مراد اک چاند کی صورت – صدف مرزا

کہیں بہت دور، ماضی کے دھندلکے میں سے بیتے دنوں کی ایک یاد زمان و مکان کے پردے ہٹا کر جھانکتی ہے کہ جب ایک پر شوق طالبہ کی حیثیت سے پروین شاکر کی جنونی مداحین میں شمار ہوا کرتا تھا اور اس کی نظمیں ہماری انگلیوں کی پوروں پر دھری رہتی تھیں، اور اس کے اشعار نوکِ زباں پر تھر تھرایا کرتے تھے۔ تعلیمی اداروں کے بیت بازی کے مقابلوں میں صرف پروین کے اشعار کی بیت بازی جیتنا ایک اعزاز بن گیا تھا، جب ”خوشبو‘‘ کا شمار محبتوں کے تحائف میں ہوا کرتا تھا اور جب ’کو بکو پھیل گئی بات شناسائی کی‘، کی بازگشت ریڈیو کی صداؤں میں شامل ہوا کرتی تھی۔ جب بچوں کو چالاک ہونے کا اعزاز دیا گیا اور لڑکیوں کے دکھ اور سکھ آنچل میں آنسوؤں کے ساتھ گرہ دے کر باندھے گئے تھے۔ ملک کے طول و عرض میں ایک ہی شاعرہ کے نام کی گونج ہوا کرتی تھی جسے الہڑ لڑکیاں محبت ناموں میں اور پختہ کار اس کے اشعار عمرِ دوراں کی زنجیر میں پروئے دکھوں کے روز نامچے میں لکھا کرتےتھے۔ جب اچانک ہی نسائی انداز و آواز اور نسائی جذبات کو اپنے ہونے کی سند مل گئی۔ جب عورت کے لبوں پر انکار کی تکرار اور اقرار کی جھنکار بھی گنگنانے لگی۔ جب اچانک روز مرہ کی ضرورتوں میں شامل صنفِ نازک کا بدن خواہش سے ہرا ہونے لگا، اسے چاند ستاروں، پھولوں، تتلیوں اور ہواؤں کے سندیسے پڑھنے کا کشف مل گیا۔ وہ قبول اور رد کی مہریں لگانا سیکھ گئی، جب وہ ٹوٹے ریزوں کی سی زندگی کو اپنے تخیل کے سہارے از سرِ نو ایک نئے سانچے میں ڈال کر شیشہ گری کے کمال دکھانے پر قادر ہو گئی اور جب ایک روز اچانک اس نے استحصال کی چکی کا آٹا بننے سے انکار کر دیا، کولہو کے بیل کی پٹی اپنی آنکھوں سے ہٹائی اور اپنی بصارت کے سب زاویوں کو تمام جہات میں سمو کر اپنا نکتہ نظر کہنے کی جرات دکھانے لگی…
پروین شاکر سے شناسائی ان ہی دنوں کی یاد ہے…
پروین سے محبت ان دنوں کی بھی شاہد ہے کہ جب زندگی کی ترجیحات اور مقاصد کے انتخاب نے شاعری کو طاقِ نسیان کی زینت بنا دیا اور زیست کو دیکھنے اور برتنے کا قرینہ سراسر بدل گیا۔ لیکن تب بھی اس کی کتاب سرہانے دھری رہتی اور بھاگتے دوڑتے لمحوں کو اپنی گرفت میں کرنے کی تگ و دو میں اس کتاب کی گرد جھاڑنے کی فرصت بھی نہ مل سکی۔ لیکن ذہن کے طاقچے پر یادوں کے چراغوں کی تھر تھراتی لو میں وہ اشعار اکثر جگمگایا کرتے تھے…
پھر ایک دن، برف کی سفید چادر زمیں کے سینے پر بیوہ کے آنچل کی صورت پھیلی ہوئی تھی، دسمبر کی کپکپاتی ہوئی اک شام اچانک جیسے کہیں برق گرنے کا جھماکا ہوا اور رعد و برق و صائقہ کی گڑ گراہٹ اس نغمہ بار صدا کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر گئی۔
اس دن بہت برسوں کے بعد میں نے اس کتاب کو بے حد حزم و احتیاط اور آہستگی کے ساتھ طاق سے اتارا… کسی ایسے گناہگار کی طرح جو زندگی کے تیز رفتار کارواں کا ساتھ دینے کے لیے اپنے عقائد کے احترام سے روگردانی کا مرتکب ہو چکا ہو اور جسے اچانک کسی محبوب ہستی کی تدفین کے بعد ایصالِ ثواب کی غرض سے جزدان کھول کر بھولے ہوئے صحیفے آنکھوں سے لگانے کی ضرورت آن پڑے۔ اس کی بھولی ہوئی نظمیں میں نے ایسے ہی عقیدت و رقت سے پڑھیں جیسے کوئی بھولا بھٹکا عابد اپنے معبد میں بیٹھ کر عفو و درگزر کے لئے تسبیح کے موتی گرائے چلا جاتا ہے.

