پراگ (Prague) کے ہوٹل میں چیک ان کیا تو جناب قمر راٹھور ہم سے پہلے کمرے میں موجود تھے، موصوف نے پینٹ کوٹ پہنا ہوا تھا اور خم دار ہیٹ کے ساتھ سیاہ فریم کا چشمہ لگا رکھا تھا، ہو بہو کافکا لگ رہے تھے۔ آپ کٹر کشمیری ہیں، تعلق گوجرانوالہ سے ہے، جمہوریت پسند ہیں، رشتے میں کزن ہیں مگر محبت بھائیوں کی طرح کرتے ہیں، یاروں کے یار ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری ایک آواز پر لبیک کہہ کے گوجرانوالہ سے پراگ پہنچ گئے۔ حضرت کا دماغ چوبیس گھنٹے الرٹ رہتا ہے، آپ انہیں رات کے تین بجے بھی اٹھا دیں تو یہ چھلانگ لگا کر پوری چوکسی سے اٹھیں گے، سفری پیکنگ کے ماسٹر ہیں۔ سفر کے دوران آپ کی عالمانہ گفتگو اور نہایت قیمتی ٹپس کی بدولت انہیں ”علامہ دوراں‘‘ کا خطاب دیا گیا جسے انہوں نے خوش دلی سے قبول فرمایا… بعد میں احتیاطاً مطلب بھی پوچھ لیا۔
پراگ کا پہلا تاثر کچھ اچھا نہیں تھا، ٹیکسی ڈرائیور ٹھگ ہیں، منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں، لوگ بھی قدرے بدتمیز ہیں، اسٹیشن سے نکلے تو بوسیدہ سی عمارات نظر آئیں، شہر پرانا سا لگا، میں نے دل میں سوچا یہ کہاں آ گئے ہیں مگر برادرم اجمل شاہ دین نے تسلی دی کہ ”حضرت ایک تو آپ کی روح میں بے چینی بہت ہے، ذرا صبر تو فرمایئے۔‘‘ اگلے روز ہم نے شہر کا ٹور لیا تو طبیعت کچھ بشاش ہوئی، وجہ اس کی ہماری ٹور گائیڈ تھی، اِس مرتبہ یہ ایک جوان اور خوش شکل خاتون تھی، عمر لگ بھگ ستائیس اٹھائیس سال، رنگ گورا اور بال گھنگریالے، روزانہ یہ محترمہ چھ گھنٹے کا ”واکنگ ٹور‘‘ کرواتی ہیں اور پھر ”مور اوور‘‘ کے طور پر جِم بھی کرتی ہیں. علامہ دوراں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھو لڑکی یہ بات ٹھیک نہیں، تم ویسے ہی کافی فِٹ ہو، جواباً اُس عفیفہ نے شرما کر موصوف کا شکریہ ادا کیا اور گلے لگنے کی کوشش کی جو ہم نے ناکام بنا دی۔ ہمارے ہاں لکھاری اگر ٹھٹھہ بھی جائیں تو سفری روداد میں برکت کے لیے ایک آدھی خوش پوش عورت ڈال دیتے ہیں، میں یورپ کے سفر پر ہوں اور میں نے نوٹ کیا ہے کہ سفرنامے میں کسی خاتون کا کوئی ذکر ہی نہیں ہوا، اساتذہ ایسے سفرنامے کے نمبر کاٹ لیتے ہیں سو ہر خاص و عام کو خبر ہو کہ چیکو سلواکیہ میں چپے چپے پر حسینائیں پائی جاتی ہیں اور گرمیوں میں اِن کا لباس زیادہ سے زیادہ ایک مختصر سی نیکر اور ٹی شرٹ پر مشتمل ہوتا ہے (ٹی شرٹ کو بھی آپ مبالغہ آرائی ہی سمجھیں)۔
