ریل کا سفر، کتابوں کی زبانی – نعیم الرحمٰن

ریل کے سفرکے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’جب سے ریل گاڑی چلی ہے، لوگ اپنی بیٹیوں کودُور دُور بیاہنے لگے ہیں۔‘‘ اسی ریل کے سفر پر اُردو میں تین بہت ہی خوبصورت کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں سے پہلی بی بی سی اُردو کے لیے رضا علی عابدی نے ’’ریل کہانی‘‘ کے نام سے لکھی۔ کیا خوب سفر ہے۔ جب بی بی سی کے پروگرام ”سیربین‘‘ میں یہ قسط وار چلتا تھا تب بھی لوگ اس کا انتظار کرتے تھے اور پھر کتابی شکل میں بھی اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ کچھ عرصے قبل محمد حسن معراج نے ’’ریل کی سیٹی‘‘ (شائع کردہ سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور) میں پنڈی سے اُچ شریف کے سفرکا احوال بیان کیا اور اپنی بے مثال نثر اور خوبصورت بیانیے سے قارئین کو سحر میں مبتلا کر دیا۔ پھرحال ہی میں ”ایمل پبلیکیشنز‘‘ نے فضل الرحمٰن قاضی کی کتاب ’’روداد ریل کی‘‘ پیش کی۔ جس میں مصنف نے ریلوے کی تاریخ اور اپنی وابستگی کو بھرپور اندا ز سے پیش کیا ہے۔ کتاب ”ایمل‘‘ کے روایتی خوبصورت اندازمیں شائع ہوئی ہے۔ تاریخی تصاویر نے اس کی دلچسپی میں اضافہ کیاہے۔ آج انہی تین کتابوں کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
رضا علی عابدی نے بی بی سی کے پروگرام سیربین کے لیے’’جرنیلی سڑک‘‘ اور پھر دریائے سندھ کے ساتھ سفرکا احوال ’’شیردریا‘‘ کے نام سے لکھا۔ دونوں سلسلوں کی مقبولیت کے بعد عابدی صاحب نے ریل کے ذریعے کوئٹہ سے کولکتہ کا سفر نامہ تحریر کیا۔ ذکر ہو ریل کا اور پھر بیاں رضاعلی عابدی کا تو سونے پر سہاگہ تو ہونا ہی تھا۔ لکھتے ہیں: ’’ریل گاڑی کی اپنی الگ دنیا ہے۔ شہرکی وہ سڑک جو ریلوے اسٹیشن کی طرف مڑتی ہے، اُس پر مڑتے ہی نہ صرف ماحول کی بلکہ مڑنے والے کے شعور کی کیفیت بھی بدلنے لگتی ہے۔ وہیں سے فضا کے رنگ اور ہوا کی بو بدلنے لگتی ہے اور پھر اسٹیشن کی عمارت میں قدم رکھتے ہی اور ریل کے ڈبے میں داخل ہوتے ہی نہ صرف احساس بدلتا ہے، احساس کا مالک بھی بدل جاتا ہے۔ ریل کے ڈبے میں ہر شخص گھبرایا ہوا داخل ہوتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ خود اور اس کا مزاج سنبھلنا شروع ہوتا ہے۔ پھر برابر بیٹھے ہوئے مسافر سے علیک سلیک ہوتی ہے جو بعض اوقات زندگی بھرکے گہرے مراسم میں بدل جاتی ہے۔ عمر بھی کی دوستیاں ہو جاتی ہیں اور خدا جانے کتنی شادیاں اور کتنے رشتے ان ہی ریل گاڑیوں میں طے ہوئے ہوں گے۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ انسان کو سمجھنا ہو تو اس کے ساتھ ریل گاڑی میں سفر کیجئے۔ انسانی رشتے اور محبتوں کے تعلق پروان چڑھانے ہوں تو یہ کام کسی ہوائی جہاز، بس، ٹیکسی یا رکشا میں نہیں ہوسکتا۔‘‘
