”اُردوئے مُعلٰی‘‘ مرزا غالبؔ کے خطوط کا مجموعہ ہے. مرزا غالب 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے. آپ نے پہلے اسد ؔ اور بعد میں غالبؔ تخلص رکھا. شاعری میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد رہے. آپ کا شمار اُردو زبان کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی، انشا پردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی، انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ مرزا غالبؔ نے خطوط کو مکالمہ بنا دیا. ”اُردوئے مُعلٰی‘‘ خطوط کا مجموعہ ہے، جو پہلی بار 1869ء میں شائع ہوا. ”عودِ ہندی‘‘ بھی ان کے خطوط کا مجموعہ ہے. انہوں نے اپنے خطوط کے ذریعہ سے اُردو نثر میں ایک نئی سمت کا اضافہ کیا اور آنے والے مصنفین کو طرزِ تحریر میں سلاست، روانی اور برجستگی سکھائی۔ البتہ مرزا غالب کے مخصوص اسلوب کو آج تک ان کی طرح کوئی نہ نبھا سکا۔ غالبؔ کے خطوط آج بھی ندرتِ کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔ ان کی شخصیت کی کامل تصویر اپنی تمام تر جزئیات و تفصیلات کے ساتھ ان کے خطوط ہی میں دیکھی جا سکتی ہے۔
مرزا غالبؔ کا انتقال 1869ء میں ہوا. آپ کا مزار دہلی میں واقع ہے.
”اُردوئے مُصفٰی‘‘، بابائے اُردو مولوی عبد الحق کے خطوط کا مجموعہ ہے. مولوی عبد الحق 1870ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئے. علی گڑھ سے بی اے کیا. آپ برِ صغیر پاک ہند کے عظیم اُردو مفکر، محقق، ماہر لسانیات اور معلم تھے. آپ نے اُردو زبان کی ترقی و ترویج کے لیے بے حد کام کیا. مولوی عبد الحق قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آئے اور ”انجمنِ ترقی اُردو‘‘ کی بنیاد رکھی. 23 مارچ، 1959ء کو حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
بابائے اُردو مولوی عبد الحق 16 اگست، 1961ء کو کراچی میں وفات پا گئے۔ آپ وفاقی اُردو یونیورسٹی، کراچی کے عبد الحق کیمپس کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