پراگ میں گھومتے ہوئے ہمیں احساس ہوا کہ یہ چھوٹی چھوٹی گلیات کا شہر ہے، مخصوص پتھر سے تعمیر شدہ یہ گلیاں شہر کی پہچان ہیں، کہیں کہیں یہ بالکل اندرون لاہور کی طرح تنگ ہو جاتی ہیں مگر ان میں ٹریفک بلاک نہیں ہوتا کیوں کہ ہر گلی اور سڑک پر پارکنگ قرینے سے کی گئی ہے۔ سیاحوں کے لیے اِن گلیوں میں جابجا ایسی گاڑیاں چلائی گئی ہیں جو دیکھنے میں ٹرینیں لگتی ہیں، پرانے ماڈل کی رولس رائس بھی آپ کو یہاں نظر آتی ہیں مگر اصل میں یہ رولس رائس کی نقل ہیں۔ عفیفہ ہمیں سب سے پہلے ”کاسل ڈسٹرکٹ‘‘ لائی، یہ وہ جگہ ہے جہاں پراگ کے حکمران طبقے نے قلعے تعمیر کیے تھے، شہر کی اشرافیہ یہاں بڑے بڑے محلات میں رہا کرتی تھی، یہاں کے سب سے بڑے شاہی محل کو اب قصرِ صدارت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، ایک پرشکوہ گرجا گھر بھی اِس محل کے اندر ہی واقع ہے، ”گوتھک‘‘ فن تعمیر کا یہ شاہکار ہے، اس کی تعمیر میں چھ سو برس لگے۔ مشرقی یورپ کے باقی شہروں کی طرح یہاں بھی دوسری جنگِ عظیم میں نازی جرمنی کا قبضہ تھا، نازیوں نے اپنے تسلط کے دوران یہاں کے آرٹ کی قطعاً پروا نہیں کی اور بیشتر آرکیٹکچر تباہ کر دیا۔ چیکو سلواکیہ کو سوویت فوجوں نے آزادی دلوائی، چیک عوام کا خیال تھا کہ جس ملک نے ان کو آزادی دلائی ہے اسی کے زیرِ اثر پارٹی کو ووٹ دینا چاہیے مگر بہت جلد اِن کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا کیوں کہ کمیونسٹ پارٹی کی سخت پالیسیاں عوام کو پسند نہیں آئیں اور انہوں نے اس کے خلاف مزاحمت شروع کر دی جسے کچلنے کے لیے 1968ء میں یہاں سوویت فوج داخل ہوئی، سو کمیونزم سے جان چھڑانے کی جدوجہد میں اِن کو کئی دہائیاں لگ گئیں۔
17 نومبر 1989ء کو یہاں انقلاب آیا جسے ”ویلوٹ ریولوشن‘‘ کہتے ہیں، جس کی بنیاد ایک ایسے لیڈر نے رکھی جو بیک وقت شاعر، لکھاری اور فنکار تھا، اِس کے زیرقیادت پراگ میں پانچ لاکھ لوگ اکٹھے ہوئے جنہوں نے انقلاب برپا کیا، بعد ازاں یہ لیڈر چیکو سلواکیہ کا صدر بھی بنا۔ چارلس برج شہر کا مرکز ہے. یہاں ہر وقت سیاحوں کی ٹولیاں نظر آتی ہیں، پُل کے دونوں اطراف میں تاریخی عمارات، میوزیم اور گرجا گھر ہیں۔ یورپ میں گرجا گھروں کا طرز تعمیر اور پُرشکوہ محلات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اِن لوگوں نے قرون اولیٰ میں جو محل تعمیر کیے وہ برِصغیر میں مغلوں کے عروج کے زمانے میں تعمیر کئے گئے قلعوں سے کہیں زیادہ پُرشکوہ اور عالی شان تھے۔ یقین نہیں آتا کہ ہمارا عروج تھا اور اُن کا زوال۔
لگ بھگ تین کلومیٹر کی پیدل سیر اور پراگ کی ہزار سال کی تاریخ ازبر کرنے کے بعد وہ جنتی خاتون ہمیں ایک ایسے ریستوران میں لنچ کے لیے لے گئی جو چودھویں صدی میں ایک پَب ہوا کرتا تھا، یہ ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا۔ پورے ریستوران کی تھیم قرون اولیٰ کی تھی، تہہ خانے میں لکڑی کا کئی سو برس پرانا فرنیچر اسی طرح موجود تھا، چھت پر انسانی کھوپڑیاں ٹنگی تھیں، لالٹینوں سے مدھم روشنی پھوٹ رہی تھی جس نے ایک سحر انگیز ماحول طاری کر رکھا تھا۔ میں نے ویٹر سے وائی فائی کا پاس ورڈ پوچھا تو اس مرد عاقل نے جواب دیا ”وائی فائی کہاں سے آگیا، This is a medieval restaurant‘‘ میں نے زندگی میں ایسے عجیب و غریب ریستوران میں کھانا نہیں کھایا۔