رضاعلی عابدی نے مارچ 1996ء میں کوئٹہ سے سفرکا آغاز کیا. انہیں کلکتہ پہنچنے میں پورا ایک مہینہ لگا۔ عابدی صاحب جس روز کوئٹہ پہنچے، رات کو بارش اورسامنے پہاڑوں پربرف پڑچکی تھی۔ رات کی جھڑی نے سب کچھ دھو دھلا کر صاف ستھراکر دیا تھا۔ اسٹیشن کی وہی دیکھی بھالی سی، جانی پہچانی سی عمارت، سامنے بڑے بڑے در، لمبا چوڑا برآمدہ، اس کے اندرٹکٹ گھر، انتظار گاہیں، دفتر اور اپنے بکسوں اور سوٹ کیسوں پر بیٹھے مسافر۔ لیکن سب سے نمایاں پتھرکی بڑی سی تختی پرکھدے ہوئے ان ایک سو چون ریلوے ملازموں کے نام جو مئی 1935ء کے زلزلے میں مرگئے تھے۔
عابدی صاحب کو اس وقت مرزا محمد ہادی رسوا یاد آئے، جن کے بارے میں ہم یہ توجانتے ہیں کہ انہوں نے اُردو کا پہلا اور یادگار ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ لکھا تھا۔ مگراب کسے یاد ہوگا کہ جب یہ ریلوے لائن بچھائی جارہی تھی، مرزا صاحب کی ملازمت کوئٹہ میں تھی۔ وہ رڑکی انجینئرنگ کالج کے سند یافتہ اوراس ریلوے لائن کے سروے میں شریک تھے۔ رضاعلی عابدی کے بقول ’’ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ ہادی رسوا نہ ہوتے تو ایک شریف گھرانے کی لڑکی کوٹھے تک اور ہندوستان کے میدانوں سے ریل گاڑی کوئٹے تک نہ جاتی۔‘‘
رضاعلی عابدی شگفتہ اور رواں دواں نثر میں ریل کہانی (شائع کردہ سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور) میں ہمیں مختلف اسٹیشنوں، قلیوں اور مسافروں کے احوال اور بدحواسیاں اس طرح سناتے ہیں کہ قاری خود کو ان کا شریک ِسفر محسوس کرتا ہے۔ پہاڑ سے اترتے راستے کے ذکر میں بتاتے ہیں کہ ’’پہاڑسے اترتے ہوئے ٹرین کی رفتار دھیمی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں اس میں خاص طرح کے بریک لگائے جاتے ہیں تا کہ ڈھلان پرگاڑی بے قابونہ ہو جائے۔ ریلوے ملازمین نے اس لائن کو جہنم لائن کا دلچسپ نام دے رکھا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ میں صرف ایک بار یہ جہنم لائن آزمائی گئی۔ ایک مرتبہ گاڑی کی بریک فیل ہونے پر کانٹے والے نے گاڑی کو جہنم لائن پرڈال دیا۔ اس نے پٹری بدلی۔ اونچائی پر چڑھی۔ چڑھتی چلی گئی۔ جہاں اسے ریت میں دھنسنا تھا وہاں اس نے دھنسنے سے انکار کر دیا اور آخری سرے سے بھی آگے نکل کر جہنم میں ہی چلی گئی۔ خوش قسمتی سے اس میں صرف پھل لدے ہوئے تھے۔ سارے کے سارے وہی پھل جوجنت میں ملیں گے۔‘‘
سکھرسے کوئی چوبیس کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گمنام اسٹیشن ہے۔ ”رُک‘‘ اگر انگریزوں کا خواب پورا ہو جاتا اور قدرت کو منظور ہوتا تو اس جگہ ایشیا کا ایک عظیم الشان اسٹیشن ہوتا۔ رُک جنکشن۔ پورے برصغیر سے مسافر یہاں آیا کرتے اور ریل گاڑیوں میں بیٹھ کر اندرونِ سندھ کے اس اسٹیشن سے قندھار، کابل، وسطی ایشیا اور یورپ جایا کرتے۔ مگریہ خواب ادھورا ہی رہا۔ رک جنکشن چھوٹا سا بھولا بسرا اسٹیشن ہی رہ گیا۔ مقامی باشندے اس کی بھی ایک کہانی سناتے ہیں۔ ’’رُک میں ایک جوگی رہتا تھا۔ جس کے گلے میں سُروں کا رس بھرا تھا وہ رات دو بجے گانا شروع کرتا تھا تو اس کی آواز سن کر دور، دورسے لوگ کھنچے چلے آتے اور اس کی پھیلی ہوئی چادر میں پیسے ڈالتے جاتے تھے۔ صبح روشنی ہوتے ہی جوگی وہ ساری رقم غریبوں میں تقسیم کر کے چلا جاتا۔ جوگی کے مخالفوں نے ایک روز رُک اسٹیشن پر اسے گولی ماردی۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد رُک کا اسٹیشن اپنی رونق سے محروم ہو گیا۔ اب اکثر گاڑیاں یہاں سے رکے بغیر گزر جاتی ہیں حالاں کہ دیوار پر بڑا بڑا لکھا ہے۔ رُک۔‘‘
ایسی بے شماردلچسپ اور رنگا رنگ کہانیاں ریل کہانی میں بھری ہوئی ہیں۔ کہیں کسی مست فقیر کا ذکر ہے۔ کہیں سبی کی گرمی کا احوال، آبِ گم، آباد اور ہمایوں جیسے اسٹیشنوں کے نام ہیں، جن سے کوئی آشنا نہیں۔ ذرا اندازِ بیان دیکھیں۔ ’’رحیم یارخان کی خوبی یہ تھی کہ ان پر نہ کسی حکم کے اشتہار تھے نہ کسی ڈاکٹر کے۔ نہ نجومی، نہ کالے جادو والے پروفیسر عامل کا ذکر۔ ان پرصرف اسکولوں کے اشتہار لکھے تھے اور اسکول بھی انگلش میڈیم۔ سوچتا ہوں کہ اگر دوچار نسلیں ان میں پڑھ گئیں تو کچھ عرصے بعد وہاں جو واٹر نہیں مانگے گا اسے پانی نہیں ملے گا۔‘‘
لاہور سے آگے رضاعلی عابدی امرت سر پہنچے تو خود کو بالکل اجنبی دیس میں پایا۔ نہ کوئی صورت آشنا، نہ نام آشنا، نہ کوئی آواز آشنا۔ اب ہاوڑا میل کا انتظار تھا۔ گاڑی کلکتہ سے آتی ہے اور پھر تین گھنٹے صفائی کے بعد روانگی کے لیے تیار ہو کر پلیٹ فارم پر آتی ہے۔ صفائی کے لیے یارڈ میں جانے سے پہلے سینکڑوں مسافر یاہو کا نعرہ لگا کرمستانہ وار دو جنرل ڈبوں میں کھچا کھچ بھرجاتے ہیں۔ ہرگاڑی کے یہ دو ڈبے ایسے ہوتے ہیں جن کی نشستیں پہلے سے محفوظ کرانا ضروری نہیں۔ بس ایک آپ کی ہتھیلی ہو اور اُس پرجان رکھنے کی آپ کی استطاعت ہو۔ آخر میں رضا علی عابدی کہتے ہیں کہ یہ کتاب خراج عقیدت ہے ان لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو جنہوں نے برصغیرکے طول و عرض پر ریلوے لائنیں بچھائیں۔ جنہوں نے تپتی دھوپ میں، کڑاکے کے سردی، برستی بارشوں میں، ناقص خوراک پر گزارا کرکے، ہولناک بیماریوں کی تباہ کاریاں جھیلتے ہوئے رات دن اپنے سروں پر مٹی کی ٹوکریاں ڈھو کر اپنی زمین کوبلند اور اپنی سرزمین کو سربلند کیا۔ ریلوے کے بڑے بڑے حکام، منصوبہ سازوں، ماہروں، انجینئروں اور ٹھیکے داروں کے نام تو کہیں کسی بورڈ پر، کسی تختی پر، کسی کتاب اور دستاویز میں محفوظ ہیں، مگر وہ جو مٹی ڈھوتے ڈھوتے خود بھی ڈھے گئے، ان کے نام، ان کی تصویریں اب کہیں موجود نہیں۔ کون تھے، کہاں سے آئے، کہاں گئے، اب کسی کونہ یاد ہے، نہ معلوم۔
