان کی یاد کچھ سوا ہوجاتی ہے ۔
م ص ایمن
bohat khubsorat mamzon hay ap urdu adab kiay maymaron kay baray man ummday amzmonn shaya kartay han ye ak kidmat hay or mazmon nigar nay haq adda kar deya MEHBOOB ELAHI MAKHMOOR