پراگ مشرقی یورپ کا دل ہے، یہ فرانز کافکا کا شہر ہے، کافکا کے نام کے کئی کیفے یہاں آباد ہیں، ایسے ہی ایک کیفے میں ہم کافی پینے گئے جو کسی زمانے میں کافکا کا گھر تھا، بعد میں یہ گھر آگ سے جل کر راکھ ہو گیا، اب اُس کا مرکزی دروازہ ہی محفوظ ہے۔ کافکا میوزیم یہاں سے پرے دریا کے کنارے تھا، کافکا کے تخلیقی افسانوں کی طرح یہ میوزیم بھی تجریدی آرٹ کا نمونہ ہے، لکڑی سے تعمیر شدہ اِس میوزیم میں داخل ہوتے ہی آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کافکا کی دنیا میں داخل ہو گئے ہیں، آڑھی ترچھی لکڑی سے بھول بھلیاں بنائی گئی ہیں، جابجا کافکا کے علامتی کرداروں کی پینٹنگ نظر آتی ہیں، کہیں اُس کے اپنے ہاتھ سے بنائے خاکے شیشے کے فریم میں سجائے گئے ہیں تو کہیں اُس کے افسانوں کے مکالمے آپ کو لکھے نظر آتے ہیں، کافکا کے ہاتھ سے لکھی گئی درخواستیں بھی یہاں محفوظ ہیں جن میں اُس نے بیماری کی وجہ سے ملازمت سے ریٹائرمنٹ کا عندیہ دیا تھا۔
میوزیم میں اِس عظیم لکھاری کے شجرہ نسب سے لے کر اُس کے اپنے والد کو لکھے گئے خطوط تک سب دستیاب ہیں، وہ کہاں پیدا ہوا، کس اسکول میں گیا، والد سے اُس کا کیا اختلاف تھا، کس عبادت گاہ میں جاتا تھا، کن گلیوں میں گھومتا تھا، اپنی زندگی میں جو پانچ معاشقے کیے اُن کا انجام کیا ہوا، اپنی محبوبہ سے ملنے جب وہ برلن جاتا تھا تو کس ہوٹل میں قیام کرتا تھا، اپنی کس محبوبہ کے ساتھ وہ آخری وقت تک رہا اور پھر وہ بیچاری نازی کیمپ میں قتل کر دی گئی۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اچانک کہیں سے بلی کے چنگھاڑنے کی آواز آتی ہے اور آپ نیم اندھیرے میں گُم ہو کر کافکا کے سحر میں ڈوب جاتے ہیں۔ بیسویں صدی کے اس لازوال لکھاری کی زندگی بے حد اذیت ناک تھی، اُس کی بہنیں نازی کیمپوں میں ماری گئیں، خود اسے کم عمری میں ہی ٹی بی ہو گئی، آخری وقت میں وہ کچھ کھا پی نہیں سکتا تھا، اسی حال میں اُس نے اپنے شاہکار افسانے ”A Hunger Artist‘‘ کی تدوین کی۔ زندگی کے یہی درد اور سفاکی اُس کی کہانیوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ کافکا کی موت بے حد دردناک انداز میں ہوئی، ٹی بی کی وجہ سے اسے خون کی الٹیاں ہوتیں اور پھر اسی حال میں وہ پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ اگلے روز ہم کافکا کی قبر پر حاضری دینے گئے، موسلا دھار بارش ہو رہی تھی، قبرستان میں داخل ہوتے ہی ہمیں کافکا کی قبر کے نشان نظر آ گئے جن کا پیچھا کرتے ہوئے ہم اُس کی قبر تک پہنچے، قبر پر کچھ سکے پڑے تھے، ہم نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی، سر سبز درختوں کے جھنڈ میں کافکا کی قبر اداسی کی داستان سنا رہی تھی۔ ہمیں لگا جیسے کافکا کی روح پراگ میں بھٹک رہی ہے۔
(ہم سب)