محمد حسن معراج کانام دنیائے ادب میں کچھ آشنا نہیں ہے لیکن انہوں نے اپنی پہلی کتاب ’’ریل کی سیٹی‘‘ سے تحریر، زبان بیان اور اسلوب سے متاثر کیا ہے۔ کیا خوب لکھا ہے کہ قاری کتاب شروع کرکے ختم کئے بنا نہ چھوڑ سکے اور ختم ہونے پر جلد تمام ہونے کا دکھ ہو۔ مشہور نقاد، شاعر، افسانہ نگار اور دانشور ناصر عباس نیرکتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’برصغیر میں ریل کا آغاز مواصلات کے جدید اور بڑی حدتک انقلابی ذریعے کے طور پر ہوا، مگرجلد ہی ریل ایک اہم علامت بھی بن گئی۔ ایک طرف وہ نوآبادیات کی ٹیکنالوجی اور طاقت کی علامت تھی اور دوسری طرف یورپی جدیدیت کی۔ برصغیرکے جن علاقوں میں ریل کی پٹریاں بچھائی گئیں، وہاں ایک نئی ثقافت کا آغاز ہوا۔ ان علاقوں کی زبانوں کے لوک ادب میں ریل اور ریل کی سیٹی باقاعدہ استعارہ ہیں۔ ملنے، بچھڑنے، سفر و دوری، خوشی و رنج کا۔ اُردو شاعری اور فکشن میں بھی ریل کا کافی ذکر ہوا ہے اور مختلف تناظرات میں ہوا ہے، لیکن محمد حسن معراج نے ریل کی سیٹی کے نام سے جو کتاب لکھی ہے، وہ چیزے دیگر ہے۔ مصنف نے پنڈی سے اُچ شریف تک ریل کی پٹری کے ساتھ سفرکیا ہے۔ یہ سفر جس قدر غیر روایتی ہے، اسی قدرغیر معمولی بھی ہے۔ ریل کے ساتھ ساتھ جو دریا بہتے ہیں، اور جو گاؤں، قصبے، شہر آباد ہیں، مصنف نے ان سب کی صدیوں پر پھیلی تاریخ و تہذیب کے اندر سفر کیا ہے۔ اس تاریخ میں جتنے اہم کردار اور واقعات تھے اور جوان علاقوں کی تقدیر پر اثر انداز ہوئے، ان سب کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے محض ان کے بیان پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ان تاریخی واقعات اور کرداروں نے یہاں کے باسیوں کی سیاسی و معاشی، ثقافتی اور نفسی و تخلیقی زندگی پر جو اثرات مرتب کیے، ان کی طرف بھی معنی خیزاشارے کیے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مصنف نے پاکستانی پنجاب کے ثقافتی لاشعورکی بازیافت کی ہے۔ مصنف کے مطالعے کی وسعت حیران کن اور اسے اختصارسے پیش کرنے کا سلیقہ متاثرکن ہے۔‘‘
محمدحسن معراج نے اس سفر کا ذکر کہیں کہانی کی صورت کیا ہے، کہیں انشائیے کا اندازاختیارکیا، کہیں آپ بیتی کااسلوب بیان اپنایا اور کہیں رپورتاژ کا رنگ نمایاں ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو اصنافِ ادب کی روایتی حد بندیوں کو پاش پاش کرتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے شہروں اورقصبوں کی تاریخ سے متعلق ہر نوع کی معلومات حیرت انگیز تو ہیں ہی، لیکن اتنی ہی اہم کتاب کی نثر ہے۔ ایسی زندہ، رواں، ولولہ خیز، اختصارپسند، طنز و چٹکی بھرنے کے اندازکے ساتھ ہرجگہ معنی و بصیرت سے مالامال ایسی عمدہ نثر بہت کم پڑھنے کوملتی ہے، جس کے لیے مصنف بھرپور داد کے مستحق ہیں۔
