… میں دھواں گاڑی (مشرقی ہند کی پہلی ریل گاڑی 3 فروری 1855ء کو چلی تھی۔ اس وقت اسے دھواں گاڑی کہتے تھے) میں رواں دواں تھا لیکن سست روی سے، ڈر تھا کہ کہانی ختم نہ ہو جائے۔ کوئٹہ سے چلا کلکتہ پہنچا۔ ریل کی بھپا بھک، چھکا چھک، شاں شاں شوں شوں کے شور غوغا میں ”چائے لے لو، چائے، چائے والا“ کی آوازیں کان سے ٹکراتی رہیں اور ریل کے پہیوں کی گڑگڑاہٹ میں ریل کہانی چلتی رہی۔ راستہ میں بھانت بھانت کے لوگوں سے ملا۔ ریلوے کے معمولی ملازموں سے اعلٰی افسروں تک، مسافروں، قلیوں سمیت ریل کے ڈرائیور، گارڈ اور اس وقت ریل کے باورچی، بیروں سے بھی ملا۔
مجھے اس روز خبر ہوئی کہ مال گاڑی کے چالیسویں ڈبے میں بیٹھے گارڈ پر کیا گزرتی تھی جب وہ یخ ٹھنڈی اور اندھیری رات میں تن تنہا بیٹھا رہتا تھا۔ اور اس ڈرائیور کی کیا حالت ہوتی تھی جب کوئلے کے ذرات اُڑ اُڑ اس کی آنکھوں کا رُخ کرتے۔ ان مزدوروں کی حالت کا اندازہ ہوا جو تپتی دھوپ، بڑھکتی دوپہر میں ریل کی پٹڑیوں کی دیکھ بھال کر رہے ہوتے یا لوہے کے بڑے گزوں کے نیچے پتھر توڑ رہے ہوتے۔ داستان گو نے بتایا ”آج جو درۂ خیبر سے راس کماری تک ریلوے کی گھن گرج ہے اس میں ہانپتے ہوئے غریب محنت کشوں کی تھکی تھکی سانسوں کا شور بھی شامل ہے، ہمیں سنائی نہ دے تو قصور ہمارے کانوں کا نہیں؛ شعور کا ہے۔“
”ریل کہانی“، محترم رضا علی عابدی کی تصنیف ہے۔ رضا علی عابدی براڈ کاسٹر، صحافی اور ادیب ہیں۔ اہل علم و فن کی دنیا میں بڑا نام و مقام۔ پہلی مرتبہ جن کے نام سے میں اس وقت متعارف ہوا جب دورانِ لیکچر میرے محترم استاد نے مطالعہ کی اہمیت بتاتے ہوئے ان کا ذکر کیا اور بتایا کیسے انہوں نے کراچی سے پشاور تک دریائے سندھ کنارے سفر کیا اور کتب کی کتب پی گئے۔ مختصر ترین سامان کے ساتھ زادِ راہ میں کتابیں تھیں، جب وہ ختم ہو جاتیں تو اور منگوا لیتے۔
دریا میں پانی بہتا رہا جب کہ علم کا دریا، سندھ کنارے مشعل تھامے آگے چلے جا رہا تھا۔ فرمایا کرتے ہیں کہ مجھے نئی نسل اپنے باپ دادا کے حوالے سے جانتی ہے اور کہتی ہے کہ ہمارے آباء ریڈیو پر آپ کا پروگرام سنا کرتے تھے۔ بدبختی کا گمان ہوتا ہے کہ میرے باپ دادا نے مجھے ان کے بارے میں کیوں نہیں بتایا، نہ سنا ہو گا۔
دوسرے لمحے خوشی کی انتہا ہوتی ہے کہ میں ان سے بات کر سکتا ہوں۔ ان کی کتابوں کے طفیل ہی سہی، ان سے مل سکتا ہوں۔ خوش بختی ہی تو ہے کہ ہم ان کو دیکھ، سن، اور سب سے بڑھ کر پڑھ رہے ہیں۔ خدا ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم دائم رکھے۔ ان کا یہ سفرنامہ جسے کہنے کو ہم ریل کی کہانی تو کہہ سکتے ہیں لیکن وہ حقیقت میں انسان کی داستان ہے، جذبات کے قصے اور احساسات کی حکایتیں ہیں۔ 1996ء کے اوائل میں کیا گیا سفر، بی بی سی پر نشر ہونے والا دستاویزی پروگرام؛ غالباً سفر کی تیسری داستان جو کتابی شکل میں شائع ہوئی۔ یہ دستاویز ریلوے کے ہنستے بستے خوشگوار دنوں کی یاد ہے۔ بقول شخصے برصغیر کی ہتھیلی پر زندگی کی لکیر کی طرح دوڑنے والی ریلوے لائن کی کہانی کلکتہ سے کوئٹہ تک، انگریز کے فہم کا بچھایا ہوا جال، جو آج اپنوں کی بے حسی اور ناقدری کی یاد دلاتا ہے۔
