’’نانگا پربت‘‘ اک عشق کا نام ہے اور یہ لا حاصل بھی ہے اور حاصل بھی۔ لاحاصل اس طرح کہ ابھی تک اس کے وصل سے فیض یاب نہ ہوسکے روبرو چہرہ بچہرہ۔ لیکن یہ عشق حاصل ایسے ہے کہ اس بارے جہاں سے جو کچھ ملتا پڑھ لیتے، جو نظر آتا اس سے آنکھیں سیراب کر لیتے ہیں۔
تو جب حُسنِ اتفاق سے اپنے یوم پیدائش پر جو کہ عمر عقل کی طرف دو چار گام ہی دوری کا پتہ دینے آیا تھا تو اس پر یہ حسین اتفاق ہوا کہ ’’نانگا پربت کا عقاب‘‘ چلا آیا ایک تحفے کی صورت۔ اور پھر بِنا غور کیے اس کو پڑھنے کا آغاز کیا کہ یہ کس قسم کا عقاب ہے جو نانگا پربت کا ہے۔ ہمارا حال وہ تھا جو بچپن میں، گھر میں جب اخبار آتا تو سب سے پہلے تصویروں والا صفحہ دیکھتے یا اپنا بچوں کا صفحہ، بعد میں باقی چیزیں اگر قابل غور ہوتیں تو نظر مار لیتے۔ اس سفر نامے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ حالاں کہ مصنف کا نام بمعہ تصویر سرورق پر موجود ہے لیکن ہم نے اسے بائی پاس کیا اور سفر کے آغاز پر نظر کی۔
تو ابتدائیہ ہی اتنا سادہ اسلوب لیے تھا کہ بس پھر دل میں خیال آیا اس سفرنامے کے ساتھ گاڑھی چھنے گی اور پھر سرورق، پیش لفظ وغیرہ کو پڑھا۔۔۔
خوش گوار حیرت و خوشی ہوئی کہ تارڑ صاحب نے اس سفرنامے بارے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سفر سے بہتوں کا نہیں لیکن کچھ کا بھلا ضرور ہوگا۔ تو شاید اس کچھ میں مابدولت بھی شامل ہیں۔ ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ تارڑ صاحب کا آگے بھی ذکر ہوگا اور خوب ہوگا۔
یہ سفرنامہ بلکہ اس سفر کا موجب ہی تارڑ صاحب کا سفرنامہ ’’نانگا پربت‘‘ ہے.
ندیم صاحب، جو تارڑ صاحب کے ’’شمشال بے مثال‘‘ کے ٹریک میں تارڑ صاحب کے 1999ء میں ساتھی بھی رہے۔ یہ سفرِ نانگاپربت 1997ء میں کیا گیا تھا اور پھر پندرہ سال بعد ماہنامہ سرگزشت میں قسط وار شائع ہوتا رہا اور اب اسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔
پہلے سفر نامے کی حیثیت سے یہ بہت بہترین ہے۔ مصنف کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اور تب انھوں نے اپنے ساتھ اپنے دوست، ساتھی جو کہ ناخواندہ تھے لیکن ان میں مناظر کا عشق عروج پر تھا لیکن وہ بس مری کی بلندیوں سے آگے کبھی نہیں گئے اور بہت سادہ ومعصوم طبیعت کے مالک، ان کی وجہ سے اس سفر میں ایک مسلسل مسکراہٹ کا ساتھ رہتا ہے اور مصنف کے لفظوں کے ذریعے آپ ان کی اس سادگی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ مصنف نے اس سفرنامے میں گزشتہ سے پیوستہ کا فلیش بیک بھی دیا جس سے مصنف کی ایک کوہ نوردی روح سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے اور یہ کیفیت ایک کوہ نورد، مناظر کے عشق میں مبتلا، ایک مہم جو روح کو بہت شاد کرتی ہے اور خود کو اس کیفیت کے عروج کو پوری طرح محسوس کرتی ہے اور یہ جو عشق پہاڑاں ہے اس کو مہمیز کرتی ہے۔ مصنف نے گلگت بلتستان کے بارے جو نانگا پربت کے عقاب کی آنکھ سے مناظر دکھائے اور محسوس کرائے اس میں کہیں بھی نہ قاری کو اجنبیت محسوس کرنے دی نہ اس کی دلچسپی کو کسی قسم کی کوفت ہوتی ہے بلکہ وہ بھی اسی کیفیت میں بہتا چلا جاتا جس کے تحت مصنف اس عشق کی آگ کو بھڑکاتے ہوئے ان مناظر کی لفظی تصاویر پیش کرتا چلا جاتا ہے اور دلچسپی کا عنصر کہیں بھی کم نہیں ہوتا۔ بلا شبہ یہ کتاب بک شیلف میں ایک بہترین اضافہ ہے۔
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق
اچھی تحریر ہے
بہترین
بہت اچھے انداز سے تبصرہ کیا گیا ۔۔۔ آغاز جس طرح سے کیا گیا کتاب کے متعلق دلچسپی کو بڑھاتا گیا۔
بہترین
بہت شکریہ تہنیت 🙂 ۔سفرنامہ بھی پڑھیے گا۔
Zabardast sumara, very well done 👏👏
بہت شکریہ نادرہ
اچھا تبصرہ ہے کتاب لینی پڑے گی
Bohat. Khoob. Sumara. Is tabsiray ne. Un dilon. Me bhi interest dal dia h jinhay. Paharon se zeyada dilchaspi nh it means. Lafzon. Me dilon. Ko. Mehsoor. Krnay ki. Salahiyat h…. Keep it up
بہت شکریہ سعدیہ
سر یہ کتاب کہاں سے ملے گی گائڈ کر دیں
ولید صاحب آپ رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی سے رابطہ کر لیجیئے، جو کتاب کے ناشر ہیں۔
https://www.facebook.com/rangeadab/