گلی کا سحر سرما میں کیسا ہوتا ہے، یہ کوئی ایسا سوال نہ تھا جس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے نتھیا گلی جانا ضروری ہو لیکن سچی بات یہ ہے کہ جائے بغیر بیانیے کی صحت میں وہ توانائی نہ آ پاتی جو بات کو معیار کے درجے پہ فائز کرتی ہے۔ معمول کے مطابق روانگی ہوئی لیکن خلاف معمول اسلام آباد میں شب بسری ایک خوش گوار تجربہ تھا۔
بہت عرصہ ہوا ٹی وی پہ ایک ڈرامے سیریز چلا کرتی تھی، ’’ایک رات ایک کہانی‘‘
اس ڈرامہ سیریز میں ایک رات میں پیش آنے والے واقعات پہ مبنی انتہائی دلچسپ صورتحال کو ڈرامہ کی شکل میں پیش کیا جاتا تھا۔ یہ ایک بہت منفرد کاوش تھی اور اس کے ذریعے معاشرتی زندگی کے ان پہلوؤں کو دکھایا جاتا تھا جو عمومی طور پر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ اسی پس منظر کو ذہن میں لیے میں جب ہوٹل کی بکنگ کے لیے کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے نوجوان سے مخاطب ہوا تو اس نے مجھے ’’ایک رات ایک کہانی‘‘ کے افسانوی کردار کے طور پہ لیا اور وہی جمع شدہ دلائل سنانے شروع کیے جن کو سنتے سنتے سر کے بال سفید ہونا شروع ہو گئے۔
کچھ مزید کوشش کے بعد ایک معقول قیام گاہ منتخب کر لی گئی اور ہم چائنیز کھانے کا ذائقہ منہ میں لیے بستر کی جانب بڑھ گئے۔ ابھی آنکھوں میں نیند نہ اتری تھی کہ میرے دوست سیف اللہ خان مروت آف ڈیرہ اسماعیل خان، حال مقیم بنوں کا محبت بھرا فون وصول ہوا۔ سلام دعا کے بعد پہاڑوں کی باتیں شروع ہو گئیں اور رش پیک کی مہم کا ابتدائی شیڈول اور انتظامات کے دیگر پہلوؤں پہ سیر حاصل تبادلہ خیال ہوا۔
سیف کا ذکر جب بھی آئے میں اپنی اُنسیت کا اظہار کیے بغیر رہ نہیں پاتا اور بیگم کا یہ جملہ تسلسل سے سننے کو ملتا ہے کہ کبھی سیف بھائی کا ذکر کیے بغیر بھی پہاڑوں کا تذکرہ مکمل کر لیا کریں۔ سیف صاحب سے کرنل عبدالجبار بھٹی صاحب کی گوجرانوالہ آمد اور کوہ پیمائی سے متعلق ان کے بھرپور تجربات سے استفادہ کرنے کا سارا پروگرام زیر بحث آیا اور بات اتفاق رائے پہ ختم ہو گئی۔ فون رکھ کے میں سونے لیٹا تو بارش کی جلترنگ سنائی دی۔ میں نے اس آواز کو نظر انداز کیا کیوں کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا تھا۔
صبح دم ٹیرس پہ جا کے شہر محبوب کو سلام پیش کیا تو رات کی بارش کے خمار میں مبتلا مری روڈ میٹرو بس کے اسٹیشن سے آنے والی سرخ روشنی کے عکس میں نہائی ہوئی تھی۔ شہر کی ہوا کو اس کے نام کا پیغام دے کر میں گاڑی میں آ بیٹھا اور سفر شروع ہوا۔
کلڈنہ سے آگے نکلتے ہی گاڑی کے پہیوں نے سڑک پہ موجود پھسلن کا مقابلہ کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر بالآخر مقامی بھائی کی بات درست ثابت ہوئی کہ پہیوں کو ’’چین‘‘ لگائے بغیر گاڑی آگے نہ جائے گی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔۔۔ چین لگوائی گئی اور تب جا کے گاڑی خیریت سے ڈونگہ گلی تک پہنچی۔ برف باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا اور اسی برفا برفی میں ہم مکشپوری کی طرف بڑھ گئے۔
مکشپوری نے چاروں جانب برف کی سفید چادر اوڑھ رکھی تھی اور پاؤں روئی کے گالوں میں دھنستے نکلتے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ آج معمول سے بہت کم رش تھا اور اس کی وجہ یہاں کا خراب موسم تھا لیکن منچلوں کے لیے کوئی رکاوٹ رکاوٹ نہیں رہتی۔ اداسی کی لہر ایک دم ساری کیفیات پہ بازی لے گئی۔ تنہائی میں مجھے ہر وہ شخص بہت یاد آیا جس کا میری زندگی کو سجانے، سنوارنے اور سنبھالنے میں ذرا سا بھی کوئی ہاتھ تھا۔ دل تشکر بھرے جذبات سے بھر آیا اور میں نے اپنی دعاؤں کا رخ ان سب کی طرف کر دیا۔
ٹاپ پر سرد ہوا کے تھپیڑوں کے سامنے زیادہ دیر ٹھہرنا ممکن نہیں تھا سو محبوب کے قدموں کا بوسہ لے کر واپسی کا سفر شروع کیا۔
مکشپوری ہمیشہ کی طرح دائم آباد اور خوش تھی۔۔۔
پھر میں نجانے کیوں اداس ہو گیا۔۔۔
اسی ادھیڑ بن میں ہوٹل تک پہنچ گیا۔۔۔
مکشپوری تو سلامت رہے۔
(مسافر شوق)