ان ہی دنوں میں نے اپنے لخت جگر کے لیے لکھی ہوئی پروین کی نظمیں پھر پڑھیں… اب کی مرتبہ ان الفاظ کی شدت کو سمجھنے میں مجھے کوئی دشواری نہ ہوئی کہ اب تک میں نے بھی زندگی جنم دے رکھی تھی اور میرے کان بھی قلقاریوں کی صدا کو ملکوتی نغموں سے برتر جانتے تھے…
اب کے دل میں وہ درد اٹھا جو طالب علمی کے زمانے میں شاید کبھی لہر نہ اٹھا سکتا… میں ہفتوں نہیں مہینوں اس کے گیتو کا چہرہ تصور میں لا کر، مرادوں سے مانگی اس مراد کو بے اماں ہونے کے دکھ کی اذیت اور اس کی گہرائی ماپنے کی کوشش کرتی رہی اور نجانے ایک ماں ہوتے ہوئے بن ماں کے ایک بچے کی دنیا میں اٹھتے زلزلوں سے برپا قیامت کا اندازہ لگاتی رہی…
لیکن میں نے کبھی ایک پل کے لیے بھی اپنے خواب و خیال کی طلسمی امکانات بھری دنیا میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس عظیم ماں کی یہ مراد اور اس کی حسسیں آنکھوں کا یہ جگمگاتا خواب ایک دن میرے پاس، مجھے ملنے آئے گا اور اس کی جگمگاتی پیشانی چوم کر مجھے ایک بے تاب مامتا کی مہک بھی محسوس کرنے کا حساس اور خواب ناک لمحہ میسر آئے گا۔
اپنی ماں کی بے پناہ شباہت لیے، بلند پیشانی اور ستاروں کے غبار سے بھری آنکھیں لیے، بے تکلفی اور محبت سے ملنے والے مراد کو دیکھ کر ساعت بھر کو بھی یہ گماں نہ گزرا کی یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔ باتیں کرتے کرتے معصوم اور میٹھے لہجے میں ننھے بچے جیسی شوخٰ سے مراد نے شریر انداز میں مجھ سے پوچھا:
”آنٹی! آپ ڈنمارک سے آئی ہیں تو آپ کے پاس ڈینش ککیز Danish Butter Cookies تو ہوں گے؟‘‘
اور جواب میں مجھے ایک لوک گیت کے بول یاد آ گئے…
”توں کملی جھنگ دی ونگ منگدی، تینوں جھنگ دا جھنگ منگا دیساں‘‘
( تم پگلی جھنگ کی چُوڑی کی فرمائش کرتی ہو، میں تو تمہیں پورا جھنگ منگوا دوں‘‘
باوجود وقت کی کمی اور اپنے اپنے سفر کی تیاریوں میں، ہمیں اتنا وقت ضرور مل گیا کہ ہم اگلی دفعہ آرام سے پروگرام بنا کر ملنے کا وعدہ کر سکیں۔ میں نے اسے چھوٹے بچوں کی طرح بہلاتے اور ورغلاتے ہوئے کہا کہ بیٹا جب آپ میرے پاس ڈنمارک آئیں گے تو آپ کو Danish Butter Cookies میں تول دیا جائے گا۔ بلکہ میں خود بیک کر کے کھلاؤں گی (میرے اندر پروین نے آہستہ سے کہا، میرے لعل، میرے چاند، تم آؤ تو سہی!)
مجھے میزبانی کا شرف ملے تو تمہاری اُجلی پیشانی سے وہ تمام تحریریں پڑھنے کی کوشش کروں گی جو ایک بے مثال قلم قرطاس پر بکھیرنے سے پہلے ہی خاموش ہوگیا۔ مراد کےاچانک آنے کی خوشی میں مجھے یہ بات بھی بھول گئی کہ اس دن پروین شاکر کی سالگرہ تھی… اس سے ملنے کے سحر پرور واقعے کو زیرِ قلم لانے کی کوشش میں پروین کی وفات کی تاریخ بھی دروازے پر آن کھڑی ہوئی۔ لیکن آج یہ بات طمانیت کا باعث ہے کہ بہت جلد پروین کا کلام ڈینش زبان میں بھی منتقل ہو کر اپنا سحر پھونکے گا۔ پروین کی ڈرامہ ڈاکومنٹری کے امکانات پر بات کرتے ہوئے مجھے یہ بھی کہا گیا کہ آپ پروین کی اتنی بڑی مداح ہیں، آپ اس کا کردار ادا کرنے کی سوچیے… میرا پہلا تاثر ہراساں ہو کر یہی تھا کہ صاحب یہ بات بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کے مترادف ہے کہ ہماری تو پہلے ہی جرائم کی فہرست کافی طویل ہے.
ہمارے ہاں ابھی تک شعر و سخن اور قلم و قرطاس کی دنیا میں قدم رکھنے والی خواتین کے راستے میں حشرات بھری کھائیاں ہیں، حیوانات بھرے جنگل ہیں، مگر مچوں بھرے سمندر اور پرواز کرتے کرگسوں کا ایک جہاں آباد ہے۔ مستزاد کہ قلمکاری کے ساتھ ادا کاری کے جرم کی سزا تو شاید کئی مرتبہ پھانسی کے برابر ہو۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر اور سخن ور جناب مظہر الاسلام کی عنایت اور پروین ٹرسٹ کی صدر محترمہ پروین قادر آغا اور محترم افضال صاحب کے خصوصی تعاون کے بغیر اتنے مختصر وقت میں شاید یہ ملاقات کبھی ممکن نہ ہوتی۔ میں ان کی اور مراد بیٹے کی ممنون ہوں۔