کتاب کے چھوٹے چھوٹے جملوں اور پیروں میں مصنف بڑی بڑی باتیں سادہ انداز میں کہہ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ بیرونِ ملک بچوں کے تنہا والدین کے ذکر میں کیا لاجواب جملہ ہے۔ ’’جنوب مشرقی ایشیا میں لکیر کے دونوں طرف، ماں باپ کا المیہ یہ ہے کہ یا تو وہ بچوں کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں یا ان کو ترقی کرتا دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ مانکیالہ میں برسوں پہلے انگلینڈ سے ایک ڈاکٹرصاحب آئے، پوچھتے پاچھتے پرانے محلے گئے، موہڑہ بھٹاں کے تالاب دیکھے، اسکول میں آنسو بہائے، مندرمیں ماتھا ٹیکا اور چلے گئے۔ بعد میں پتہ چلا اِن کے دادا، بالک سنگھ، اسکول کے ہیڈماسٹر تھے۔ بالک سنگھ، گیان بانٹے بانٹے یہاں سے چلے گئے اور ڈاکٹرصاحب، اپنا بچپن ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں آئے تھے۔
دلچسپ اور ذومعنی جملے اور پیرے قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتے ہیں۔
پوٹھوار کے جری جوان اپنی تاریخ نبھارہے ہیں۔ حفاظت کرنا شاید اس مٹی کی تاثیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ، شہیدوں کی قبریں اور بیرون ملک سرمائے سے بنی رنگین کوٹھیاں کثرت سے نظر آتی ہیں۔
مہا بھارت میں لکھا ہے کہ گوجر پہلے لڑے اور بعد میں اپنے دیوتا کشن کے ساتھ ہجرت کر گئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے پوٹھوارکے لوگ، پہلے جوق درجوق فوج میں بھرتی ہوئے اوراب گروہ درگروہ ملک سے باہرجارہے ہیں۔
فرید خان نے قلعہ روہتاس کی تعمیرکے لیے ترپ کا پتہ پھینکا اور تاریخ کو ٹوڈرمَل مِل گیا۔ اس کایستھ کھتری نے اعلان کیا کہ ہر پتھرلانے والا مزدور، ایک سونے کا سکہ انعام پائے گا۔ چند دنوں میں لوگ تانبے کے سکوں کے عوض پتھرڈھونے لگے۔ شیرشاہ کی تلوار تو جنجوعہ قوم کی اطاعت حاصل نہ کرسکی، مگر ٹوڈرمل کی اشرفیوں نے ان کا ایمان ضرورحاصل کرلیا۔ ادھر قلعہ مکمل ہوا، ادھر ہندوستان میں سوریوں کی حکومت اپنے انجام کو پہنچی۔ رہ گیا ٹوڈر مل، تو وہ اچھے ٹیکنوکریٹ کی طرح نئی حکومت کا بھی منظورِ نظر بن گیا۔ شیر شاہ کا میرِ تعمیر، جلد ہی مہابلی کا لگان منتری بن گیا۔
پاک سرزمین کو سیراب کرنے سے پہلے، دریائے جہلم، ہندوستان کی زمین میں بھی زرخیزی بانٹتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ندی، نالے، درخت، دریا، فیض دینے سے پہلے شناخت کا تقاضا نہیں کرتے۔
دریا کے یخ بستہ پانیوں میں مضبوط چپو چلتے ہیں اورساتھ ساتھ نازک دل مچلتے ہیں۔ وسیع کناروں پر مختصر پیمان باندھے جاتے ہیں اور نئی نئی آبادیوں میں پرانی پرانی یادیں دفن ہوتی چلی جارہی ہیں۔
1971ء کی جنگ میں ہلی کے معرکے میں چودہ دن تک ہندوستانی فوج کا راستہ روکنے والے میجر محمد اکرم شہید کا تعلق بھی جہلم سے ہے۔ دیناج پور میں آسودہ خاک اس بہادر کی یادگار، جہلم شہر میں ہے۔
