کہا جاتا ہے کہ ایران کے بادشاہ جمشید کے پاس ایک پیالہ تھا. اس کو گردش دینے سے دنیا کے تمام حالات کا علم ہو جاتا تھا. اسے ’’جامِ جَم‘‘ کہا جاتا ہے. جمشید کو ایران کے شمسی کیلنڈر سمیت دیگر کئی چیزوں کا موجد خیال کیا جاتا ہے.
سر سید احمد خاں نے ’’جامِ جَم‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی. اس میں امیر تیمور سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک 43 بادشاہوں کے حالات تحریر ہیں. سر سید احمد خاں 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے. سر سید نے قرآن اور سائنس کی تعلیم مغل دربار میں حاصل کی، جس کے بعد یونیورسٹی آف ایڈنبرا نے انہیں قانون میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ وہ ایک اچھے ادیب اور مسلمانوں کے عظیم راہ نما تھے. آپ نے 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مایوس مسلمانوں میں حوصلہ اور شعور پیدا کیا.
1859ء میں سر سید نے مرادآباد میں گلشن سکول، 1863ء میں غازی پور میں وکٹوریہ اسکول اور 1864ء میں سائنسی سوسائٹی برائے مسلمانان قائم کی۔ 1875ء میں، علی گڑھ میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا جو جنوبی ایشیا میں پہلی مسلم یونیورسٹی بنا۔ سرسید نے تمام ہندوستانی مسلمانوں کو اُردو کو بطور زبانِ رابطۂ عامہ اپنانے کی کوشش کی۔ سر سید کو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں میں ایک موثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے.
اُردو زبان پر سرسید کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے مولوی عبدالحق کا کہنا ہے:
’’سرسید احمد خاں نے زبان (اُردو) کو پستی سے نکالا، اندازِبیان میں سادگی کے ساتھ قوت پیدا کی، سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا، سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی، جدید علوم و فنون کے ترجمے انگریزی سے کروائے، خود کتابیں لکھیں اور دوسروں سے لکھوائیں۔ اخبار جاری کرکے اپنے انداز تحریر، بے لاگ تنقید اور روشن صحافت کا مرتبہ بڑھایا ”تہذیب الاخلاق‘‘ کے ذریعے اُردو ادب میں انقلاب پیدا کیا۔‘‘
سرسید احمد خاں نے 27 مارچ 1898ء کو 81 سال کی عمر میں وفات پائی اور علی گڑھ میں ہی دفن ہوئے.