ایک نظم
2012 میں اسلام آباد کی ایک ملاقات کے فوراً بعد…

ابنِ پروین شاکر کے لیے

مرے گھر میں اتر آیا
اک ایسا چاند جس کی حکمرانی تھی
کبھی خوشبو کی ملکہ کی معطر زندگانی پر

اک ایسا چاند چپکے سے مرے گھر میں اتر آیا
کہ جس کی روشنی نے تیرہ بختی کی نحوست کو
شجاعت سے لتاڑا تھا
جسے ساری رتوں پر فوقیت دے کر
کبھی الفاظ کی دیوی نے میری جاں‘، ’مرا بیٹا‘
پکارا تھا

اتر آیا مرے گھر میں وہ روشن چاند جس کی
نقرئی کلکاریوں کی گھنٹیاں سن کر
ستارے ماند پڑ جاتے تھے، چھپ کر مسکراتے تھے

کبھی احساس کے گہرے سمندر کی حسیں اک جل پری نے
مامتا کی تمکنت سے اپنے خالق کو بتایا تھا
کہ وہ بھی اک چمکتے چاند کی ماں ہے…
کہ وہ بھی ایک خالق ہے

کہ اس کے گھر کے آنگن میں
اسے ہی ڈھونڈتی
قوسِ قزح کے سات رنگوں سے مسجع
ایک تتلی آگئی ہے اور اپنے پر سمیٹے
بیٹھ کر آرام کرتی ہے

کہ اب اس کے دریچے میں کئی چِڑیاں چہکتی ہیں
کہ اس کے کلیہ ٔ جاں میں
اجالا ہی اجالا ہی
جواز اک مل گیا ہے اس کی جینے کی مشقت کا
تو میرے چاند، میں تیرے تبسم میں
ترے دلکش تبسم میں، تری اس موہنی صورت کے ہالے میں
صریحاً دیکھتی ہوں بانکپن تیری وراثت کا

تو، میرے چاند! میں تیری دمکتے چاند سے ماتھے کو
تحیر سے بھری نظروں سے چھوتی ہوں
مرا پنچھی تصور جھانکتا ہے موڑ کر گردن ذرا سی
اس کے آنگن میں
کبھی پھولو ں کے جھرمٹ سے
کبھی سوندھی، مہکتی، بھینی خوشبو سے
ہو اکا تھام کر آنچل
مہکتی ساعتوں کے دل نشیں لمحوں کی دلداری
اسی دست ہنر نے جس نے غزلوں کی طرح ہی تیرے ماتھے کی
حسیں آوارہ بالوں کو سنوارا تھا محبت سے
ترے ننھے سے ہاتھوں سے
تری آنکھوں کی شوخی سے
بُنے ہوں گے نئے رنگیں خوابوں کے
نئے رنگین پیراہن
ترے لہجے کے رنگوں سے تراشے ہوں گے گل بوٹے
تخیل کے پروں میں ایک شہپر بھی سجا ہو گا

تمہاری موہنی صورت کو دیکھا ہے
تو دل پر قطرہ قطرہ اوس برسی ہے
الوہی ایک جذبے نے چھما چھم ابر کی صورت
اچانک ہی مری آنکھوں کے گوشوں کو بھگویا ہے
مری نظریں
دعا گو یہ مری نظریں
خموشی سے تمہارے خوب رو معصوم چہرے کی بلائیں لینے لگتی ہیں

دعا ہے یہ صدف ؔ کی، تیرے ماتھے پر
سدا روشن رہے یہ صبح کا تارہ
کسی مغرور ممتا کی جبیں پر جو دمکتا تھا
تمہاری مسکراتی شوخ نظروں میں
ہمیشہ جگمگاتا ہی رہے اس نور کا پرتو
کہ جس کی حشر سامانی
طلسمی انگلیوں کی پوروں سے چنتی رہی سوئیاں
مرادوں کے حسین موتی جو اس نے روح کے تاگوں میں
چپکے سے پروئے تھے
چمک اٹھے اچانک ہی

تمہاری موہنی صورت کو دیکھا ہے
اچانک تشنہ لب جذبہ
تڑپ اٹھا ہے خواہش سی
گلے تم کو لگا کر
تیری پیشانی کوچوموں میں
ترے ہاتھوں کو چھو کر
ان کی ہلکی سی حرارت جذب کر لوں اپنے ہاتھوں میں
ہمہ تن گوش ہو کر پھر
میں خوشبو سے مہکتی خود کلامی کی نئی سرگوشیاں سن لوں

مرے گھر میں بھی اترا ہے!!!
مرادؔ اک چاند کی صورت

(صدف مرزا)