سیالکوٹ کے ذکر میں حسن معراج لکھتے ہیں کہ ’’سیالکوٹ اتنے مشہور لوگوں کا مسکن ہے کہ گمان پڑتا ہے شاید خدا، شہر والوں سے بے حد خوش ہے۔ اقبالؒ منزل کے اقبالؒ سے لے کر کالا قادر کے فیض تک، اخبار والے کلدیپ نائرسے رامائن والے نریندر کوہلی تک، پاکستان سے ہندوستان جا بسنے والے راجندر سنگھ بیدی سے پاکستان چھوڑ کر، امریکا جا بسنے ذوالفقار غوث تک، خوبرو ہیرو وحید مراد سے خوبصورت آدمی راجندر کمار تک، پہلے وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان سے تیرہ دن کے وزیر اعظم گلزاری لال نندا تک اور کرکٹ کے ظہیرعباس سے ہاکی کے شہناز شیخ تک، سیالکوٹ دھنوان لوگوں کا شہر ہے۔ اس ساری تعریف کے دوران یکایک ایک شور بلند ہوتا ہے۔ اندھے، گونگے اور بہرے ہجوم کا شور… ’مار، مارو‘ اور ’جانے نہ پائے‘ کی آوازیں تھمتی ہیں تو منیب اور مغیث کی کراہ بلند ہوتی ہے۔ شہر کے دو بچے، شہرکے ہی لوگوں کے ہاتھوں زندگی ہار گئے۔‘‘
کس عمدگی سے حسن معراج نے سیالکوٹ کی تعریف اور یہاں گزرنے والا سانحہ چند جملوں میں بیان کیا ہے۔ پوری کتاب میں ایسے بے شمار واقعات اور ان گنت جملے ہیں جو روح کے تارچھیڑ دیتے ہیں اور کتاب ختم ہونے کا قاری کو افسوس ہوتا ہے۔ محمد حسن معراج کی ایسی مزید کتابوں کا انتظار رہے گا۔
فضل الرحمٰن قاضی 1935ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ آباؤاجداد کا تعلق ریاست پٹیالہ سے ہے۔ ان کے والد قاضی فضل الحق 1920ء میں کوئٹہ میں وارد ہوئے اور یہاں ریلوے میں ملازمت اختیار کی اور مدتِ ملازمت کے اختتام تک اسی سے وابستہ رہے۔ پھر فضل الرحمٰن کو اسی محکمے میں بھرتی کروا دیا۔ فضل الرحمٰن نے چوبیس سال ریلوے میں ملازمت کے بعد کانٹا بدل لیا۔ لیکن والد کی رفاقت اور ربع صدی کی ملازمت نے انہیں ریلوے کا نظام بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے ’’روداد ریل کی‘‘ (شائع کردہ ایمل پبلیکیشنز، اسلام آباد) میں دنیا میں ریل کے آغاز، ہندوستان میں اس کی آمد اور فروغ کی پوری تاریخ بیان کردی ہے۔ ان کا اسلوب متاثر کن اور تحریر رواں دواں نثر سے مزین ہے۔
پبلشرشاہد اعوان کتاب کا تعارف کچھ یوں کراتے ہیں:
’’ریل کی سیٹی کی آواز، دخانی انجن کا دھواں، انجن کی دھمک اور چھک چھک کی موسیقیت کے ساتھ گذشتہ کئی نسلوں کی زندگی جڑی ہوئی تھی۔ خوشی اور غم کی یاد ہو یا کاروباری اور تفریحی سفر کی بات، دھرتی کے سینے سے چمٹی یہ دو آہنی لکیریں محض رستہ نہیں ایک بھرپور معنویت کے ساتھ زندگی اور ترقی کا استعارہ تھیں۔ معاصر دنیا کے برعکس ہمارے ہاں اب ریل ماضی کا ایسا بوسیدہ نشان بن کر رہ گئی ہے کہ چاہے تو اس پہ ماتم کر لیجئے یا سینے سے لگا کر فخر، مستقبل کا کوئی خوش کن منظرچشم تصور میں نہیں آئے گا۔ داستان کی قدیم صنف کا مزا، ریل کے جدید موضوع کے ساتھ صاحبانِ ذوق کے لیے ایک پرلطف تجربہ ہے۔ معلومات اور واقعات کا ایساخزینہ اور پھراہلِ زبان کے رواں دواں اور شستہ قلم کا بے ساختہ اور رچا ہوا اسلوب کہ جانے کون کون سی حسیات کی تسکین کا سامان۔ ریل کے تذکرے میں زوال کا نوحہ بھی ملتا ہے اور شگفتہ واقعات خندہ زیرِلب کا بھی بنتے ہیں۔ دلچسپی کاعنصر کسی افسانے یا ناول سے کم نہیں اور معلومات کسی نصابی کتاب سے بھی زیادہ، مگر اسلوب کی خوبصورتی قاری کو اپنے ساتھ بہالے جاتی ہے اور آخری سطر تک برقرار رہتی ہے۔ قاضی صاحب نے کتاب لکھ کر نامعلوم فرض کفایہ ادا کیا ہے یا فرض عین مگر ہم سے رندان خرابات کا ذوقی ایمان تازہ کردیا۔‘‘
سلمان آصف کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ:
’’یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ قاضی صاحب ایک محقق و مورخ ہیں، داستان گو ہیں کہ بگولہ پا سیاح ہیں۔ اور دھوئیں کے بادل اُڑاتی، فراٹے بھرتی، فلک شگاف چنگھاڑ بُلند کرتی ریل گاڑی بذاتِ خود اپنے زمانے کی شاہد ہے کہ مشہود۔ تاریخ کے مہا ساگر کی موجوں پر بنتے، بگڑتے نقش الفاظ کو کاغذ کی گاگر میں سمیٹنے کے لیے قاضی صاحب کا وسیع مطالعہ، ان کے جیسی من مست لگن اور مگن ہوکر لکھنے کی صلاحیت، کے ساتھ انکی سی قدرتِ اظہار درکار ہے جواس داستان میں یونانی المیے کاکرب، مرثیے کی تہذیب، غزل کا ایجاز اور ڈرامے کا اعجاز، زیرِلب خندہ افروز واقعہ نگاری کے رنگ بھرے۔ اس داستان کا آپ بیتی پر مبنی باب اپنی تحیر آمیز سادگی اور وارفتگی کا مثالی ملن ہے۔ ریل گاڑی کی اس صنعتی، سماجی اورذاتی داستان کو پڑھنے کے بعد قاری بے اختیار سوچنے لگتا ہے کہ آیا یہ ایک خواب تھا، یا جادو۔ سائنس کاکرشمہ تھا یا آرٹ کا۔ یوں لگتاہے جیسے اُودی گھٹا کے سائے تلے غنایت کے رس سے بھری کوئی نظم پڑھ لی ہے، دھڑکن کی لے پر بجتا ہوا کوئی نغمہ سُن لیا ہو۔‘‘
ریلوے کو آغاز میں سخت تمسخر، مخالفت اور نکتہ چینی کا سامنا اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بہت تگ و دو کرنا پڑی۔ مخالفت میں احمقانہ باتیں، کینہ پروری، اندیشے اورتحفظات شامل تھے۔ ایک جرمن ڈاکٹرنے تو یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ ریل گاڑی کے گزرنے کا منظر دیکھ کر لوگ پاگل ہو جائیں گے۔ ریلوے لائن کے دونوں جانب پردے نہ لگائے گئے تو گائیں کھٹا دودھ دینے لگیں گی۔ ریل گاڑیوں میں ٹوائلٹ کا آغاز کیسے ہوا۔ ایسی بہت سی معلومات کتاب میں درج ہیں، جنہیں ”ایمل‘‘ نے تصاویر سے مزید دلچسپ اور قابل دید بنا دیا ہے۔