کوئٹہ تک ریل کیسے چلی گئی؟ بلوچستان کے پہاڑوں، سندھ کے ریگ زاروں میں بل کھاتی ریلوے لائن جو 1886ء میں ڈالی گئی۔ صاحبِ کتاب اپنے دوست کے حوالے سے لکھتے ہیں جو کہا کرتا تھا۔ ”ہادی رسوا نہ ہوتے تو ایک شریف گھرانے کی لڑکی کوٹھے تک اور ہندوستان کے میدانوں کی ریل گاڑی کوئٹے تک نہ جاتی۔ “ مرزا ہادی رسوا کو تو سب ہی جانتے ہیں جنہوں نے ”امراؤ جان ادا“ جیسی یادگار کتاب لکھی۔ لیکن کون جانتا ہے کہ جب یہ ریلوے لائن بچھائی جا رہی تھی تو مرزا صاحب کوئٹہ میں ملازمت کرتے تھے اور اس ریلوے لائن کے سروے میں شریک تھے۔ ایک عجیب معاملہ ہے، بتاتے ہیں کہ ریلوے کا پورا محکمہ غریب ہے۔ بددیانت افسروں، ٹھیکیداروں کو چھوڑ کر جو شخص بھی اس محکمہ سے وابستہ ہوا وہ دولت مندی کے خواب ہی دیکھتا رہا۔ ریلوے کے تنخواہ یافتہ ملازموں میں ایک بات مشترک ہے کہ سب قناعت پسند ہیں۔
ریل کا سفر میں نے کئی بار کیا لیکن ذہن کی تختی پر کچھ سوال ابھرے تھے جن کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ ”ریل کہانی“ (کے مطالعہ) سے ابھرے سوالوں کے کچھ جواب ملے۔ انگریز کے ہاتھ سے جب ریل ہندوستانیوں کے ہاتھ آئی تو کیسی تھی، کیسی ہے؟ ریلوے اسٹیشن پر لٹکتی بالٹی کا پیندا گول کیوں ہے؟ آج خبر ہوئی۔ ریلوے کے معمولی ملازمین کے مسائل کا ادراک ہوا۔ پتا چلا کہ کیسے گٹھ جوڑ سے افسران توندیں بڑھاتے ہیں۔ ملازمین کی فائلوں پر چڑھ بیٹھتے ہیں اور وہ بیچارہ بس کراہ ہی سکتا ہے۔
آگے چلتے ہیں۔ دنیا کی پہلی ریل گاڑی سنہ 1825ء میں برطانیہ میں چلی۔ ہندوستان میں پہلی گاڑی سنہ 1853ء میں چلی۔ جب پہلی ریل گاڑی انگریزی دھنوں میں چار سو مسافروں کو لے کر چلی تو ہر رنگ، نسل کے لوگوں نے تالیاں بجائیں اور اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ اس میں 14 ڈبے لگائے گئے اور سندھ، سلطان اور صاحب نام کے تین انجن اسے کھینچ رہے تھے۔
آپ نے کبھی ریل گاڑی کا سفر کیا؟ نہیں؛ تو محروم رہے۔ ریل کے پیچھے ایک دنیا آباد ہے۔ اس میں لاکھوں لوگ کام کرتے رہے۔ کہتے ہیں ریل گاڑی کی الگ ایک دنیا ہے۔ ریل کے ڈبے میں قدم رکھتے ہی نہ صرف احساس بدلتا ہے بلکہ احساس کا مالک بھی بدل جاتا ہے۔ ریل کے ڈبے میں گھبرا کا داخل ہونے والے اشخاص کی علیک سلیک بعض اوقات گہرے مراسم میں بدل جاتی ہے۔ سو انسان کو پہچاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ ریل کا سفر کیجیے۔ بقول رضا علی عابدی ”یہ کتاب خراج عقیدت ہے۔ لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو جنہوں نے برصغیر کے طول و عرض میں لائینیں بچھائیں۔ کڑاکے کی دھوپ، برستی بارش، ناقص خوراک، ہولناک بیماریوں کی تباہ کاری کو جھیلتے ہوئیسروں پر مٹی ڈھو کر اپنی سرزمین کا سر بلند کیا۔“
ایک اور اقتباس دیکھیے؛ حقیقت ہے کہ ”ہم بڑے احسان فراموش ہیں۔ کیسے آرام دہ ریل گاڑی میں بیٹھ کر ہنستے کھیلتے چلے جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے بھی ان کا خیال نہیں آتا جن کی ہتھیلیوں کی لکیریں کوئی دست شناس پڑھ لیتا تو کہتا تم صدیوں تک کروڑوں لوگوں کو چین عطا کرو گے مگر خود مفلسی کی بے چین زندگی کا شکار رہو گے۔“ ریل کہانی کی چھوٹی سی کتاب میں ریل کا عہد قید کر دیا گیا ہے۔ ایک ایسا شاہکار جس میں پرت در پرت کہانیاں ہیں۔ اچھی کتاب آدمی کے ذہنی سفر کو ایک قدم آگے لے جاتی ہے۔ اور باشعور زندگی میں کوئی مقام ایسا نہیں آتا کہ انسان یہ محسوس کرنے لگے کہ اب مجھے کچھ نیا پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ”مجھے سب معلوم ہے“ کا بورڈ اگر لٹکا دیا تو سمجھ لیجیے کہ علم و دانش کے دروازے بند ہو گئے۔ چلیے اب ریل کا سفر کیجیے، کہانی پڑھیے، لیکن پہلے خرید تو لیجیے۔
(ہم سب)