فرانز کافکا کی تمثیل (1) ”روانگی‘‘ – مقبول ملک

”روانگی‘‘ – Der Aufbruch

میں نے حکم دیا کہ میرا گھوڑا اصطبل سے لایا جائے۔ ملازم کو میری بات سمجھ نہ آئی۔ میں خود اصطبل میں گیا، گھوڑے پر کاٹھی ڈالی اور اس پر سوار ہو گیا۔
دور سے مجھے ایک بگل بجنے کی آواز آئی، میں نے پوچھا، ”یہ کیا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘ ملازم کو نہ کچھ پتہ تھا اور نہ ہی اس نے کچھ سنا تھا۔
مرکزی دروازے تک پہنچتے پہنچتے اس نے مجھے روک لیا اور پوچھا، ”میرے مالک، کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا، ”میں نہیں جانتا، جانے کہاں؟ صرف یہاں سے دور۔ یہاں سے دور، کہیں بہت دور، میں اسی طرح اپنی منزل تک پہنچ سکوں گا۔‘‘
”تو آپ کو اپنی منزل کا علم ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ”ہاں‘‘، میں نے کہا۔ ”میں نے بتایا تو ہے، یہاں سے دور۔ یہی میری منزل ہے۔‘‘
”لیکن آپ کے پاس تو کوئی خوراک، کوئی زادِ راہ بھی نہیں،‘‘ اس نے پوچھا۔ ”مجھے اس کی ضرورت نہیں،‘‘ میں نے کہا، ”سفر اتنا طویل ہے کہ اگر مجھے راستے میں کچھ نہ ملا تو مجھے فاقوں کا سامنا ہو گا۔ زادِ راہ چاہے کتنا ہی کیوں نہ ہو، مجھے بچا نہ پائے گا۔ شکر ہے کہ یہ سفر واقعی ایک انجانا، بہت کٹھن سفر ہو گا۔‘‘

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر، ایک کاوش)

اپنا تبصرہ بھیجیں