قلعہ عبداللہ کے بعد پہاڑوں کا سینہ چیر کر ریلوے لائن بچھانا مزدور سے لے کر انجینئرنگ کا کمال ہے۔ چمن کی جانب سے سرنگ کا راستہ نیچائی سے اُونچائی کی طرف جاتا ہے۔ سرنگ کے اس اونچے نیچے راستے کا بالکل ٹھیک مقام پر ایک دوسرے سے مل جانا اور دونوں سمت سے ذرہ برابر فرق نہ آنا انجینئرنگ کی معراج نہیں تو کیا ہے۔ یہاں ایک سانحہ بھی پیش آیا۔ سرنگ کا ڈیزائن تیار کرکے اپنی نگرانی میں تیار کرنے والے انگریز انجینئر نے پیشگی تخمینہ لگا کر بتایا تھا کہ سرنگ 16 اپریل 1890ء کو درمیان میں مل جائے گی، مگر ایسا نہ ہوا، انجینئر یہ سمجھ کردونوں جانب سے کھو دی جانے والی سرنگ میں فرق آگیا ہے، وہ اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ اُن نے اسی دن خودکشی کرلی۔ لیکن سرنگ ایک روز بعد درمیان سے ملا دی گئی۔ انجینئر اگر جذباتی نہ ہو جاتا تو اپنے شاہکار کی تکمیل کا شاہد ہوتا۔
ہندوستان میں چونتیس کلومیٹر لمبی ریلوے لائن کا عوام کے لیے آغاز 1853ء میں ہوا۔ پاکستانی علاقوں میں ریل گاڑی کب اور کس طرح چلی، اس کے لیے کن لوگوں کی کاوشیں نمایاں رہیں، کہاں کہاں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، یہ سب بہت دلچسپ داستان ہے۔ 13 مئی 1861ء کو کراچی سے کوٹری تک پہلی مسافر گاڑی نے اپنا سفر مکمل کیا۔ 1947ء میں ریلوے کا چالیس فیصد جو پانچ ہزار میل سے زائد پر مشتمل تھا، پاکستان کے حصے میں آیا۔ روہڑی اور سکھر کے درمیان دریائے سندھ حائل تھا۔ یہاں ریل کے ڈبوں کو چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعے دوسرے کنارے پر پہنچایا جاتا تھا۔ کم چوڑائی کے جس مقام پر پل بنایا جاسکتا تھا، وہاں گہرائی زیادہ تھی اور ستون بنانا ممکن نہ تھا۔ برطانوی انجینئر سر الیکزانڈر نے اس عجوبہ روزگار پُل کا ڈیزان لندن میں بیٹھ کر بنایا۔ لندن کی ورکشاپ میں اس کے مختلف حصوں کو بنایا اور جوڑا گیا۔ پھر وہاں سے کھول کراس تین ہزار تین سو ٹن وزنی دیوہیکل پُل کو سکھر پہنچایا گیا۔ جہاں اسے دوبارہ جوڑ کر عظیم الشان پُل کی صورت دی گئی اور 1889ء کو اس کا افتتاح ہوا۔ پاکستان کے مختلف خطوں میں ریل کا آغاز کیسے ہوا، اس کے لیے کن دشواریوں کا سامنا رہا، کئی المناک سانحے اور دلچسپ واقعات پیش آئے، روداد ریل کی میں ان سب کا تفصیلی ذکر ہے جو کتاب کے اختتام تک قاری کی توجہ ہٹنے اور دلچسپی میں کمی نہیں آنے دیتا۔
2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ریلوے لائنوں کی لمبائی گیارہ ہزارسات سو پچپن کلومیٹر تھی۔ ان لائنوں پر تیرہ ہزار آٹھ سو اکتالیس پُل اور تین ہزار آٹھ سو پندرہ پھاٹک ہیں، جن میں چودہ سو تینتیس پر ہمہ وقت عملہ موجود ہوتا ہے۔ ریلوے لائن کے اطراف سو فٹ تک کی زمین قانوناً ریلو ے کی ملکیت ہوتی ہے۔ گینگ مین اس پر نظر رکھتے ہیں کہ ریلوے کی حدود میں تجاوزات نہ بننے پائیں لیکن آج پاکستان میں ریلوے کی وسیع زمین پرقبضہ ہے۔
غرض فضل الرحمٰن قاضی کی ’’روداد ریل کی‘‘ ایک انتہائی دلچسپ اور معلومات افزا کتاب ہے، جس کا مطالعہ کرنے کی بھرپور سفارش کی جا سکتی ہے۔

(دانش)

اپنا تبصرہ بھیجیں